ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں اس انگریزی بلاگ پر انتہائی اہم راز افشا کئے گئے ہیں۔ اس بلاگ میں جو اہم قانونی نقطہ اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سفارتی ڈپلومیٹس کو استثناء حاصل ہوتا ہے مگر بڑے جرائم کرنے والوں کو یہ رعایت حاصل نہیں ہو گی۔ بلاگر نے لکھا ہے کہ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس نے مقتولوں کو گولی پیچھے سے ماری۔ اس طرح وہ کیسے کہ سکتا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔ بلاگ میں اس شک کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ مقتول عام شہری نہیں تھے بلکہ آئی ایس آئی کے اہلکار تھے اور وہ ریمنڈ ڈیوس کا پیچھا کر رہے تھے۔
اپنے بلاگر ساتھی جناب افتخار اجمل صاحب نے بھی میڈیا کی خبروں کو حوالہ بنا کر ریمنڈ ڈیوس پر یہاں اور یہاں لکھا ہے۔
جاوید چوہدری نے ریمنڈ ڈیوس پر کالم لکھے ہیں وہ بھی پڑھنے کے لائق ہیں۔ یہ کالم یہاں اور یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ کئی ٹی وی ٹاک شوز اس کیس پر لمبی چوڑی بحث کر چکے ہیں۔
اب حالت یہ ہے کہ عوام ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بھی مخمصے کا شکار ہو چکی ہے اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو جلد سے جلد رہا کر دیا جائے۔
14 users commented in " ریمنڈ ڈیوس کون ہے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکوئی ہے جو پاکستان کی حفاظت کر سکے؟
میرے خیال میںتو جی اس کتے کو نہیں چھوڑنا چاہئیے بلکہ سر عام اس کے گلے میںپٹہ ڈال کر اس کو لٹکا دینا چاہئیے
اچھا !!!!!!!!ـ
یه امریکی کے هاتھوں مارے جانے والے بندے ، حساس ادارے کے بندے تھے؟؟
اسی لیے ان کے پاکستانی قتل کی اتنی “پِیڑ” هو رهی هے
جو که مجھے بھی محسوس هوئی
اور یه جو سارا پاکستان عذاب میں مبتلا ہو تو اس کی
پیڑ
کون جانے گا جی؟
بس جی نسلی سی داشتہ کی طرح کے نخرے هوں گے
اور
پھر امریکی اپنے گھر چلا جائے گا
قصاص هو سکتا هے
صدارتی معافی هو سکتی هے
یا کچھ بھی هو سکتا ہے
لیکن سزا نہیں هو سکتی
جی !!!!ـ
جناب آپ لوگ قياس آرائياں بہت کرتے ہیں۔ ہم کوئ غير منطقى یا غیر قانونی بات نہيں کر رہے ہیں۔ ميں آپ سے يہ کہوں گا کہ امريکی درخواست کو دباو کا نام دينے کے بجاۓ آپ ذرا اس بات پر بھی غور کريں کہ آیا يہ پاکستان حکومت کا فرض نہيں ہے کہ وہ اپنی عا لمی زمہ داريوں کو نبھاۓ۔
حقيقت يہ ہے کہ امريکہ سفارت کار کو سفارتی استثنی حاصل ہے جو کہ ايک باہمی طور پر منظور شدہ عالمی قانون اور دونوں ممالک کے مابين طے شدہ پاليسی کے عين مطابق ہےجس کے تحت يہ يقينی بنايا جاتا ہے کہ سفارت کاروں کو محفوظ راستہ ديا جاۓ اور ميزبان ملک کے قوانين کے تحت ان کے خلاف قانونی کاروائ ممکن نہيں رہ جاتی۔
ہم نے کئ بار کہا کہ انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر امريکی حکومت کو افسوس ہے ليکن ہمارے خيال ميں يہ اقدام امريکی سفارتکار نے اپنی جان بچانے کے ليے کيا کيوں کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق تھا۔ چند ہی منٹ قبل ان دو آدميوں نے اسی علاقے ميں ايک پاکستانی شہری کو بندوق کی نوک پر لوٹا۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
ذوالفقار صاحب،
دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے عوض جائنٹ سٹرائیک فائیڑ آتا ہے یا جرنیلوں کے گھر میں ڈالر۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہیںہوگی، مسئلہ صرف یہ ہے کہ “معاوضہ“ کتنا دیا جائے گا۔ یہ تو ہم آپ سب جانتے ہیں کہ نہ وہ سفارتکار تھا اور نہ مرنے والے “عام“ پاکستانی۔ میڈم سیکریٹری کی جنرل کیانی سے ملاقات بھی اسی مسئلہ کو حل کرنے کی ایک کوشش تھی آپ کے تو علم میں ہوگا ہی۔ 🙂
السلام علیکم
ذو الفقار صاحب
یہ دفاع میں چلائی جانے والی گولیاں پیٹھ میں کیسے لگتی ہیں؟ اس بارے میں ذرا ماہرانہ رائے دے سکتے ہیں؟
یہ بھی ہو سکتا ہے آپ ہر جگہ کی طرح یہاں بھی حملہ آوروں کا دل رکھنے کی کوشش کرتے ہوں اور سامنے سے گولی مارنے سے دریغ کرتے ہوں کہیں دل پر نہ لگ جائے۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ دفاع میں چلنے والی گولی پیٹھ پر کیسے لگی ۔۔ ““ریورس سونگ““ تو نہیں ہو گئی تھی؟
