جس رفتار سے دنیا ترقی کررہی ہے ایک وقت آنے والا ہے کہ حکومت کے سارے کارنامے فلمبند ہونے لگیں گے اور تب کوئی بھی معاہدہ یا بات چیت خفیہ رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ تب تک سیاستدانوں اور حکمرانوں کو چھوٹ ہے کہ وہ جتنا مرضی جھوٹ بول لیں اور جتنا مرضی اپنی رعایا کو چکر دے لیں۔
ابھی چند سال قبل جب میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ غیرقانونی طور پر الٹا گیا تو وہ اپنے حواریوں سمیت جیل میں قید کردیے گیے۔ کسی نے انہیں پٹی پڑھائی کہ حکومت کےساتھ اگر ڈیل ہوجائے تو باہر چلے جائیں گے کیونکہ جیل میں سڑتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف جنرل مشرف کی حکومت کو بھی اس کے فائدے گنوائے گئے اور کہا گیا کہ جنرل ضیا نے بھٹو کو پھانسی دے کو جو غلطی کی تھی اب اس سے بچنے کا آسان طریقہ دریافت ہوچکا ہے یعنی میاں صاحب کو جلاوطن کردیا جائے۔
پہلے تو میاں صاحب کی حکومت گرتے ہی ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑا اور پھر انہوں نے ہی میاں صاحب کو راستے سے ہٹانے کیلیے ان کی جلاوطنی کا ڈرامہ رچایا۔ جنرل صاحب نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ صرف میاں شہباز شریف جلاوطنی پر راضی نہیں تھے۔ میاں برادران کے ابا جی کافی دور اندیش قسم کے بزرگ تھے انہوں نے بھی جلاوطنی قبول کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس طرح سعودی عرب کے حکمرانوں کی وساطت سے میاں نواز شریف فیملی اور جنرل مشرف کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا اور میاں صاحب نے اپنے خاندان کے افراد کیساتھ سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرلی۔
میاں برادران پہلے تو کچھ عرصہ مکمل خاموش رہے پھر حالات نے کروٹ بدلی اور سیاست میں پھر داخل ہوگئے۔ اس دوران میاں شہباز نے ایک دفعہ پاکستان آنے کی بھی کوشش کی مگر انہیں اسی طیارے پر واپس بھیج دیا گیا۔ میاں صاحب کی جلاوطنی پر نہ عوام نے برا منایا اور نہ ہی ان کی پارٹی ميں ااتنی سکت باقی رہی کہ وہ بھرپور احتجاج کرسکے۔۔
پھر میاں برادران نے ایک پرانے نعرے “لچی اے لفنگی اے، گنجے نالوں چنگی اے” کی خجالت سے بچنے کیلیے اپنے سر پر نقلی بال لگوا لیے۔
سعودی عرب کی گھٹن میں وہ زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور غیروں کی آزاد فضا میں سانس لینے کیلیے اپنے پیش روؤں کی طرح وہ بھی برطانیہ منقتل ہوگئے۔ برطانیہ متتقل ہوتے ہی میاں برادران کے اوسان بحال ہوئے اور انہوں نے سیاست میں دوبارہ حصہ لینا شروع کردیا۔ میاں شہاز شریف ابھی تک اپنی زبان بند رکھے ہوئے ہیں اور وہ کوئی سیاسی بیان نہیں دے رہے مگر میاں نواز شریف نے میڈیا سے بات چیت بھی شروع کررکھی ہے اورسیاسی بیانات بھی جاری کررہے ہیں۔
عرصے بعد میاں نواز شریف نے کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا ہے۔ یہ اتفاق سمجھیں کہ پچھلے ہفتے جیو نے بینظیر کا انٹرویو نشر کیا اور اس ہفتے آری دیجیٹل نے میاں نواز شریف کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کردیا۔
اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میاں نواز شریف نے جو باتیں اپنے انٹرویو میں کہی ہیں ان پر اظہار خیال کرنے اور پڑھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
باتیں تو میاں نواز شریف نے بہت کی ہیں مگر سب سے اہم بات جس سے وہ انکاری ہیں وہ ہے ان کی اور جنرل مشرف کی حکومت کے درمیان ڈیل۔ میاں صاحب نے اب سرے سے ہی انکار کردیا ہے کہ ان کی جنرل مشرف کی حکومت کیساتھ کوئی ڈیل ہوئی تھی اور سارا مدعا سعودی حکومت پر ڈال دیا ہے۔ کہتے ہیں اگر سعودی حکومت کی جنرل مشرف کیساتھ کوئی ڈيل ہوئی ہے تو اس کا انہیں معلوم نہیں لیکن ان کی جنرل مشرف کیساتھ کسی قسم کی کوئی زبانی یا تحریر ڈیل نہیں ہوئی۔ حالانکہ حکومتی حلقے جنرل مشرف سمیت ابھی تک یہی کہتے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ایک معاہدے کے تحت خود جلاوطن ہوئے تھے۔
