اس سے پہلے ہم قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر 2009 اور 2007 میں یہاں اور یہاں لکھ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں مزید لکھنے کی گنجائش تو نہیں رہی مگر پھر بھی چند سطور کا اضافہ کیے دیتے ہیں۔ بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بھی فوجی جرنیل کے ساتھ کیا اور اس کا انجام بھی فوجی جرنیل کے ہاتھوں ہی ہوا۔
بھٹو جیسا شاطر سیاستدان اس کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ عام سیاستدانوں کی طرح سالوں کے کام دنوں میں نپٹانے کے چکر میں جلد ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ ہمارے ایک دوست کے جواں سال بیٹے چند سال قبل ایک ٹریفک کے حادثے میں فوت ہو گئے۔ ان کا بیٹا مہا کا جلد باز تھا۔ ہر کام جلدی جلدی کرتا۔ روٹی کھانی ہو یا سائیکل چلانی ہو ایسے کام انجام دیتا جیسے اسے کسی چیز کی جلدی ہے۔ اس کی وفات پر اس کے باپ کا بیان تھا “شاید خدا کو اسے جلد اوپر بلوانا تھا تبھی وہ سارے کام جلد سے جلد نپٹا گیا”۔ بھٹو جتنی جلدی قومی افق پر ابھرا اتنی ہی جلدی ڈوب بھی گیا۔
بھٹو کی برسی پر مصطفے کھر نے انکشاف کیا ہے کہ ایک جرنیلوں کے ٹولے نے بھٹو کو جیل سے رہا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ کھر کے جھوٹا ہونے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ناقابل اعتبار آدمی ہیں۔ دوسرے انہوں نے یہ انکشاف تیس سال بعد کیوں کیا؟ بینظیر نے یہ انکشاف اپنی زندگی میں کیوں نہیں کیا؟ جیو نے یہ خبر جاری کرنے سے پہلے کھر کی اس افواہ کی تصدیق زندہ جرنیلوں سے کیوں نہیں کی؟
6 users commented in " ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور برسی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپیپلز پارٹی آج اسی بھٹو کے کرموں کا ہی تو کھا رہی ہے، بھٹو کا کیریر اچھائیوں اور برائیوں سے پر ہے۔چند کام وہ ایسے کر گیا جو شایدہی کوئی اور کر سکتا تھا، پاکستانی سیاست کو دیکھیں تو صیحح معنوں میں ایک لیڈر یا سیاستدان بھٹو ہی تھا، بقیہ کوئی بھی بین الاقوامی طور پر کسی فورم میں پاکستان کے لیے بول نہیں سکا، آج کل کے سیاستدان امریکہ جا کر پاکستان کا سب کچھ تنکوں کے عوض لٹا آتے ہیں اور واپس آکر کہتے ہیں دورہ کامیاب رہا، بے شک بھٹو کی ذات سے کچھ تاریک پہلو بھی جڑے ہیں، لیکن میرے خیال سے آج بھی بھٹو کے پائے کا سیاستدان پوری اسلامی دنیا میں کہیں نہیں ہے
لو جی یہ تو چنگی بھلی تعریف لکھ دی میں نے باتوں ہی باتوں میں
یہ درست ہے کہ بھٹو سے بھی کئی غلطیاںسرزد ہوئیں جس کی وجہ سے حالات کچھ ایسا رخاختیار کر گئے کہ آمریت کا منہ دیکھنا پڑا اور پھر جان سے بھی ہاتھ گنوانے پڑے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ کئی ایسے منصوبے اور کام واقعی قابل تعریف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اگر آج کچھ بھی ہو، کیسی بھی صورت میںچلائی جا رہی ہو، اہم اور بڑے فیصلے، مفاہمت اور آئینی مسائل حل کر سکتی ہے، یہ دوام اور یہ ہمت اور طریقہ بھٹو کا ہی سکھایا ہوا ہے۔
بھٹو اگر اپنی ذات کے خول سے باہر آسکتے تو پاکستان کو کیا سے کیا بنا جاتے۔ بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا لیکن پھر بھی اپنے پیچھے ایک ایسا سحر چھوڑ گئے کہ آج لوگ صرف اقتدار کی آس میں“بلاول بھٹو زرداری“ بنے پھرتے ہیں۔
بھٹو نے تین ایسے کام کیئے کہ اس کا مرجانا ضروری ہوگیاتھا ،ایک اس نے امریکہ کو لتاڑا چائنا انڈیا اور پاکستان کو اسلحہ بیچنے پر،پھر اس نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی راہ دکھائی اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر کمپرومائز نہیں کیا،
اگر یہ کہا جائے کہ بھٹو خاندان کینیڈی خاندان اور گاندھی خاندان کے قتل کے تانے بانے آپس میں جا ملتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا!
بھٹو صاحب کے بارے میں اوپر لکھےگئےتبصرے حقیقت بر مبنی ھیں۔اگر آُپ لانگ ٹرم میں دیکھیں تو جنرلوں نے جتنا نقصان پاکستان کوپہنچایا ھے اتناامریکہ ،اسرائیل اور انڈیانے بھی نھیں پہنچایا۔
بھٹو صاحب نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی خاطر جان دی۔پاکستان کی عمارت آج دو ستونوں پر کھڑی ہے۔
1: نیوکلیئرپاور۔
2: 73 کا آئین۔
اور یہ دونوں ستون بھٹو صاحب کے دیے ہوئے ہیں۔اگر بھٹو صاحب کو زندہ رہنے دیا جاتا تو آج صیہونی طاقتیں عالم اسلام کے سامنے گھٹنے رگڑ رھی ہوتی۔
بلاشبہ بھٹو صدیوں کا بیٹا تھا۔
دوستو:واقعی بھٹو صاحب جیسے لیڈر صدیوں میں پیدا ھوتے ھیں۔لیکن افسوس صد افسوس
اتنی عظیم ہستی کی اولاد ایک دم کرپٹ نکلی۔اور اس وقت بھی پاکستان اور پاکستانی عوام بھٹو صاحب کی کرپٹ اولاد کے ھاتھوں لٹ رھی ہے’
Leave A Reply