معزز دوستو، ميڈیا میں شائع کی گئ غلط خبروں کو پڑھنے کے بجاۓ آپ ذرا خقیقت پر نظر ڈاليے امريکی سفارتکار کی، تو اس نے اپنی جان بچانے کے ليے يہ اقدام اٹھايا کيوں کہ دو مسلح ڈاکوؤں نے اسے گھيرنے کی کوشش کی تھی۔ حتی کہ عينی گواہوں نے بھی اس بات کی گواہی دی کہ ریمنڈ نے موٹر سايئکل پر سوار دو مسلح افراد سے اپنے آپ کو بچانے کے ليے يہ قدم اٹھايا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايک افسوس ناک واقعہ ہے جس کے نتيجے ميں زندگيوں کا ضياع ہوا۔ ليکن حقيقت يہ ہے کہ ابتدائ پوليس رپورٹ کے مطابق ان دونوں آدميوں سے گولیوں سے بھرا ہوا پستول اور لوٹی ہوئ چيزیں برآمد ہوئيں ہیں۔ مجھے يقين ہے کہ آپ میرے ساتھ اتفاق کريں گے کہ ہر شخص کو يہ حق حاصل ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کے ليے کوشش کرے۔ اردو کی کہاوت آپ لوگوں نے ضرور سنی ہوگی کہ جان بچانا فرض ہے امريکی سفارت کار اس اصول سے مبرا نہيں ہے۔
جہاں تک رہا تعلق سفارتکار کی استثنی کا تو، امريکی حکومت نے يہ بلکل واضع طور پر کہا کہ يہ سفارتکار اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے سے وابسطہ ہے اور اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے، اس کے پاس ويانا کنونشن 1961ء کے تحت سفارتی استثنی ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔
امريکی حکومت اس واقعے ميں ملوث اپنے سفارت کار کے ليے سفارتی استثنی کی درخواست کر رہی ہے تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ ہم پاکستانی قوانين کو خاطر ميں نہيں لا رہے۔ ہم صرف اس حقيقت پر اصرار کر رہے ہيں کہ يہ معاملہ پاکستان ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دائرہ اختيار ميں نہيں آتا۔ اسی بات کا اظہار صدر اوبامہ نے بھی اپنے بيان ميں کيا تھا۔
“يقينی طور پر ہميں انسانی جانوں کے ضياع پر تشويش ہے۔ ہم اس بارے ميں سردمہری کا مظاہرہ نہيں کر رہے ہيں۔ ليکن يہاں ايک بڑا اصول ہمارے سامنے ہے۔ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ دنيا کا ہر وہ ملک جو سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنوينشن کا حصہ ہے وہاں ماضی ميں بھی ان اصولوں کی پاسداری کی گئ ہے اور مستتقبل ميں بھی ايسا ہی ہونا چاہيے۔ اور وہ اصول يہ ہے کہ جب ہمارے سفارت کار دوسرے ممالک ميں ہوں تو ان ممالک ميں ان پر قانونی چارہ جوئ نہيں ہو سکتی۔”
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
ذوالفقار صاحب،اگر کوئی سفارتکار کسی ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرتا پکڑا جائے تو کیا اسے بھی یہ استثناء حاصل ہوتا ہے؟
یوں ہی معلومات کے لیئے سوال پوچھ رہا ہوں!
سب سے پہلے يہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈيوس کے سفارتی سٹیٹس کے بارے ميں کوئ شک نہیں ہے۔ اور امريکی سفارتکار پاکستان کی سالميت کو نقصان نہيں پہنچا رہے ہیں جيسا کہ کئ لوگ اس بارے ميں بے بنياد الزامات لگاتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے لوگوں اور حکومت کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کے مابين مضبوط اور ديرپا اشتراک کار کے فروغ کے ليے کام کر رہے ہيں۔
ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ پاکستان ميں رہنے اور کام کرنے والا ہر امريکی شہری حکومت پاکستان سے منظور شدہ ويزے کی بنياد پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان کے حکومتی اہلکاروں نے عالمی قوانين اور روايات کے عين مطابق انھيں يہاں رہنے اور کام کرنے کی مکمل اجازت دی ہے۔
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی يہ کہا ہے کہ جنوری 2010 ميں امريکی سفارتخانے نے پاکستانی حکومت کو واضع طور پر بتايا تھا کہ يہ سفارتکار اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے سے وابسطہ ہے اور اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے، اس کے پاس ويانا کنونشن 1961ء کے تحت سفارتی استثنی ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔
خقیقت يہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے اس کے عہدے کو مسترد نہیں کيا تھا اس ليے اسے بين لاقوامی قانون کے تحت مکمل سفارتی استثنی حاصل ہے۔ يہ بھی ياد رکھنے والی بات ہے کہ سفارتی استثنی کے بارے ميں شک و شبہات کی گنجائش نہیں ہے لہذا پاکستانی حکومت کو چاہيے کہ وہ اس سلسلے ميں اپنی زمہ داری نبھاۓ۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
جناب ذوالفقارصاحب یہ دو خبریں پڑھیئے اور پھر ان پر سر دھنیئے!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/02/110221_raymond_cia_us.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/02/110223_balochistan_malik_afghanistan_rh.shtml
اور پھر ایک نظر یہاں بھی ڈال لیجیئے گا!