حالات و واقعات تو یہی بتاتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور جنرل مشرف کی آپس میں ڈیل ہوئی تھی اور اسی ڈیل کی بنا پر جنرل مشرف نے میاں صاحب کو جلاوطن کیا۔ اب میاں صاحب اس ڈیل سے انکاری ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ عوام کےسامنے اپنی بزدلی ثابت نہیں کرنی چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ میاں صاحب نے خود غرضی دکھائی اور انہوں نے عوام کی خاطر جیل میں چند سال رہنے کی بجائے جلاوطن ہونا بہتر جانا تاکہ جیل کی گرمی سے بچ سکیں۔
یہ معاہدہ ایسا ہے کہ جس کو منظر عام پر لاکر جھوٹ اور سچ کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس سچ جھوٹ کو ثابت کرنے کیلیے نہ سعودی حکومت اپنی زبان کھول رہی ہے اور نہ ہی حکومت اس معاہدے کی کاپی عوام کو دکھا رہی ہے۔ ہوسکتا ہے معاہدے میں یہ بھی شامل ہو کہ کوئی بھی فریق اس کی کاپی پبلک کو نہیں دکھائے گا۔ یہ ہونہیں سکتا کہ میاں صاحب بغیر کسی معاہدے کے جلاوطن ہوئے ہوں کیونکہ جنرل صاحب اور ان کے مشیر اتنے بیوقوف نہیں تھے کہ وہ زبانی معاہدہ کرتے۔ اگر تحریری معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو میاں شہباز شریف کبھی بھی ایرپورٹ سے واپس نے بھیجے جاتے۔ یہ معاہدہ ہی ہے جس نے میاں فیملی کے پاؤں جکڑ رکھے ہیں وگرنہ وہ کب کے واپس آنے کا بار بار ڈرامہ رچا رہے ہوتے۔
اس انٹرویو میں ہم نے ایک اور بات نوٹ کی۔ میاں صاحب جنرل مشرف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہے۔ ڈاکٹر شاہد صاحب جو بھی سوال پوچھتے تھے میاں صاحب انہیں گھما پھرا کر جنرل صاحب کی حکومت کی خرابیوں کی طرف لے جاتے تھے۔ جب میاں صاحب نے مشرف حکومت کے چیف جسٹس کو ہٹانے کی نانصافی کا ذکر کیا تو میاں صاحب شکر کریں کہ ڈاکٹر شاہد نے انہیں ان کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملے کی یاد دہانی کراکے شرمندہ نہیں کیا۔
کئی جگہوں پر میاں صاحب کو جواب دینے میںبھی کافی دقت ہوئی۔ مثلاً پی پی پی اور ایم ایم اے کیساتھ ایک ساتھ چلنے کے سوال پر میاں صاحب پر اعتماد نظر نہیں آۓ۔ اسی طرح میاں صاحب ہر بات پر قومی مفاد کر بیچ میں لانے لگے تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ یہ تو آپ کی جنرل مشرف کیساتھ ذاتی لڑائی ہے۔ اس کا جواب بھی میاں صاحب سے بن نہ پڑا۔
ہمیں تو سارے انٹرویو میں یہی لگا کہ میاں صاحب گھر سے یہی تیاری کرکے آۓ تھے کہ جنرل مشرف کی حکومت کو لتاڑنا ہے۔ حالانکہ میاں صاحب کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے منشور پر بات کرتے اور اپنے مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کرتے۔ وہ یہ بتاتے کہ ان کی حکومت کس طرح جنرل مشرف کی حکومت سے مختلف ہوگی اور وہ کس طرح اپنی پچھلی غلطیوں کا ازالہ کریں گے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سیاستدان اپنے مخالفین کی برائیوں کو گنوا گنوا کر اپنی پالیسیوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا تیر مار لیا۔ حقیقت میں وہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش ہونے کا ایک اہم موقع گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہی کچھ میاں صاحب نے اپنے ساتھ اس انٹرویو میں کیا۔
میاں صاحب نے ان ساتھیوں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے جو انہیں اکیلا چھوڑ کر فوجی حکومت کیساتھ جا ملے۔ انہوں نے تو یہی کہا کہ وہ کبھی بھی انہیں دوبارہ واپس نہیں لیں گے۔ مگر یہ تو سیاست کا کھیل ہے اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کسی روز میاں صاحب کو ان لوگوں کیساتھ اسی طرح دوبارہ چلنا پڑے جس طرح اب وہ بینظیر کیساتھ چل رہے ہیں۔
اگر میاں صاحب کا فوج کیخلاف اور اپنے غدار ساتھیوں کیساتھ یہی رویہ رہا تو ہمارے خیال میں تو دوبارہ حکومت نہ حاصل کرسکیں۔ کیونکہ فوج اور جاگیردار سیاستدانوں کی مدد کے بغیر حکومت حاصل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دریا کو الٹا چلانا۔ یہ دریا تبھی الٹا چل سکتا ہے جب میاں صاحب عوام سے رابطہ کریں گے اور ان کے دکھوں کا علاج انہیں بتائیں گے۔ ابھی تک کوئی بھی جماعت اس راہ پر چلتی نظر نہیں آرہی۔ سب کی نظروں میں عوام ایک تھرڈ کلاس جنس ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ فوج اور ان کے غیرملکی آقا ہیں۔
