ہمیں شروع سے رمضان کے مہینے میں کرکٹ کھیلنے سے چڑ رہی ہے اور سجمھتے ہیں کہ روزہ دار سہ پہر کے وقت تھوڑی دیر کیلیے کرکٹ کی پریکٹس تو کر سکتا ہے مگر سارا دن کرکٹ نہیں کھیل سکتا۔ کیونکہ سارا دن کھیلنے کی صورت میں ایک تو کھلاڑی کی کارکردگی پر فرق پڑتا ہے اور دوسرے اس کی صحت کیلیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر روزہ دار پانچ دن ٹیسٹ میچ کھیلے تو زیادہ چانسز ہیں کہ اس کا جسم پانی کی کمی کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہو جائے گا بلکہ پانی کی کمی سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
لیکن چونکہ ہماری ٹيم کے کھلاڑیوں کے بارے میں یہی گمان کیا جاتا ہے کہ وہ کھلنڈرے ہوتے ہیں، پیتے پلاتے بھی ہیں، کلبوں میں بھی جاتے ہیں اسلیے زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ روزے نہیں رکھتے ہوں گے۔ لیکن اس دفعہ لگتا ہے کم از کم یوسف اور کپتان سلمان بٹ تو روزے رکھ رہے ہوں گے۔ اس سے پہلے یوسف اور آفریدی رمضان میں کرکٹ کھیلنے سے معذرت بھی کر چکے ہیں۔
ویسے ایک مسلمان ملک کی ٹیم ہونے کے ناطے ہمیں چاہیے کہ رمضان میں ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ نہ ہی کھیلا کریں۔ ہمیں یقین ہے کرکٹ بورڈ گیارہ مہینے میں سے ایک مہینہ آسانی سے کھلاڑیوں کے آرام کیلیے نکال سکتا ہے۔ روزے کے بغیر کھلاڑیوں کا یوں کرکٹ کھیلنا مسلم اور غیر مسلم دونوں کیلیے کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔ کیا آپ بھی ہم سے متفق ہیں؟
12 users commented in " کیا رمضان میں کرکٹ کھیلنی چاہیے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں آپ سے پوری طرح متفق ہوں۔
میں بھی متفق ہوں۔ کرکٹ ٹیم کو رمضان میں کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیئے۔
سچی بات تو یہ ہے۔ آجکل جو حالات پاکستانی کرکٹ اور کرکٹرز کے ہیں۔ اس سے تو کرکٹ کھیلنی ہی نہیں چاہئیے۔ کرکٹ پہ اٹھنے والا خطیر سرمایہ اور اشتہارات کی آمدنی کی بندر بانٹ کی وجہ سے یار لوگ پاکستان میں کرکٹ سے چمٹے ہیں ۔ موجاں ای موجاں۔
کرکٹ پہ اٹھنے والے اخراجات کا منہ غریب نواز کھیل فٹ بال یعنی سوکر وغیرہ اور دوسرے ان کھیلوں کی طرف موڑا جانا چاہئیے۔ جس سے پاکستان میں کھیلے جانے والے دوسرے کھیلوں اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
ہماری ٹیم زیادہ تر رمضان میں کرکٹ کھیلتی ہے ۔۔۔ وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔۔ اللہ جانے ، اب کوئی 18 گھنٹے کا روزہ رکھ کر تو کھیلتا نہیں ہو گا ،،،۔۔۔۔
پاکستان میں رمضان میں جتنی کرکٹ کھیلی اتنی کسی اور مہینے میں نہیں کھیلی جاتی۔
ویسے رمضان میں کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیئے۔
میرے خیال میں نہیں کھیلنا چاہیے
يہ خيال تو درست ہے کہ رمضان کے مہينے ميں ايسا کوئی کام نہيں کرنا چاہيئے جس کا عبادت پر بُرا اثر ہو ۔ مگر اس کا فيصلہ جو ضاحب اختيار کرتے ہيں اُنہيں چاہيئے کہ يہ بات مدِنظر رکھيں
ويسے اس زمانہ ميں جب زيادہ تر کھلاڑی کھلنڈرے ہی ہوتے تھے اور شارجہ کپ پاکستان نے جيتا تھا جس ميں جاويد مياں داد نے چھکا لگا کر جيت مکمل کی تھی ۔ جاويد مياں داد کا روزہ تھا
نان ایشو۔
راشد صاحب سے متفق 🙂
بھائی میں آپ کیہ باتوں سے متفق ہوں
رمضان میں زیادہ کرکٹ کھیلی جاتی ہے شاید اس وجہ سے کہ کرکٹر پوری ایمانداری سے کھیلیںگے ۔۔۔۔ مگر یہاں بھی ناکامی ہوئی۔
بہرحال میں آپ کی بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ رمضان کے عشرے میں ایک مسلمان ٹیم کو کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے۔
رمضان میں دو دفعہ جوش میں ورزش کر لی تھی۔
تیسرے دن ہوش ٹھکانے آگئے۔
اب اچھے گذر رہے ہیں جی۔ روزے شریف
Leave A Reply