کتنا اچھا ہوتا اگر پاکستان اسرائيل سے تعلقات بڑھانے کي بجاۓ اپنے بچھڑے ہوۓ حصّے بنگلہ ديش کے ساتھ روابط بڑھاتا۔ جب سے مشرقي پاکستان الگ ہوا ہے کسي حکومت نے نيک نيّتي سے کوشش نہيں کي کہ بنگلہ دیش کے ساتھ معمول کے تعلقات بڑہاۓ جائيں تاکہ پراني رنجشيں دور ہوں اور بچھڑے ہوۓ بھائي دوبارہ ايک ہو سکيں۔ مگر ہميں تو وہي کرنا جو ہمارے اقتدار کو قائم ودائم رکھ سکے چاہے اس کے ليۓ ہميں دوسروں کے پاؤں کيوں نہ چاٹنے پڑيں۔ اب حکمرانوں کو پتہ ہے کہ ان کي جان امريکہ کي مٹھي ميں ہے اس ليۓ وہ امريکہ کے کہنے پر اسرائيل سے بھي تعلقات بڑھانے سے بھي نہيں شرماۓ۔ چونکہ بنگلہ ديش سے بات چيت کرنے سے حکمرانوں کي نوکري پر کوئي فرق نہيں پڑے گا اس ليۓ انہيں اس بات کي پرواہ نہيں ہے کہ قوم کيا چاہتي ہے۔ اسرائيل کے آگے جھکنے سے بہتر تھا بنگلہ ديش کي خواہش پر اپنے گناہوں کي معافي اپنے بھائيوں سے مانگ لي جاتي۔ مگر ايسا کرنے سے مسلمانوں ميں اتحاد پيدا کرنے کا جواز پيدا ہوتا جو ہمارے امريکي آقاؤں کے مفاد ميں نہيں ہے اس ليۓ ہم يہ نيک کام کيوں کريں۔
کتني آئيڈيل صورت ہوتي اگر صدر مشرّف بنگلہ ديش کا دورہ کرتے اور جيوش کانگرس کي بجاۓ بنگلہ ديش پارليمينٹ سے خطاب کرتے اور اپنے روٹھے ہوۓ بھائيوں کو مناتے۔ ہميں آج تک سمجھ نہيں آسکي کہ حکومت اس طرف توجہ کيوں نہيں دے رہي۔ بنگالي جيسے بھي ہيں ہمارے بچھڑے ہوۓ بھائي ہيں اور وہي اسرائيليوں سے زيادہ ہمارے لئے دل ميں درد رکھتے ہيں۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ کتنے بھولے ھيں ہمارے وزيرِاعظم جويہ سمجہ رہے ہيں کہ اس طرح وہ اسرائيل کو فلسطيني رياست قائم کرنے پر راضي کرسکيں گے مگر امريکي شہري وزيرِاعظم اپنے اصل ملک کے مفادات کے لئے کام کر رہے ہيں جو کہتے کہ امريکہ اسرائيل سے ہماري ملاقات کے بارے ميں آگاہ نھيں تھا۔کيا اٌن کي اس بات پر يقيں کيا جا سکتا ہے۔
اے حکمرانو ڈرو خدا کے عزاب سے اور اس کے احکامات پر عمل کرو۔ قرآن ميں واضح طور پر لکھا ہے کہ يہوديوں اور عيسائيوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ اپنے مسلمان بھائيوں کا خيال رکھو۔
کہتے ہيں اپنا اگر مارے گا بھي تو مار کر ساۓ ميں ہي رکھے گا۔ اس لئے مسلمان کو اگر مدد ملے گي تو مسلمان سے۔ جو يہوديوں اور عيسائيوں سے اميد لگاۓ بيٹھے ہيں ان کا انجام وہي ہو گا جو شاہ ايران، ضياالحق، جنرل نوريگا، صدّام حسّين، بہادر شاہ ظفر اور دوسرے لوگوں کا ہوا جو اپني رعائيا سے کٹے رہے اور غيروں پر بھروسا کرتے رہے۔ غير غير ہي ہوتے ہيں اور وہ ہميشہ اپنا خيال رکھتے ہيں۔
ہماري حکومت سے دوبارہ التماس ہے کہ وہ اسرائيل پر بنگلہ ديش کر ترجيح دے اور اپنے روٹھے ہوۓ بھائيوں کو مناۓ۔ اس طرح ہو سکتا ہے پرانے زخم مندمل ہو سکيں اور ہم بھي جرمني کي طرح دوبارہ متحد ہو سکيں۔
3 users commented in " کاش ايسا ہوتا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے ٹھیک لکھا ہے لیکن یہ باتیں آجکل بہت کم لوگوں کو سمجھ آتی ہیں
بنگلہ دیش سے ۱۹۷۱ کے جرائم کی معافی مانگنا ضروری ہے اور اچھے تعلقات بھی چاہیئیں مگر اسرائیل اور بنگلہ دیش سے تعلقات کی وجوہات فرق ہیں لہذا ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
Leave A Reply