27 users commented in " نواز شریف – مشرف مخالف سوچ کے زیر اثر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب تجزیہ بالکل درست ہے۔۔ میاں صاحب شاید بھٹو کے انجام سے ڈر گئے تھے اور انکے اندر بھٹو جتنی قابلیت تو ہے نہیں جو ڈیل قبول نہ کرتے۔۔ ویسے بھی مشرف کے لیے ملک کے اندر میاں صاحب کا ہونا زیادہ پریشانی کا باعث بنتا اس لیے انہوں نے بھی ایک آسان راستہ اختیار کیا اور میرا خیال ہے دونوں فریقین اور پاکستان کے حق میں بھی یہی بہتر تھا۔۔ کیونکہ شریف تو کوئی نہیں ۔۔ پہلے میاں صاحب نے جنرل صاحب کی جان لینے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئے تو جنرل صاحب سے کیا امید کرتے ہیں ؟ میرا اپنا یہی تجزیہ ہے کے جنرل صاحب اور میاں صاحب کی ساری لڑائی ذاتی ہے۔۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے اہم نام تو مشرف کے ساتھ ہی ہیں۔۔ جہاں تک مستقبل کے لائحہ عمل کا تعلق ہے ایسا لگتا ہے اپوزیشن جماعتوں کے پاس سوائے موجودہ حکومت گرانے کے اور کوئی کام نہیں ۔۔ یہاں کبھی شیڈو کابینہ کے ذریعے متبادل فراہم نہیں کیا گیا جس کی بنیاد پر عوام (بیچارے) فیصلہ کرسکتے کے اپوزیشن کے پاس بہتر متبادل موجود ہے۔ حالات یہی بتا رہے ہیں کے شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ ہو صرف چہرے بدل جائیں اور صدر صاحب کا اقبال ویسے ہی بلند رہے جیسے ابھی ہے۔
محترم آپ کا تجزیہ حقیقت سے قریب لگتا ہے۔
کون سا معاہدہ اور کہاں کا معاہدہ؟ کیا کوئی حکومتِ وقت اپنے شہری سے کوئی ایسا معاہدہ کر سکتی ہے؟ ہاں البتہ اس کے الٹ ضرور دیکھا ہے کہ حکومت اپنے شہری کو وطن واپس آنے کا کہہ سکتی ہے اور انکار کی صورت میں مناسب کاروائی کر سکتی ہے۔ اگر آئین میں کوئی ایسی شق ہے تو بتائیے کہ ہم کم عقلوں کا بھی بھلا ہو۔ اور جیل کس شوق میں جناب؟ ایک وزیرِ اعظم فوج کے سربراہ کو تبدیل کرتا ہے اور اس قصور میں جیل؟ افسوس کہ میاں ساحب نے تھوڑی ہمت سے کام لیا ہوتا، آج جو لوگ چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے ہیں وہ ان کے ساتھ ہوتے۔ ان کی بزدلی نے ان کو یہ دن دکھائے ہیں، امید ہے اب کچھ نڈر ہو جائیں گے، کہتے ہیں شہباز شریف نہیں جانا چاہتے تھے، اٹھا کر جہاز میں پھینکے گئے۔
قصہ مختصر، ہم سب جنگل میں رہتے ہیں، بڑی مچھلی چھوٹی کو کھا جاتی ہے، کم از کم ہمیں اس بات کو اپنے اذہان میں صاف کر لینا چاہیئے۔ آئیں، قانوں، اصول، یہ سب باتیں کرتے ہم اچھے نہیں لگتے، جی ہاں ہم سب!
جہاں تک حالات و واقعات بتائے گئے ہیں اس کے حساب سے میاں صاحب آرمی چیف کو تبدیل کرنا چاہتے تھے تو انکی ٹائمنگ کیا تھی ؟ آرمی چیف ہوا میں معلق ہے اور آپ اس کو کہہ رہے کو واپس جاؤ پاکستان مت آؤ۔۔ تقریبا اقدام قتل ؟
آرمی سے ڈیل کرتے ہوئے کونسا آئین کہاں کا آئین ۔۔ میاں صاحب کے ساتھ انکے حواریوں نے ہاتھ کیا۔۔ انکو غلط مشورے دیے ۔۔ انکی پرویز مشرف کے ساتھ ٹینشن کھڑی کری اور پھر میاں صاحب سے جان چھڑا لی۔۔ اب وہ پرویز مشرف کے ساتھ ہیں انکو غلط مشورے دے رہیں ہے اور لگتا ہے اب ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔۔
ہم کيا اور ہمارا تجزيہ کيا ،اندر کی بات کبھی باہر نہيں آتی سالوں بعد اگر کبھی پتہ چلے بھی تو اُس وقت کيا فائدہ ہو سکتا ہے جيسا کہ آج کل جيو پر بُھٹو صاحب کے کلپس دکھاۓ جاتے ہيں يو اين او ميں پيپر پھاڑتے ہُو ۓ جس کو ديکھ کر کبھی ہم بہت امپريس ہُوا کرتے تھے اور ابھی کُچھ وقت ہُوۓ يہ بات علم ميں آئ کہ يہ سب کُچھ ايک پلاننگ کے تحت تھا سو اب ايسی پلاننگز تو شايد سياست اور ان سياستدانوں کے لۓ عام سی بات ہے گھر کی بات ہے اور اپنی اس خوبی کا استعمال يہ بہت خوبی سے کرتے ہيں اور ہم جيسے بيوقوف لوگ عوام کہيں جنہيں نا جانے کيوں