ملک میں جاری وکلا کے احتجاج نے آج زور پکڑ لیا جس کی ہم توقع نہیں کررہے تھے۔ حکومت کے مشیروں کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ حالات اس قدر بگڑ جائیں گے۔ کچھ حکومتی سیاستدان شائد آنے والے وقت کو تاڑ چکے تھے اسی لئے انہوں نے گول مول بیان دینے شروع کردیے تھے۔ مثلاً چوہدری شجاعت نے کہا یہ فوج اور عدلیہ کی لڑائی ہے اور وہ دونوں اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ غیر فعال چیف جسٹس کے اہل و عیال کی نظر بندی ٹھیک نہیں۔ شاید حکومت نے بھی ہماری طرح سوچا ہوگا کہ اگر لوگ پہلے بڑے بڑے سانحات کو بھول سکتے ہیں تو یہ سانحہ دو چار دنوں میں آسانی سے بھول جائیں گے۔ مگر آج کے احتجاج، پولیس کا جیونیوز کے دفتر پر حملہ، لیڈروں کی گرفتاریاں، پولیس کی ناکہ بندیاں اور لاٹھی چارج کچھ ایسے اشارے ہیں جن کو سمجھنے میں حکومت کو اب دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہم اجمل صاحب کی اس بات سے متفق ہیں کہ احتجاجی تحاریک کا آغاز ہمیشہ وکلا اور طالبعلموں نے کیا ہے اور اس بات کا حکومت کے مشیروں کو بھی علم ہونا چاہیے۔
اب بھی وقت ہے حکومت اور وکلا مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ ہمارا مشورہ حکومت کو یہ ہے کہ وہ چیف جسٹس کے ریفرنس کو وقتی طور پر روک دے اور پہلے اس ریفرنس کے طریقہ کار کو وضح کرنے کیلیے دوسرے فریق کو اعتماد میں لے۔ وکلا کو بھی چاہیے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور جاوید چوہدری کے بقول پرامن احتجاج کے طریقے ڈھونڈیں۔ ان کے ایک پرامن احتجاج کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ابھی اسی ہفتے گوجرانوالہ کے لوگوں نے شہر میں گندگی کے خلاف پرامن احتجاج کرتے ہوئے سٹي ناظم کے دفتر کو گندگی سے بھر دیا۔ اسی طرح وکلا بھی احتجاج کا پرامن طریقہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو عدالتوں کا تب کیلۓ بائیکاٹ کردیں جب تک حکومت ان سے معاملہ کرنے پر راضی نہ ہوجائے۔
دراصل ہمارے ہاں پرامن احتجاج کو حکومت کچھ سمجھتی ہی نہیں اسی لیے متاثرین کو اپنی بات منوانے کیلیے پرتشدد احتجاج مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ اس حکومت کے پاس ایک اچھا موقع ہے اس روایت کو بدلنے کا۔
حکومت کے مشیران کرام اب بھی چیف صاحب کو یہی مشورہ دے رہے ہوں گے کہ فکر نہیں کریں یہ چند دنوں کا ابال ہے جو ٹھنڈا پڑجائے گا۔ یہ بھی کہ رہے ہوں گے کہ اگر احتجاج جاری رہے تو اسے طاقت سے روکا جائے کیونکہ لوگ فوجی طاقت سے بہت ڈرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی مشورہ ہوگا کہ حالات بے قابو ہونے کی صورت میں فوج بلا لی جائے اور مارشل لا یا ایمرجینسی لگا دی جائے۔ ہمارے خیال میں یہ سب بچگانہ مشورے ہوں گے۔ اصل اور کھرا مشورہ یہی ہے کہ حکومت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑے اور نقارہ خلق کو پہچان کر مذاکرات کی میز سجا دے۔ اسی میں ملک کا بھلا ہے اور عوام کی جیت ہے۔
اگر حکومت نے مزید دیر کردی تو اس کے اپنے حامی ہوا کا رخ دیکھ کر اس کے خلاف ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ابھی احتجاج پوری طرح جما نہیں کہ ایم کیو ایم کے الطاف حسین جو حکومت میں شامل ہیں نے پولیس تشدد کی مزمت شروع بھی کردی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی جو حکومت کیساتھ پس پردہ مذاکرات میں مصروف تھی اب اس احتجاج کے حق میں آواز بلند کرنے لگی ہے تاکہ وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہ سکے۔