http://ejang.jang.com.pk/2-23-2011/Karachi/pic.asp?picname=1046.gif
کیا یہ سب بھی جھوٹ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
يہ بات توجہ طلب ہے کہ کچھ راۓ دہندگان بعض مغربی اخبارات ميں شائع ہونی والی رپورٹس ميں سے بغير کسی نام کے امريکی عہديدران کے حوالے سے پيش کيے جانے والے بيانات کے منتخب حصوں کو محض اس بنياد پر اجاگر کر رہے ہيں کيونکہ اس سے ان کے مخصوص خيالات اور طرز فکر کو تقويت ملتی ہے۔ ليکن اسی اصول کو اس وقت نظرانداز کر ديا جاتا ہے جب امريکی صدر سميت حکومت کے اعلی ترين عہدوں پر فائز افراد متعدد بار سرکاری طور پر بيانات کے ذريعے يہ باور کرواتے ہيں کہ لاہور میں گرفتار ہونے والے امريکی کو سفارتی استثنی حاصل ہے۔
اگر بغير کسی نام اور بغیر کسی شناخت کے کسی امريکی عہديدار کا بيان بعض تجزيہ نگاروں اور راۓ دہندگان کے نزديک ناقابل ترديد ثبوت ہے تو پھر اسی اصول کے تحت جانے مانے اور شناخت شدہ اعلی امريکی عہديداروں، امريکی سفارت خانے اور اسٹيٹ ڈيپارٹنمٹ کی جانب سے سفارتی استثنی کے حوالے سے موقف اور بيانات کو بھی تسليم کيا جانا چاہيے۔
امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ گرفتار ہونے والے امريکی شہری کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل ہے۔ جب وہ پاکستان آۓ تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
جناب ذولفقار صاحب
مہربانی فرما کر لوگوں کو گمراہ مت کریں۔
آپ کے لئے کچھ مزید معلومات حاضر ہیں، ان کا بھی مطالعہ فرمائیں۔
http://alqamar.info/2011/?p=10818
http://alqamar.info/2011/?p=9435
http://alqamar.info/2011/?p=10298
گرفتار ہونے والے امريکی شہری کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل ہے۔
ذولفقار صاحب!
معاملہ چونکہ میری قوم سے متعلق ہے۔اسلئیے میں آپ سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ یونہی تصور کئیے لیتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس نامی شخص امریکہ کے سفارتکار کی حیثیت سے پاکستان میں متعین تھے۔ تو پھر پاکستان کی وزارت خارجہ اور خاص کر پاکستان تب کے وزیر خارجہ مسٹر قریشی کی رائے اور بیانات کو کیا اہمیت دی جائے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت سے باالترتیب انکار کرتے ہیں؟ پاکستانی عدالت نے ریمنڈ ڈیوس نامی شخص کے سفارتی اشتناء کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے سفارتی اشتناء کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اسے کیا معانی پہنائے جائیں؟۔
دہشت گردی کے خلاف نامی مشترکہ جنگ میں پاکستان کوعملی طور پہ فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پہ اپنا اسقدر مالی و جانی نقصان کروانے کے باوجود ہم ایک غریب اور مسکین قوم ہونے کے ناطے امریکہ جیسی طاقتور اور عالمی طاقت سے یہ امید نہیں رکھتے کہ وہ دوستی کی آڑ میں پاکستان میں ایسے سفارتکاروں کا تقرر کرے جو کسی بھی خفیہ کمانڈو کے ضروری سامان کی مکمل کٹ سے لیس ہو کر پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیں۔ پاکستانی قوم امریکہ سے امید رکھتی ہے کہ اسکی انگنت قربانیوں کے بدلے میں اگر امریکہ کے سفارت خانے کے ٹیکنیکل اسٹاف کے ایک فرد کو اگر امریکہ کی طرف سے واقعتا اشتناء حاصل بھی ہو (جو کہ شوہدات بتاتے ہیں کہ ڑیمنڈ ڈیوس کو حاصل نہیں تھا) تو امریکہ اپنی بیان کردہ عظمتوں اور فرنٹ لائں اتحادی ملک کی قوم کے قتل ہوجانے والے افراد کیوجہ سے پاکستانی قوم کے احترام میں اپنے ٹیکنیکل فرد کا سفارتی اشتناء ختم کردیتا۔ کیونکہ سفارتکار اسطرح کی قتل و غارت نہیں کرتے۔کیونکہ ایسا کرنا ہی سفارتکاری کے منصب کے خلاف ہے۔
Leave A Reply