ان کے جھانسوں ميں آ جاتے ہيں اور جان و جگر نچھاور کرنے کے چکّر ميں رہتے ہيں يہ ہمارے دُنيوی ان داتا نعوذ باللہ خود اپنی جانيں بچا کر ٹھنڈی ٹھار رکھتے ہيں کبھی خُفيہ معاہدے کر کے اور کبھی ڈيل کے نام سے جو کبھی آصف زرداری کو آٹھ سالوں کے لۓ اندر کروا کے جو جانے انجانے جُرموں کا بُھگتان بُھگت کر بخيريّت واپس بھی آگۓ ،نواز شريف صاحب بھی ايسی ہی ڈيل کے واسطے لگا کر سعوديہ سدھارے اور اب پھر اُن ہی اپنے بقول دُشمنوں کے ساتھ ہو گۓ يہی سب کُچھ الطاف حُسين صاحب نے کيا ہے تومر کون رہا ہے پھر وہی عام لوگ تو ميری پياری عوام کو يہ کيوں نہں سمجھ آتی کہ اُن کا استعمال کيا جا رہا ہے استحصال ہو رہا ہے اپنی اپنی جانيں ہتھيليوں پر کيوں سجا کر پھرتے ہيں کوئ نيا قائد اعظم نہيں آۓ گا ،کوئ گاندھی کوئ علامہ اقبال کوئ سُبھاش چندر بوس نہيں آنے والا جو آنے تھے آ چُکے سو اب جيسے بھی ہيں ہم سب کو ان ہی پر گُزارہ کرنا ہوگا ہم گول دائروں ميں گُھوم رہے ہيں اور انہی دائروں کا جب اختتام ہوتا ہے تو ہم وہيں کھڑے ہوتے ہيں جہاں سے چلے تھے ايسی ہی صُورتحال بے نظير کی گُفتگو کو سُن کر اور پھر نواز شريف کی باتيں سُن کر ہُوئ ہے يعنی دماغ ٹُھس ہو گيا ہے جبکہ کل ہی محترم اجمل صاحب نے اور راشد کامران صاحب نے جيسا کے فرماياتھا کہ تجزيہ ضروری ہے تو کيا تجزيہ ہوگا جب ہم ميں اور تُو کے جھگڑوں اور ايک دوسرے پر الزام تراشيوں سے آگے ہی نہيں جا پا رہے يہی حال پُوری مُسلم اُمّہ کا ہے سب صرف اپنے کو بچانا چاہتے ہيں اور بس ايسے ميں صرف تجزيوں سے کيا ہوگا سواۓ دُکھی ہونے کے ،بحث براۓ بحث ہم دل کا غُبار ہی نکال رہے ہيں ان سب ليڈروں ميں سے کون ديکھ ،سُن يا پڑھ رہا ہے يہ سب جو ہم لکھ رہے ہيں سب اپنے لۓ کر رہے ہيں يعنی
روم جل رہا ہو اور بانسری بجاۓ جاؤ
مع السلام
شاہدہ اکرم
درست تجزیہ ہے ، اصل میں میاں صاحب کندھوں کے سہاروں پر آگے آئے تھے ، اب انہیں سہارا دکھائی نہیں دے رہا ، کبھی وہ بی بی کا دامن تھامتے نظر آتے ہیں کبھی ایم ایم اے سے امید لگاتے ہیں اور کبھی کبھی تو وہ ایم کیو ایم کو بھی دیکھنے لگتے ہیں ۔ ۔ انہیں معلوم ہے کہ رائے ونڈ کے محلات ابھی تک عوام کو نہیں بھولے ، بے نظیر کے تو سرے محل تھے جنہیں عوام نہیں جانتی تھی ، رائے ونڈ والے محل تو عوام کے سامنے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پھر لوہا چوری ۔ ۔ سینہ زوری بھی کرنے والے کو کچھ تو احساس ہو گا نا ۔ ۔ ۔ مگر کیا کریں اقتدار کا نشہ ایسا ہے کہ ۔ ۔ ۔ چھٹتا نہیں ہے کافر منہ کو لگا ہوا ۔ ۔ ۔
اور مشرف انکل سے تو انکی ڈیل و ڈھیل دونوں ہیں ۔ ۔۔ اب نہ کھل کر وہ بولتے ہیں نہ وہ ۔ ۔ ۔ عوام ہیں ۔ ۔۔ کہ ششدر ہیں ۔ ۔ کہ
ادھر دیکھوں ادھر دیکھوں
مصیبت ہے کدھر دیکھوں ۔ ۔ ۔
ماشاء اللہ راشدہ اکرم صاحبہ کافی جہاں دیدہ لگتی ہیں اگر تیس سال سے کم عمر کی ہیں تو ماشاء اللہ ذہین ہیں اور اگر پچیس سال سے کم عمر کی ہیں تو ماشاءاللہ نہ صرف ذہین ہیں بلکہ بُردباری بھی ان کے قدم چومتی ہے ۔
شاہدہ اکرم صاحبہ بالکل صحیح خیال رکھتی ہیں کہ اندر کی کہانی پتہ چلنا ہمارے مُلک میں ناممکن نہیں تو نہائت مشکل ہے ۔ میرے خیال کے مطابق ہم لوگ ہوا میں قلعے بنانا پسند کرتے ہیں اور حقیقت معلوم کرنے کیلئے تگ و دو کرنا ہماری خصلت نہیں بلکہ ایسا کرنے والے کو ہم احمق سمجھتے ہیں ۔
مجھے اپنی سابقہ ملازمت کے باعث کئی حقائق کا علم ہے جو میں زبان پر نہیں لانا چاہتا یا نہیں لا سکتا ۔ اسلئے میں لوگوں کے مباحث پڑھ کر بعض اوقات دل ہی دل میں ہنستا رہتا ہوں ۔
