وکلا اور پولیس میں آج کل خوب ٹھنی ہوئی ہے۔ وکیل احتجاج کرنے کیلیے اکٹھے ہوتے ہیں اور پولیس احتجاج روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈیجیٹل کیمروں کی وجہ سے آج کل ہر واقعے کی بے تحاشہ تصاویر چھپنے لگی ہیں۔ ہمیں وکلا اور پولیس کی چپقلش کی یہ تصویر سب سے الگ لگی ہے۔ وکیل کے ڈنڈے سے بچنے کیلیے پولیس والا مسکرا کر کیا کہ رہا ہے، ذرا اندازہ تو لگائیے۔
ہمارا اندازہ یہ ہے کہ وہ کہہ رہا ہو گا “اوئے کجھ حیا کر کاکا، کی کر رہیا ایں”۔
8 users commented in " وکیل اور پولیس "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackماضی میں سابق وفاقی وزیر شیر افگن نیازی پرتشدد کے واقعہ پر اس وقت کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اعتزاز احسن نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بار کی صدارت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا لیکن لاہور بار ایسوسی ایشن بھی ان بار ایسوسی ایشنوں میں شامل تھی جہنوں نے اعتزاز احسن سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اب اعتزاز احسن کی نکتہ چینی پر ان کے اور دیگر وکلا رہنماؤں کے بارمیں داخلے پر پابندی خود ایک سوال ہے ۔
اب سے بتیس برس پہلے بھی ایل ایل بی ایک ڈگری کورس ہوا کرتا تھا۔ اس کی لا کالجز میں باقاعدہ کلاسیں ہوتی تھیں۔ امتحان میں بیٹھنے کے لئے ستر فیصد اٹینڈنس کا قانون بھی موجود تھا۔
لیکن بحیثیت طالبِ علم مجھے بہت حیرانی ہوتی تھی جب کراچی یونیورسٹی ہاسٹلز سال کے چند مخصوص دنوں میں ملک کے کونے کونے سے آنے والے مہمانوں سے بھر جایا کرتے تھے۔
یہ سب ایل ایل بی کے سالانہ امتحانات میں بیٹھنے کے لئے آتے تھے۔ ایک بھی کلاس اٹینڈ نہ کرنے کے باوجود ان سب کی سال بھر لا کالجز میں پروکسی اٹینڈنس لگتی رہتی تھی۔
بہت سے امیدوار ایسے بھی تھے جو ایک دن پہلے پوچھتے تھے کہ کل کس قانون کا پرچہ ہے اور اسی مضمون کے مطابق وہ خلاصوں اور امتحانی نوٹس کو رات بھر گھوٹ کر صبح امتحان دے آتے تھے اور پاس بھی ہو جاتے تھے۔
اس دور میں یہ تاثر ملک گیر تھا کہ کراچی میں ایل ایل بی کی ڈگریاں درختوں سے لٹکتی ہیں۔ بس انہیں ہاتھ بڑھا کر توڑنے کی زحمت کرنی ہے۔ اس تاثر کے سبب وہ امیدوار بھی شرمندہ شرمندہ رہتے تھے جو باقاعدہ محنت اور ستر فیصد حاضری کی شرط پوری کر کے امتحان میں بیٹھتے تھے۔
بعد میں سنا کہ ایل ایل بی اور ایل ایل ایم کرنے والے امیدواروں میں ڈسپلن پیدا کرنے کے لئے کورسز اپ ڈیٹ ہوئے۔ کنٹریکٹ پر قابل قانونی ماہرین کو تدریس کے لئے مقرر کیا جانے لگا۔ ایل ایل بی کا دورانیہ دو برس سے بڑھا کر تین سال کردیا گیا اور ستر فیصد اٹینڈنس کے قانون پر عمل درآمد میں بھی کچھ سختی ہونے لگی۔
تیس بتیس برس پہلے کے ایل ایل بی فری فار آل دور کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے بہت سے پیشۂ وکلالت میں بھی آئے۔ کئی نے نام بھی پیدا کیا اور بہت سے ادنیٰ و اعلیٰ عدالتوں میں جج بھی بنے۔
