کہتے ہيں جو حج جمعہ کے دن ہوتا ہے اسے حجِ اکبر کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس سال جو لوگ حج کريں گے ان کو حجِ اکبر کا ثواب ملے گا۔ ليکن کيا ايسے لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو صرف نمودو نمائش کي خاطر حج کرنے گۓ ہيں جيسے ہمارے حکمران عمرہ کرنے جاتے ہيں اور کعبہ کے اندر تک کي سير کرکے آتے ہيں ليکن وہ عمرہ يا حج اپنے دين اور دنيا کي بھلائي کيلۓ نہيں کرتے بلکہ اپني رعايا کو بيوقوف بنانے کيلۓ کرتے ہيں۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو تجارت کي خاطر حج پر گۓ ہيں يعني وہ لوگ جو حاجيوں کا گروپ لے کر حج کررہے ہيں۔
ان حاجيوں ميں خدا کي وہ مخلوق بھي شامل ہوگي جو صرف جيبيں کاٹنے کيلۓ حج کے سيزن ميں سعودي عرب گئ ہے۔ يہ مخلوق دورانِ طواف دوسروں کي جيبوں کا سفايا کررہي ہو گي ليکن اس نے اپنے حج کي کوئي نہ کوئي توضيح ضرور گھڑ رکھي ہوگي۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو اپنے بہن بھائيوں کو پيھچے دھکيل کر خود حجرِ اسود کا بوسہ لينے کي خود غرضانہ کوشش کررہے ہوں گے۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو اپنے ہمسفر دوست و احباب کي دل آزاري کررہے ہوں گے اور سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ ان کي تربيت کررہے ہيں۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو اپنے پيچھے ان کے ظلم سے ستاۓ ہوۓ بد دعائيں دينے والے عزيز واقارب چھوڑ گۓ ہوں گے۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جن کا پڑوسي معاشي تنگدستي کا شکار ہوگا اور وہ سوا ديڑھ لاکھ روپيہ خرچ کرکے اپنے لۓ جنت خريدنے خانہ کعبہ کا طواف کررہے ہوں گے۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو شيطان کو کنکرياں مارتے ہوۓ اپنے آپ کو دينا جہان کا نيک و کار سمجھ رہے ہوں گے۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو حج کے بعد بھي کاروبار اور لين دين ميں دھوکہ اور فريب کو برقرار رکھيں گے۔
کيا ان سرکاری حاجيوں کوبھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو حکومتي خرچ پر حج کرنے گۓ مگر واپسي پر پھر قومي دولت کو اپني دولت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹيں گے۔
کيا ان لوگوں کو بھي حجِ اکبر کا ثواب ملے گا جو اپنے والدين کو ناراض چھوڑ کر خدا اور اس کے رسول کو منانے کيلۓ مکہ مدينہ کي ياترا کر رہے ہيں۔
ہمارا سو فيصد يہ خيال ہے کہ اگر حاجي صدقِ دل سے حج کريں اور اپنے آپ کو حج کے بعد بدل ليں يعني معاشرتي برائيوں سے توبہ کرليں تو وہ وقت دور نہيں جب مسلمان دنيا پر دوبارہ حکمراني کرنے لگيں گے۔ ہماري سب سے بڑي کمزوري ہمارے قول و فعل ميں تضاد ہے۔ جو ہم کہتے ہيں وہ کرتے نہيں۔ مثلاً حج کرنے کا مطلب گناہوں سے توبہ اور اس کے بعد تمام برائيوں سے کنارہ کشی ہوتا ہے مگر ہم بار بار حج اسي لۓ کرتے ہيں کہ برائياں تو چھوڑ نہيں سکتے اسلۓ ہرسال گناہ بخشوانے مکہ پہنچے ہوتے ہيں۔