میاں محمد شریف کے خاندان کے اکثر افراد کی جلاوطنی کے متعلق کچھ باتیں مجھے اپنی ذاتی حیثیت میں معلوم ہوئی تھیں جو میں یہاں لکھ دیتا ہوں ۔ جب نواز شریف اٹک قلعہ میں بند تھا تو موجودہ سعودی بادشاہ جو ان دنوں وقت ولی عہد تھا مگر عملی طور پر حکمران تھا خاص طیارے پر اسلام آباد پہنچا ۔ فوراً اسے ہیلی کاپٹر پر اٹک قلعہ لے جایا گیا ۔ وہ وہاں نواز شریف سے ملا اور واپس اسلام آباد ایر پورٹ اور پھر سعودی عرب چلا گیا ۔ اسلام ایر پورٹ پہنچنے اور پھر اسلام ایر پورٹ سے سعودی عرب روانہ ہونے میں کل تین گھینٹے لگے ۔ بعد میں رمضان کے وسط میں ایک سعودی شہزادے نے آ کر شکائت کی کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے کا وعدہ تھا مگر پورا نہیں کیا گیا ۔ تاخیر کی وجہ کیا تھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز مشرف سب سے جان چھڑانا چاہتا تھا مگر سب جانا نہیں چاہتے تھے ۔ ایک بات واضح ہے کہ شہباز شریف کو جب ہوائی جہاز کی طرف لے جانے کی ایک کرنل نے کوشش کی تو اس کے ساتھ شہباز شریف کی ہاتھا پائی بھی ہوئی ۔
اب سنیئے 12 اکتوبر 1999 کا حال ۔ نواز شریف اسلام آباد سے باہر گیا ہوا تھا اور اسے بعد دوپہر ایک اور دو بجے کے درمیان کسی نے خبر دی کہ پرویز مشرف کی ایماء پر اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ رہا ہے ۔ نواز شریف سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسلام آباد روانہ ہوا اور یہاں پہنچ کر پرویز مشرف کی برطرفی اور نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کا حکم نامہ تیار کیا ۔ جب یہ حکم نامہ صدر کے علم میں لانے کیلئے فیکس کرنے کی کوشش کی گئی تو فیکس کام نہیں کر رہی تھی ۔ چنانچہ نواز شریف نے یہ حکم نامہ دستی صدر کو بھجوایا یا خود ان کے پاس لیکر گیا ۔ شہباز شریف سویا ہوا تھا اسلئے وہ اس سب سے بے خبر تھا ۔ نواز شریف نے بھی نہ سوچا کہ فیکس کیوں کام نہیں کر رہی تھی ۔ پھر جب نواز شریف نے ڈاریکٹ لائین پر کسی کو ٹیلیفون کرنے کی کوشش کی تو ٹیلیفون کام نہیں کر رہا تھا ۔ پرائم منسٹر ہاؤس کے ٹیلیفون ایکسچینج سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ٹیلیفون کٹ چکے ہیں ۔
میں عصر کی نماز پڑھ کر جی 9 مرکز المعروف کراچی کمپنی کسی کام سے پہنچا ۔ گاڑی پارک کر کے چلا ہی تھا کہ ایک آدمی میرے قریب سے ہی گاڑی میں سے تیزی سے نکلا ۔ میں نے دیکھا کہ وہ سخت پریشان ہے ۔ اسی وقت ایک آدمی سامنے سے بھاگ کر اس کے پاس آیا اور پریشانی میں سوال کیا کہ ہوا کیا ہے ؟ لامحالہ میں ان دونو میں محو ہو کر ان کے پیچھے چل پڑا ۔ پہلے آدمی نے کہا کہ بہت گڑبڑ ہو گئی ہے ۔ یا نواز شریف ہے نہیں یا کم از کم اس کی حکومت نہیں ۔ دوسرے آدمی نے پوچھا کہ یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو ؟ تو پہلے نے کہا میں وہیں سے آ رہا ہوں ۔ اللہ خیر کرے میں نے دیکھا کہ اسلحہ بردار فوجی چاردیواری پھلانگ کر پرائم منسٹر ہاؤس میں داخل ہو رہے ہیں اور چاروں طرف فوج ہے ۔ آگے گیا تو پی ٹی وی کے دفتر پرمسلح فوجی تھے ۔ تو میں ادھر بھا گا ہوں ۔
مجھے اچانک خیال آیا کہ جس دکان پر میں نے جانا تھا وہ پیچھے رہ گئی تھی میں نے گھڑی دیکھی تو چھ بجے میں پانچ منٹ تھے سو میں جلدی سے اپنا کام کر کے قریب ہی اپنے کزن کے گھر پہنچا اور اسے پی ٹی وی لگانے کا کہا ۔لیکن مغرب کی اذان شروع ہو گئی اور ہم مسجد کو بھاگے ۔ مغرب کی نماز پڑھ کر آئے اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے ۔ وہاں معمول کی بجائے کوئی اور پروگرام ہو رہا تھا ۔ چھ بج کر پچاس منٹ پر اعلان ہوا کہ نواز شریف کی حکومت قائم ہے اور پھر اچانک ٹی وی بند ہو گیا ۔ چند منٹ بعد بجلی بھی چلی گئی ۔ میں نے اپنے گھر ٹیلیفون کرنے کا سوچا تو ٹیلیفون کام نہیں کر رہا تھا ۔ پھر میں گھر آ گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ ٹی وی پر یہ اعلان پرویز مشرف کی جگہ بنائے گئے نئے چیف آف آرمی سٹاف کا تھا جسے سات بجے گرفتار کر لیا گیا ۔ نواز شریف کی حکومت سہ پہر ساڑھے پانچ بجے ختم ہو چکی تھی جب ابھی پرویز مشرف کراچی سے بہت دور شائد سری لنکا یا اسکے قریب تھا پرویز مشرف کا جہاز رات آٹھ بجے کراچی کی فضا میں پہنچا تھا ۔ اسلئے جہاز کو روکنے والا معاملہ ایک من گھڑت ڈرامہ ہے ۔
نواز شریف سے آب زم زم سے اپنے گناہ دھو چکے ہیں، شاید اسی لیے بڑھکیں مار رہے ہیں۔ انہوں نے پوری زندگی میں صرف ایک ہی اچھا کام کیا وہ توتھا ایٹمی دھماکوں کا ’’فیصلہ‘‘۔