خدا ہماری حکومت اور اس کے مشیروں کو اس بحران سے نکلنے کیلیے عقلِ سلیم عطا فرمائے اور مظاہرین کو بھی پرامن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کے حالات پر ایک شاعر خالد صاحب کے دو شعر
ہر ڈاہڈے نے ایک نمانی قوم کو دب کر رج پھڑکایا
ارباں پتی وزیروں نے سرکاری خرچ پر حج پھڑکایا
کافی دن سے لگتا تھا کہ کل پھڑکایا یا اج پھڑکایا
حاکم نے انصاف کے ڈر سے کچھ دن پہلے جج پھڑکایا
4 users commented in " اب بھی وقت ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں دعا کرتا ہوں کہ یہ بحران اس حکومت کے خاتمے اور ایک نیک صالح قیادت کے ظہور پر منتج ہو۔ بے شک یہ ایک دیوانے کا خواب ہے لیکن اللہ تعالٰی دعائیں سننے والا ہے، جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
میں اپ کی اواز میں آواز ملاتا ہو اور پھر پور تائید کرتا ہوں کے یہ مہم جوئی کا وقت نہیں ہے ہماری مغربی سرحدیں آتش فشاں بنی ہوئی ہیں شمالی علاقوں اور بلوچستان کے حالات ویسے ہی درست نہیں اس تناظر میں معمولی سا آئینی بحران کسی بھی بڑے سانحے کو جنم دے سکتا ہے اور میں نہیں سمجھتا کے پرویز مشرف صاحب تاریخمیں اپنے آپ کو سیاہ باب میں دیکھنا چاہیں گے۔۔
یہ بات بھی بجا طور پر درست ہے کے ابن الوقت لوگوں نے تیل دیکھو اور تیل کی دھار والے محاورے پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے وزیر اور مشیر جیو نیوز پر حملے کی مذمت کر رہے ہیں اور صدر معافی مانگ رہے ہیں تو آخر یہ کر کون رہا ہے؟ کیا حکومت کا ریاستی کنٹرول ختم ہوگیا ہے ۔۔ یا قانون کے “بگ ہینڈ“ کی نمائش شروع ہو گئی ہے ؟
اگر ہم سب کی ہی نزديک کی نظر کمزور ہو گئ ہے تو کيا ہو سکتا ہے کيونکہ اگر ديکھا جاۓ توآج کی کا روائ اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے جو ايک لاوے کی صورت اُبل کر ہميں آنے والے وقت کا پتہ دے رہا ہے اور يہ لاوہ کسی بھی وقت آتش فشاں کا رُوپ دھار سکتا ہے اگر ہم اس وقت اس کو نا روک پاۓ تو پھٹ پڑنے کے بعد والی صورت حال کو ہم کيسے روک پائيں گے پورے مُلک کو سنبھالنے کے لۓ جس ثابت قدمی اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی کمی اس وقت جتنی شدت سے محسوس ہو رہی ہے اس سے پہلے کبھی نہيں تھی حالانکہ اس طرح کے حالات ہمارے مُلک ميں اس سے پہلے بھی بہت مرتبہ ہو چُکا ہے صحافيوں پر يہ ظُلم کوئ نئ بات نہيں حبيب جالب جيسے عوامی شاعر نے ميں نہيں مانتا، ميں نہيں مانتا کی تکرار کوئ يونہی نہيں کی تھی ہميشہ ہی برسرِاقتدار آقاؤں کی يہی شان ہوا کرتی ہے کون کيا کہے گا اور کيسے؟
شاہدہ اکرم آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ہمارے ملک میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہورہا مگر افسوس اس بات کا ہے کے انفارمیشن ایج میں بھی ہمارے وزیروں اور مشیروں کی سوچ بالکل ویسی ہی ہے جیسی تاریک ادوار میں تھی۔۔ یعنی ایک پروگرام پر پابندی لگا کر یا کسی ٹی وی چینل پر ہلہ بول کر خبر کو دبا لیں گے۔۔ یہ لوگ شاید نہیں جانتے اب خبر دبتی نہیں اب ہر انسان اپنی جگہ خود ایک صحافی ہے۔۔ اب اخبار آنے سے پہلے ہی خبر پرانی ہو جاتی ہے۔۔۔ اللہ ہمارے شرفاء کو شرافت عطا فرمائے – آمین
Leave A Reply