آج کے ایکسپریس کی دونوں خبریں پڑھیں اور سوچیں حکومت کتنی بیباک ہو چکی ہے جسے عوام کے غضب کا بالکل ڈر نہیں رہا۔ ایک طرف وزیراعظم کہ رہے ہیں “دو سال مشکلات کے تھے اب عوام کو ریلیف دیں گے” اور دوسری طرف ایکسپریس کی شہ سرخی ان کے بیان کا منہ چڑا رہی ہے۔ شہ سرخی ہے “بجلی ایک روپیہ دو پیسے یونٹ مہنگی”۔
کئی دھائیاں پہلے مہنگائی سال میں ایک بار بجٹ کے موقع پر ہوا کرتی تھی۔ اب بجٹ میں مہنگائی نہیں ہوتی مگر سال کے باقی گیارہ مہینوں میں مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔ پہلے بجٹ کی وجہ سے مہنگائی بڑھنے پر عوام تڑپ اٹھا کرتے تھے اب ہر ماہ مہنگائی کا جھٹکا ایسے برداشت کر جاتے ہیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔
کہتے ہیں جس طرح پستی اور بلندی کی کوئی حد ہوتی ہے اسی طرح ہر سٹاک کی نیچے اور اوپر والی قیمت ہوتی ہے مگر نیچے اور اوپر قیمت کا تعین کوئی بھی نہیں کر پاتا۔ کچھ اسی طرح اب مہنگائی کہاں رکے گی کسی کو معلوم نہیں ہے۔ خیال یہی ہے کہ مہنگائی تبھی رکے گی جب لوگ ایک ایک دانے کو ترسنے لگیں گے اور پھر خونی انقلاب آئے گا۔
4 users commented in " کھلا تضاد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کو اس قوم میں انقلاب کا تخم نظر آتا ہے؟
آپ بات کو سمجھ نہیںپارہے، جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عوام کو ریلیف دیںگےتو عوام سے مراد آپ پاکستان میں پندرہ سولہ کروڑ حشرات الارض سمجھ لیتے ہیں! یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہے، وزیر اعظم کا نہیں۔ وہ اپنے عوام کو دھڑادھڑ ریلیف دے رہے ہیں۔۔۔
آپ کو اس قوم میں انقلاب کا تخم نظر آتا ہے؟ ڈفر-
انقلابات،۔ کرشماتی اور کم ازکم اپنے کاز کی حد تک دیانتدار رہنماؤں کے بغیر نہیں آتے۔انقلابات جو عمومی طور پہ تیز ترین اور خونچکاں ہوتے ہیں۔ایسے انقلابات کے لئیے بعض اوقات مخصوص حالات، درست یا غیر درست طور پہ ایسے رہناءپیدا کر لیتے ہیں جو انقلاب کے سفینے کو پار اتار دیں۔ مگر فی الحال ایسے رہنماؤں کے اس “تُخم“ کا شائبہ تک بھی ابھی اپنی قوم میں نظر نہیں آتا۔ شاید ہماری قوم ُ ُاوتر نکھتر،، ہوچکی ہے۔
دوسری قدرے بہتر مگر مشکل صورت “اصلاحات“ ہیں جو اوپر سے نیچے آتی ہیں۔ اور جنکے ثمر میں بیس پچیس سال بھی لگ سکتے ہیں۔ یہ صورت بھی اس حکومت سے ناممکنات سے ہے۔ کہ اس کے لئیے بھی دیناتداری ناگزیر امر ہے۔
تیسری صورت “اسٹیٹس کو“ کی ہوتی ہے۔ یہ حکومت اس میں بھی ناکام ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ چور اور خائن حکمران ہوں اور ایسے حکمران اپنے خلاف غبن اور خیانت کے مقدمات بھی بھگتیں اور اپنی انتظامیہ کو اپنے خلاف ثبوت، شواہد اور بغیر کسی دباؤ کے مقدمات قائم کرنے اور انکی پیروی بھی کرنے دیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسا خلافِ فطرت ہے ۔ ایسی صورت میں ریاست “اسٹیٹس کو اسٹیٹ“ کی بجائے “بنانا ریپلک“ میں بدل جاتی ہے۔
ہمیں، آپ کو اور ساری قوم کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئیے کہ ہمارے حکمران ہمیں “بنانا ریپبلک“ کے عوام سمجھتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
واقعی ہماری حکومت توبہت ہی بےباک ہوچکی ہے۔۔۔
والسلام
جاویداقبال
Leave A Reply