مجھے کئی حقائق کا علم ہے جو میں زبان پر نہیں لانا چاہتا یا نہیں لا سکتا،ہا ہا ہا ،
اس لطیفہ کو سنتے سنتے عوام کی عمر گزر گئی،اب تو یہ بہت گھس پٹ بھی گیا ہے،کیوں اجمل صاحب آپکی دین داری اپ کو یہی سکھاتی ہے کہ حقائق کو چھپاؤ اور عوام کو بے وقوف بناؤ، اوراپنے بڑوں کے مفاد کا تحفظ کرو،
اجمل صاحب راشدہ اکرم نہیں شاہدہ اکرم:)
چلیئے افضل صاحب آپنے یہ تو ماناکہ فوج اور جاگیردار سیاست دانوں کی مدد کے بغیر حکومت حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے دریا کو الٹاچلانا،
ویسے اس پوسٹ میں آپنے اپنی غیر جانب داری ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ آپ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا:)
اجمل صاحب 12اکتوبر1999ء کی شام يا رات جو کُچھ ہُوا زيادہ نہيں تو بہت کُچھ اُس سے عام عوام بھی واقف ہی ہيں اب لوگ باگ اتنے بھی بھولے نہيں رہے کہ ان سياسی باتوں کو نا سمجھ سکيں ويسے بھی بالکُل سامنے کی باتوں کی سمجھ تو سبھی کو آ ہی جاتی ہے کہ جب مُشرف صاحب کا جہاز محوِ پرواز تھا تو نواز شريف کی حکُومت ختم ہو چُکی تھی اور اگر جہاز خطرے ميں بھی تھا اور کراچی ائر پورٹ کی حدود ميں تھا اور اجازت تفويض نہيں ہو رہي تھي لينڈنگ کي تو کيا قريب ترين ائر پورٹس يعني شارع فيصل بيس ائر فورس يا ملٹري بيس ملير يا پھر ماري پُور کا ائر فورس کا بيس کوئ اتني زيادہ مُسافت پر نہيں تھا ،کيا اتنا بھي فيول نہيں تھا يا مُلک کے جنرل صاحب کو وہاں اُترنے کي اجازت نہيں مل سکتي تھي يا اور بھی کوئ وجُوہات تھيں ہم دونوں گھر ميں بيٹھے جب بھی اس موضُوع پر بات کرتے ہيں تو اس نا پُختہ لطيفے پر ہنسی نہيں رُکتی کہ يہ بڑے لوگ ايک اقتدار کی رسّی کو طُول دينے کے لۓ کيا کُچھ نہيں کرتے بے چارے ،جبکہ کبھي کبھار يہي رسّي تبديل ہو کررسّي سے پھندے ميں بھي بدل جايا کرتي ہے اور ہم عام لوگ اس معاملے ميں کتنے خوش قسمت ہيں چھوٹے چھوٹے غم معصُوم معصُوم سے جن سے چاہيں تو بہت سہُولت سے چُھٹکارا بھی پا سکتے ہيں ليکن پھر ہميں بندہ بشر کون کہے گا جو نا قدرا اور نا شُکرا ہے ويسے اجمل سر جی ماشاءاللہ سے ميری بچی اوليول کر رہی ہے رہی بات عُمر کی تو خواتين سے عُمر کيا پُوچھنی کہ پُوچھنے پر ڈر لگتا ہے کہ کم تو ہو نہيں سکتی يعنی ايک جگہ رُک نہيں سکتی سو کہيں بھی اٹکا ديں اس عُمر کی رسّی کو کوئ فرق نہيں پڑتا، بس دُعاؤں ميں ياد رکھيۓ گا کہ دُعاؤں کی ضرورت ہر کسی کو ہر عُمر ميں رہتی ہے
دُعاگو
شاہدہ اکرم
اور کبھی موقع ملے تو علی قلی خان کہ جس کی جگہ مشرف کو چیف بنایا گیا تھا، کی بھی سنیے۔ انکا ایک غالبآ جوابِ شکوہ اخبار میں پڑھا تھا، کافی کھری کھری باتیں کی تھیں۔ افسوس کہ لنک فراہم نہیں کر سکتا۔
پہلے تو معذرت کہ میں شاہدہ کی بجائے راشدہ لکھ گیا ۔ لیکن پُرلُطف بات یہ ہے کہ پریشانی شاہدہ صاحبہ کی بجائے مہرافشاں صاحب کو ہوئی ۔ یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ شاہدہ صاحبہ کی بیٹی ماشاء اللہ او لیول میں ہے ۔ اللہ اسے بھی خوش رکھے اور کامیاب زندگی عطا فرمائے ۔
مہرافشاں صاحبہ اگر بات کی سجھ نہ ہو تو فالتو بات انسان کو بیوقوف ثابت کرتی ہے ۔ جو بات مجھے اپنی سرکاری ملازمت کے حوالہ سے معلوم ہوئی وہ قومی راز ہوتا ہے اور اس کا افشا کرنا نالائقی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ ازراہِ کرم پہلے کسی کی تحریر کو غور سے پڑھ لیا کریں اور پھر گلفشانی کیا کیجئے ۔
آجملصاحب یہی تو رونا ہے کہ ہر وہ بات جس مین قوم کو بے وقوف بنایا گیا ہے قومی راز ہے اور آپ جیسے لوگوں کا مفاد اسی مین ہے کہ ان پر پردہ پڑا رہے،اور کچھ نہیں تو اس حقیقت کو ہی تسلیم کر لیجیئے تو مہربانی ہو گی،
دوسروں کو غلط بیانی کا طعنہ دے کر ان کی سچائی کو مشکوک بنانا آپ لوگوں کو خوب آتا ہے،اللہ آپ کو ہدایت دے کہ آپ سچائی اور پروپگیندہ میں تفریق کرنا سیکھ لیں،
آپ نے زبان کھولنے کی دھمکی دی تو ہم سب اب آپ کی زبان کھلنے کے منتظر ہیں،