غور کريں اس دفعہ تيس لاکھ لوگ حج کررہے ہيں اور اتنے لوگوں کيلۓ دنيا کو بدلنا مشکل کام نہيں ہے ليکن شرط يہ ہے کہ وہ حج کے بعد خود کو بدل ليں۔ ان لوگوں کا حج اس وقت قبول ہوگا جب وہ حج کے بعد معاشرے کيلۓ ايک ماڈل ثابت ہوں گے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنے عمل سے متاثر کرتے ہوۓ بدل ديں گے۔ اگر ايسا نہيں ہوتا تو سمجھيں کہ انہوں نے روپيہ اور وقت دونوں برباد کۓ۔ اگر حاجيوں کا حج کرنے کا مطلب صرف نمودونمائش اور دنيا ميں ذاتي مفاد کا حصول تھا تو پھر ان کا پيسہ اور وقت ضائع نہيں ہوا ليکن اپني آخرت انہوں نے ضرور خراب کرلي۔
اللہ ہميں حج نيک نيتي سے کرنے اور اس کے بعد حج کا جو مقصد ہے اسے پانے کي توفيق دے۔ آمين
4 users commented in " حجِ اکبر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackحج کی دو قسميں ہيں ۔ الحج الاکبر اور الحج الاصغر ۔ الحج الاکبر ہم لوگ حج کہتے ہيں اور اور الحج الاصغر ہم لوگ عمرہ کہتے ہيں ۔ يہ جمعہ والی بات نمعلوم کس نے بنائی اس کی کوئی سند موجود نہيں ہے ۔
اگر آپ صرف سوال پوچھے کی بجائے ان کے جواب واضح کر ديتے تو بہتر ہوتا ۔
حج صبر و تحمل کی تربيت گاہ بھی ہے اسلئے جو يہ تربيت حاصل نہيں کرتا اس کا حج ناقص ہے ۔
نمود و نمائش کيلئے کيا ہوا عمل قبوليت کا حقدار نہيں ہوتا ۔
صرف تجارت کيلئے حج پر جاتا درست نہيں البتہ حج کے دوران تجارت کی اجازت ہے اور اس ميں کوئی قباحت نہيں ۔
حج کے دوران جيبيں کٹتی ہیں ليکن ہم نے طواف کے دوران کٹنے کا نہيں سنا ۔
کسی کی دل آزاری کا گناہ اور حج کا ثواب دو الگ الگ چيزيں ہيں ۔
نصاب حاصل ہو جانے پر حج فرض ہو جاتا ہے ۔ معاشی طور پر بدحال کی مدد الگ ثواب رکھتی ہے ۔ حج تو ہو جائے گا ليکن اگر مدد کرنے سے نصاب کم ہو جائے تو حج نہ کرنے کا گناہ نہيں ملے گا ۔
جو آدمی صرف اللہ کيلئے حج کرنے جاتا ہے وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے جاتا ہے بڑائی جتانے نہيں ۔
حج کا ثواب تو مل جائے گا مگر دھوکا فريب گناہوں کا پلڑا بھری کر کے جہنم ميں پہنچا سکتے ہيں ۔
کسی کے مال سے صرف اس شخص کا حج قابلِ قبول ہوتا ہے جو خود مالی حثيت نہ رکھتا ہو مگر آرزو رکھتا ہو اور کوئی اسے اپنے مال سے حج بدل يا ويسے ہی حج کرا دے ۔
حج پر جانے کيلئے والدين کی اجازت ضروری ہے بشرطيکہ وہ مسلمان ہوں ۔ اور اگر والديں بيمار يا لاغر ہوں يا پيچھے ان کے نان و نفقہ کا کوئی بندوبست نہ ہو تو حج پر نہيں جا سکتے
اجمل صاحب
آپ کے تبصرے نے ہماری ادھوری تحریر کو مکمل کردیا۔ شکریہ
حج اکبر کی غلط روایت کی درستگی کا بھی ایک بار پھر شکریہ۔ پتہ نہیںیہ روایت کہاں سے آئی ہے۔ ابھی ابھی اخباروں نے اسی روایت کی بنا پر اس حج کو حج اکبر کہا ہے۔