لیکن یہ لوگ بھی بعد میں آنے والے وکلا کی اس نسل کے مقابلے میں بہرحال بہت غنیمت تھے جنہوں نے جب کوئی اور جگہ نہیں ملی تو کالا کوٹ پہن لیا۔ ایسوں کی وکالت بھی شارٹ کٹ وکالت تھی۔ مقدمے کی تاریخ آگے بڑھوا دی۔ جج اور سائل میں ڈیل کروا دی۔ فریقین میں تصفیہ کروا کر پیسے پکڑ لئے۔ ملی بھگت سے مقدمات بنوا دئیے پھر ضمانت کروا کر سائل کو احسان مند کر لیا وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب بھی چل جاتا اگر نو مارچ دو ہزار سات نہ آتا۔ اس تاریخ کے بعد سے وکالت ایک قابلِ احترام پروفیشن بن گیا اور یہ تاثر بھی کسی حد تک دھل گیا کہ یہ طبقہ اصول و قانون کی حکمرانی سے زیادہ اپنی فیس یا دھاڑی کی فکر میں رہتا ہے۔
ہزاروں وکلا نے معاشی پریشانیاں بھی اٹھائیں مگر ثابت قدمی سے عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلاتے رہے۔ تحریک کی کامیابی نے وکلا کو اپنی طاقت کا احساس دلایا مگر یہ طاقت تحریک کے آدرش کو اور مضبوط کرنے کے بجائے منفی انداز میں ظاہر ہونے لگی۔
کبھی کسی جج کو کمرہ عدالت میں پیٹ ڈالا۔ کبھی کمرہِ عدالت پر تالا ڈال دیا۔ کبھی پولیس والوں کی پھینٹی لگا دی تو کبھی آپس میں ہی گتھم گتھا ہو کر سر پھاڑ ڈالے۔ کبھی ملزم کو عدالت کے احاطے سے چھڑوا کر فرار کروا دیا تو کبھی اپنے ہی ساتھی وکیل کی بطور ملزم گھریلو ملازمہ کے قتل کے مقدمے میں نامزدگی کے خلاف ریلی نکال دی۔
اس طرح کے جتنے افسوسناک واقعات گزشتہ ڈھائی برس میں ہوئے شاید ہی پچھلے ساٹھ سال کے کسی عشرے میں ہوئے ہوں۔
اس طرح کی خبروں کے سبب یہ تاثر ابھرنے لگا کہ وکلا قانون کی بالادستی کی جدوجہد سے دستبردار ہو کر ایک مافیا بنتے جا رہے ہیں۔ ان میں گروہ بندی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ پیسہ بہا کر انہیں تقسیم کیا جا رہا ہے اور مختلف قوتیں انہیں عدلیہ کو مستحکم کرنے کے بجائے عدلیہ کو کمزور کرنے کا ہتھیار بنا رہی ہیں۔
ان حالات میں اگر وکلا ججوں کی تقرری و تبادلے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے تشدد اور توڑ پھوڑ پر اتر آئیں تو پھر جنگل کے قانون اور مہذب دنیا کی روایات میں فرق کیسے کیا جائے۔
یقیناً لاہور میں وکلا پر ہونے والا تشدد قابلِ مذمت ہے لیکن مذاق پہلے کس نے شروع کیا تھا۔
جمہوری اور آمرانہ دور میں ایک ہی طرح سے ردِ عمل ظاہر کرنے اور اندھی طاقت کو اصولوں کی چادر پہنانے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اتنی مشکل سے ہاتھ آئی عزت کو یوں تو نہ تار تار کیجئے ۔۔۔۔لوگ دیکھ رہے ہیں حضور ۔۔۔۔
او سر جی پاکستان میں سب چور کتّی ملے هوئے هیں
یه بھی ایک تصویر بنانے کے لیے پوز ہے
ورنہ اتنے سارے پیٹی بند بھائیوں کے سامنے ایک وکیل پلسیے پر حملے کردے
اور پلسیے اس کو مار مار کر باندر ناں بنا دیں جی
پولیس والا مسکرا کر کہ رها هے
چل تیرے وی نمبر بن جان دے
پر صرف کسنی اے مارنی نہیں
ہم ابھی تک منتظر ہیں کہ ہمارے وکیل بلاگر اس سلسلے میں کچھ تفصیلات مہیا کریں۔ مگر وہ خاموش کیوں ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
واقعی یہ تصویرتوایسےہی لگ رہاہےجسطرح کہ بس عوام کودکھانےکےلئےہی لگائي گئی ہے۔
والسلام
جاویداقبال
وکلاء میں جو پیسے بانٹے گئے تھے وہ رنگ لا رہے ہیں۔
وکیل بابو: بھیا وسعت اللہ خان کی تحریر نقل کرتز وقت ربط تو دے دیتے:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/10/101003_wusat_baat_sey_baat.shtml
افضل صاحب میرے خیال میں تو تصویر اصلی ہے اور لاٹھی چارج بھی۔ صرف پولیس کو ذرا ہتھ ہولا رکھنے کا کہا گیا ہو گا۔
طاقت کو استعمال کرنے کے لیے اگر صحیح سمت نہ ملے تو اسی طرح سڑکیں تماشگاہیں بنتیں ہیں۔
Leave A Reply