جاتے جاتے کوئی تو اچھا کام کر جائیں عوام کے پیسوں پر تاج محل میں تہرنے اور دنیا گھومنے کی عیاشی کرنے کے بعد اتنا تو عوام کا حق بنتا ہی ہے کہ دیر سے ہی سہی حقائق پتہ تو چلیں باقی آپکی معروضات کا جواب ایم کیو ایم والی پوسٹ پر،
پاکستانی عوام کوے پیسوں پر (وہ بھی چھینے ہوئے) جو برطانوی شہری تاج محل میں رہتا ہے پہلے اسے چاہیے کے حق سامنے لائے یا اپنے آپ کو حق پرست کہنا چھوڑے بعد میں اجمل صاحب سے گلہ کریں کہ وہ سرکاری ملازم ہیں اور یہی انکی دیانت کا ثبوت ہے کے وہ اب تک اسے نباہ رہے ہیں۔
راشد آپ اجمل صاحب کے بزرگ بننے کی کوشش نہ کریں اور انہوں نے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ثبوت تو انہیں دینا ہی پڑے گا اگر وہ سچے ہیں تو،
ہمیں تو وہ دوغلا اور غلط بیان کہ رہے ہیں تو وہ ہی سچے ہو جائیں،
آپ لوگوں نے اسی منافقت کا ثبوت جب بھی دیا تھا جب بنگالیوں سے آپ نے ظلم روا رکھا اور اب جب وہ الگ ہو گئے تو ہمارے بنگالی بھائی کہتے آپ کی زبان سوکھتی ہے اور سانحہ بنگال پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں آپ لوگ کاش اس وقت آپ لوگوں نے انہیں اپنا بھائی سمجھا ہوتا توآ ج یہ دردناک سانحہ پیش ہی نہ آتا،
میں کسی کا بزرگ نہیں بن رہا بحث کے دوران عمومی طور پر دو رائے ہوتی ہیں اور لوگ ان میں سے ایک کے حق میں بولتے ہیں اس میں ذاتیات اور بزرگ مضحکہ خیز باتیں ہیں آپ انے دلائل دیں ہم اپنے دے رہے ہیں اختلاف رائے کا مطلب یہ نہیںہوتا کے آپ دوسرے کی نیت پر، قومیت پر شبہ کرنے لگیں دونوں کا ہی مقصد بہتری ہی ہے۔۔ سقوط ڈھاکہ کا پاکستان کی عوام کو قومیت سے اوپری سطح پر افسوس ہی ہے مگر اس دور میں آج کی طرح انفارمیشن اتنی عام نہیں تھی اور عوام مکمل اندھیرے میں ہی رہی ۔۔ سقوط ڈھاکہ سادہ ترین الفاظ میں پاور پلے ہی تھا اور اس میں دونوںطرف کے عوام بالخصوص کسی الزام سے مبرا ہیں۔ اب اسکو آپ مگر مچھ کے آنسو کہیں یا کچھ اور آپ کو حق حاصل ہے۔۔
دونوں طرف کے عوام چہ خوب،
بنگالیوں سے حقارت آمیز سلوک آپ لوگوں کے لیئے معمول کی بات تھی بات بات پر انہیں بھوکے بنگالی کہنا اور ان ہی کے ملک میں رہ کر ان سے غلاموں جیسا سلوک کرنا، یہ آپ کے علاقہ کے لوگ ہی کر رہے تھے،ہم بنگال بھی گھوم چکے ہیں اور ہمارے والد 71 کی جنگ میں وہاں ٹرانسفر پر گئے ہوئے تھے اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر فوج میں شمولیت بھی یختیار کرلی تھی،لیکن انہوں نے کسی بنگالی پر ہاتھ نہیں اٹھایا یہی وجہ تھی کہ جب وہ جنگی قیدی بنے اور وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو بنگالیوں نے انکا ساتھ دیا،
وہاں ہمارے کئی رشتہ دار مکتی باہنی کے غنڈوں کے ہاتھوں مارے بھی گئے ہم تو اپنے والد کی طرف سے بھی مایوس ہو گئے تھے مگر ان کی زندگی تھی کہ بچ گئے،
جب انفارمیشن نہیں تھی تب بھی آپ کے صوبہ کے لوگ بنگالیوں کو غدار کہا کرتے تھے جیسے آج اردو بولنے والوں کو دہشت گرد کہا جا رہا ہے،
بات انفار میشن کی کمی کی نہیں ہے بات احساس کی کمی اور تعصب کی زیادتی کی ہے،
چلیں میں تعصب پسند اور باقی تمام بلاگرز تعصب پسند۔۔ آپ کی جماعت نے کیا کیا ؟ حکومت میں ہیں ۔۔ پریشر ڈالیں کے محصور پاکستانیوں کو واپس لائیں؟ بنگالی قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف فوچ کے آحتساب کا مطالبہ کریں ؟سندھ حکومت گرانے کی دھمکی دیں؟ مگر وہ تو مکر گئے اپنے منشور سے مکر گئے کیونکہ انکو پتہ ہے حکومت چھوڑی تو آرمی حکومت کسی اور کو خرید لے گی۔۔ تو ہم ہی کیوں نہ بک جائیں ؟ آج متحدہ قومیت کے اتحاد کی باتیں کرتی نظر آتی ہے مگر مجھے ایسا لگتا ہے ابھی تک ہمارے اردو بولنے والوںکا احساس برتری گیا نہیں ؟
کچھ لوگوں کو بہاریوں کے حوالے سے بہت تکلیف ہے اس سلسلے میں بھی چند حقائق پیش خدمت ہیں،بہاریوں کو پاکستان نہ آنے دینے کے لیئے ارباب اقتدار کے پاس جو وجہ تھی وہ بھی سن لیجیئے انکا خیال تھا کہ یہ سب کراچی میں آکر بس جائیں گے اور اردو بولنے والوں کا ووٹ بینک مزید بڑھ جائے گا،جب بھٹو صاحب کے دور میں شاہ فیصل شہیدنے کہا کہ سارے بہاریوں کو سعودی عرب بھجوادو تو بھٹو صاحب نے جہاز کے جہاز بھر کر سندھیوں کے وہاں بھجوانا شروع کردیئے،جس پر شاہ فیصل نے اس پروسیس کو رکوادیا،