جی بھائی جان واقعہ میںآپ نے صحیح کہا۔ حج کرنے جارہے ہیںمگر اس کا طریقہ بھی نہیں آتا جیسے معلم کہتا جارہا ہے کرتے جارہے ہیں۔ہمیںچاہیئے کہ حج کرنے سے قبل اس بارے میںاچھی طرح معلومات اکٹھی کرلیںتاکہ وقت آنے پر دلی اطمئنان وسکون سے حج کرسکیں۔ اور کسی کی غلط باتوںمیں نہ آئیں۔ میںنے یہاںایک بات نوٹ کی ہے کہ کمپنی والے حج کرنے والے کے سامنے چار پانچ قسم کے پیکج کی آفر کرتے ہیں کہ اس پیکج میںیہ ہوگا اور اس میں یہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جیسا کہ حج ان کی اپنی ایجاد ہے۔ اب اگر حاجی کو حج کے بارے میںمکمل معلومات ہیںتب اس کا حج قبول ہونے کے چانسسز ہیں، بشرطیکہ نیت صاف ہو۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میںایک بار حج کیا اور ہر مسلمان عاقل بالغ قادر پر ایک دفعہ حج کرنا فرض ہوا جبکہ میں نے یہ ملاحظہ کیا ہے کہ یہاںسعودی عرب میں رہنے والے غیر ملکی ہر سال حج کرنے چلے جاتے ہیںاور واپسی پر آتے ہی وہی سگریٹ نوشی اور فلمی کلچر اور طاش اور جوا وغیرہ وغیرہ پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ان میںسے ایک سے پوچھا کہ یار کل آئے اور آج تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہی پرانے کاموں کی طرف لوٹ آئے ہو ، کب سدھرو گے تم لوگ، حج کو مزاق بنارکھا ہے، کہنے لگا بھائی ہر سال حج کرکے اپنے گناہ بخشوا لیتے ہیں۔(استغفرواللہ)
حج اکبر کے دن سے مراد ، یوم النحر یعنی ١٠۔ذی الحجہ کا دن ہے ۔
جیسا کہ قرآن کی اس آیت سے ظاہر ہے ؛
وَأَذَانٌ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ
اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ (عام) ہے ۔۔۔
۔( سورہ التوبہ 9 ، آیت : 3 )۔
بخاری ، مسلم ، ترمذی اور ابو داؤد کی حدیث کے مطابق حج اکبر کا دن ١٠۔ذی الحجہ کو کہا جاتا ہے ۔ اور اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کیے جاتے ہیں ۔
ابو داؤد کی حدیث کا حوالہ ؛
حضرت ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ؛
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیا اس حج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر ( قربانی والے دن ) والے دن کھڑے ہوئے اورفرمایا : یہ کونسا دن ہے ؟
صحابہ کرام نے عرض کیا : قربانی کا دن ۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ حجِ اکبر کا دن ہے ۔
۔( ابو داؤد ، كتاب المناسك ، باب : يوم الحج الاكبر ، حدیث : 1947)۔
دیگر کتبِ احادیث کے عربی متن کے حوالے ؛
صحیح بخاری ، کتاب الحج ، باب الخطبة ايام منى ، حدیث نمبر : 1769
صحیح مسلم ، کتاب الحج ، باب لا يحج البيت مشرك ولا يطوف بالبيت عريان وبيان يوم الحج الاكبر، حدیث نمبر : 3353
ترمذی ، كتاب الحج عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في يوم الحج الاكبر ، حدیث : 972
اُس زمانے میں عوام ، عمرے کو حجِ اصغر کہا کرتے تھے ، اس لیے بھی عمرے سے ممتاز کرنے کے لیے حج کو حجِ اکبر کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت اس بات کا اظہار کرتے ہیں ۔
عوام میں جو بات مشہور ہے کہ جو حج ، جمعہ والے دن آئے ، وہ حجِ اکبر ہے ۔۔۔ تو یہ بے اصل بات ہے ۔
Leave A Reply