نواز شریف کے دور میں ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدے میں بہاریوں کی واپسی کا نقطہ شامل تھا،اور کچھ لوگ لاکر پنجاب کے کسی دور افتادہ علاقہ میں بسائے بھی گئے اور ان لوگوں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ کراچی میں کبھی نہیں بسیں گے بی بی سی نے ان لوگوں کے انٹرویو بھی نشر کیئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہاں لے تو آئے ہیں لیکن ہمارے روزگار کا کوئی انتظام نہیں ہے ہم لوگ بنارسی ساریوں کے ماہر ہیں مگر ہمارے پاس نہ تو کام شروع کرنے کے لیئے پیسہ ہے اور نہ کوئی کانٹیکٹ،اور حکومت ہماری مزید کسی مدد کے لیئے تیار بھی نہیں اور ہمیں یہاں سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں،
اس کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف نواز شریف نے آپریشن شروع کردیااور ان کا کچھ پتہ نہ چلا کہ انکے ساتھ کیا ہوا،
آج بھی جب تک فوج نہیں چاہے گی بہاری اس ملک میں نہیں آئیں گے سنا ہے اب تو انکی نئی نسل نے بنگالی بنناقبول کرلیا ہے،اور وہ وہاں کے معاشرے میں زم ہورہے ہیں، اور ان کے لیئے یہی بہتر ہے بنگالیوں میں پھر بھی انسانیت ہے وہ انہیں ماضی کا طعنہ نہیں دیں گے!
حضرت یہی تو میرا سوال ہے کہ آخر ایم کیو ایم ایسی حکومت میں کیوں شامل ہے جو اسکے بنیادی منشور کے خلاف ہے جو اسکا ووٹ بینک بڑھتا دیکھنا نہیں چاہتی ؟۔۔ آپ فوچ کے اتحادی ہیں۔۔ ایم کیو ایم نے پچھلے پانچ سال میں اس اہم مسئلے پر کیا کیا ؟ نواز آپریشن کے بعد جب ایم کیو ایم دوبارہ حکومت میں آئی تو اس نے نواز دور میں پاکستان لائے جانے والے بہاریوں کو ڈھونڈنے اور انکی آباد کاری کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کوئی دباؤ؟ کوئی ریلی؟ کوئی جلسہ؟ کوئی اسمبلی میں بل ؟
لوگوں کو اس بات پر سخت تکلیف ہے کہ متحدہ حکومت میں کیوں شامل ہے شائد وہ اس انتظار میں ہیں کہ کسی طرح اسکے دوبارہ فوج سے اختلاف ہوں اور اس کا دوبارا آپریشن کلین اپ ہو اور انہیں دوبارا بغلیں بجانے کا موقعہ مل سکے،
وہ کیوں نہ حکومت میں شامل ہوں انہیں ان کے لوگوں نے اسی لیئے اتنی اکثریت سے ووٹ دیئے ہیں کہ وہ ان کے علاقوں میں کام کریں صرف اپوزیشن اپوزیشن نہ کھیلیں،
رہی بات بہاریوں کی تو نعمان والا سوال کیا بہاری صرف متحدہ یا اردو بولنے والوں کا مسئلہ ہیں باقی پاکستان اس غیر انسانی سلوک پر جو انکے ساتھ ہورہا ہے کیوں خاموش ہے،مجھےیقین ہے کہ جس دن بھی متحدہ اس پوزیشن میں ہوئی کہ اپنا یہ مطالبہ منوا سکے وہ اسے ضرور منوائے گی ان کے ایجینڈے پر یہ نقطہ موجود ہے بس خیال رکھیئے گاکہ اس وقت سندھ اور پنجاب کو کوئی تکلیف یا اعتراض نہ ہو،ویسے آپ لوگ تو اس بات کے حق میں ہیں نہ کہ بہاریوں کا حق ہے کہ وہ پاکستان آئیں؟:)
لوگوں کو یقینا اس بات سے سخت تکلیف ہوئی ہے کہ متحدہ حکومت میں کیوں شامل ہے۔۔ ہم نے متحدہ کو اس لیے ووٹ نہیں دیے تھے کہ وہ اپنے مشنور پر یو ٹرن مار کر اسی آرمی کے ساتھ بیٹھ جائے جس کے خلاف اس کی جدو جہد تھی۔۔ اب اگر متحدہ کی قیادت اورہمدردوں کو جواب نہیں مل رہا تو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ وہ کیا کہتے تھے قائد تحریک
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خاک ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
تو متحدہ جدو جہد کے مرکزی نقطے سے دور نکل چکی ہے۔۔ یہ آج کی زمینی حقیقت ہے۔۔ آپ اس کو آج مانے۔۔ یا کل ۔۔ یہ آپ پر ہے۔
میرا پاکستان کے لئے
محترم آپ کا تبصروںکے لئے لوگوںکو مدعو کرنا مناسب انداز میں نہیںہے مثال کے طور پر صرف چند سیاست دانوںکے علاوہ باقی سیاست انوںپر آپ کی جانب سے کوئی دعوت موصول نہیںہورہی چند میںبھی پرویز مشرف ، الطاف حسین ، بینظیر بھٹو اور نواز شریف ہیںباقی سے کیا آپ کا کوئی خاص تعلق ہے ؟
ساتھ ہی فوج ، بیوروکریسی ، عدلیہ ، کھلاڑیوں،سائینسدانوںپر بھی بحثکرائیے سید علی رضا
Leave A Reply