چند قارئین ہماری ہر پوسٹ کو اکھاڑا بنا کر ایک دوسرے کیساتھ لڑائی لڑنے لگتے ہیں اور لڑائی بھی ایسی کہ کتے بھی پناہ مانگنے لگیں۔ گالی گلوچ اس حد تک کہ ان کی مسلمانی پر شک ہونے لگے۔ الفاظ اتنے غلیظ کہ ان کے تعلیم یافتہ ہونے پر شبہ ہونے لگے۔ کوئی ہے جو اس بکواس سے بچنے کا حل تجویز کر سکے۔ یعنی کوئی ہے جو بتائے کہ ان لڑاکے قارئین سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے جو اپنے سوا سب کو جاہل اور گنوار سمجھتے ہیں مگر ان کی حرکتیں کچھ اور ہی اشارے دے رہی ہیں۔ ہم نے چنگاری لگا دی ہے اب خوب دل کھول کر بکواس کیجیے اور ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کر دیجیے۔
فکرپاکستان کی یہ تحریر ہمارے موقف کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ اس تحریر کا آغاز ہی کچھ اس طرح ہوتا ہے “ایک معاشرہ جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، دوسرا معاشرہ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل کر رہا ہے”۔ لگتا ہے اسی طرح کے جانور اودھم مچا مچا کر ہمارے بلاگ کو گندہ کر رہے ہیں۔
کتنی دفعہ منت سماجت کی، تبصرے ڈیلیٹ کیے، ضابطہ اخلاق بنایا مگر کوئی اثر نہیں۔ اب یہی ایک طریقہ رہ جاتا ہے یعنی انہیں خوب بکواس کرنے کی مہلت دی جائے۔ ہم لمبی رخصت پر جا رہے ہیں۔ جب یہ بکواس ختم ہو گئی تو پھر کچھ لکھنے کے بارے میں سوچیں گے۔
22 users commented in " ایسے قارئین سے لنڈورے ہی بھلے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackصرف عبداللہ نامی شخص کے تبصرے ڈیلیٹ کر دیا کریں ۔ آپ خود فرق محسوس کریں گے۔ اس شخص کے تبصرے بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ اس کے تبصرے ڈیلیٹ کرنے سے ایک دو اور بلاگ بھی بتدریج درست ہو گئے۔ اجمل انکل کا بلاگ بھی اس لعنت سے پاک ہے۔
جناب آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ عبد اللہ نامی شخص کے تبصرے ڈیلیٹ کر دیا کریں۔
جب آپ یہ نہیں کرتے تو یہی محسوس ہو تا ہے۔ کہ
آپ بھی چسکے لینا چاہتے ہیں۔
بحر حال گستاخی کی معذرت چاہوں گا۔
قصور ذیادہ تر صاحب بلاگ کا ہی ہوتا ہے۔
میں نے بیہودہ لوگوں کا تبصرہ ڈیلیٹ کیا ہے یا پھر
جب لڑائی جوبن پر تھی تو بد تمیز کا تبصرہ ڈیلیٹ کیا تھا۔
افضل صاحب ۔ آپ کی اس تحرير نے مجھے پريشان کيا ہے ۔ آپ کمپيوٹر کے اتنے پرانے کھلاڑی اور پاکستان کی بہترين انجيئرنگ يونيورسٹی کے گريجوئيٹ ہيں اور آپ ان چند کوتاہ انديشوں سے نپٹ نہيں سکتے ۔ اگر آپ ناپسنديدہ تبصرہ نگار کو بلاک کرنا چاہتے ہيں تو سيٹنگز ميں ڈِسکشن ميں جا کر مقررہ خانہ ميں اُس کا نام جيسے وہ آپ کے بلاگ پر لکھتا ہے لکھ ديجئے ۔ اس کے بعد جن کے نام آپ لکھيں گے ان کے تبصرے بغير آپ کے اپرووال کے شائع نہيں ہو نگے
میں تو بلا تخصیص ہر نامہذب تبصرہ حذف کردیتا ہوں۔
افضل صاحب ۔
آپ کے تجاہل عارفانہ کو کیا نام دیا جائے؟۔
ایک زمانہ تھا کہ آپ کی تحریر اچھی خاصی مفصل ہوتی تھی۔اور ٹانگ کھینچھنے کا آغاز کرنے پہ آپ بے ہودہ تبصرہ دہندگان کو انتباہ کرتے اور اگر کوئی باز نہ آتا تو اسکا تبصرہ بھی حذف کر دیا کرتے۔ آپکی موڈریشن اور غیر جانبداری پہ رشک آتا تھا۔
پھر آپ نے اپنی تحریر کو مختصر اور کبھی کبھار کیا ۔ اور درمیان میں آپ یوں گم ہوئے کہ دیدہ و بایدہ۔ اور یقین مانیں ہمیں آپکی خریت کی پریشانی ہونے لگی پھر آپ نے بتایا کہ ونڈوز سیون کی وجہ سے آپ انٹر نیٹ پہ کچھ لکھنے پہ کامیاب نہیں ہورہے ۔ ٹھیک اسکے بعد آپ کی تحریروں یہ تاثر ملتا کہ یہ جلدی میں لکھی گئی ہیں اور آپ ان مختصر ترین تحریروں سے مباحثے کی بجائے تنازعہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی آپ نے ہر قسم کی موڈریشن ذمہ داری سے ہاتھ کینچھتے ہوئے ایک خاص تبصرہ نگار کو ہر قسم کی چھوٹ دی جو ہمیشہ دوروں کو زچ کرنے کے لئیے غلیظ زبان اور غیر متعلقہ بات چھڑتے ہوئے اپنی مخصوص زمین پہ کینچھنے کی کوشش کرتا ہے۔
وہ یوں کرتا رہا ۔ آپ اپنی پرانی اور نہائت شستہ روش چھوڑ کر خاموش رہے۔ اور مجھ پہ ہی نہیں بہت سے لوگوں نے سوچا کہ شاید آپ بھی یوں بلاگ کی رونق بڑھا رہے ہیں۔ جیسے کہ آجکل ایک آدھ اور بلاگر کا بھی یہ وطیرہ ہے۔ کہ کہاں تو آپ اپنی نہائت عمدہ تحریروں پہ نہائت تحمل سے اپنی رائے سے بھی دوسروں کو آگاہ کرتے ، انتباہ جاری کرتے ۔ اور ضرورت پڑتی تو کچھ تبصرے حذف کر دیا کرتے تھے اور کہاں آپ چند جملے لکھ کر لوٹ کر اپنے بلاگ کی خیریت تک معلوم نہیں کرتے رہے۔
آپ اپنی پچھلی تحریر سے آغاز کرتے ہوئے اس سے سبھی پچھلی تحریروں کے تبصروں پہ ایک نظر دوڑائیں آپ کو سارا منظر نامہ واضح طور پہ نظر آجائے گا۔ ایسے میں آپ نے سبھی کو ایک ہی ایک جیسا کہہ کر کمال عارفانہ تجاہل کا مظاہرہ کیا ہے۔ جو درست بات نہیں۔
اپنی پچھلی تحریر پہ دیکھیں کہ اس بے ہودگی کا آغاز کس نے کیا ؟ اور اگر آپ محض عبداللہ کے تبصروں کا کوئی حل کر سکیں تو آپ کا بلاگ کبھی اکھاڑے کا منظر پیش نہیں کیا کرے گا۔
افتخار اجمل صاحب اور بدتمیز صاحب کے تبصروں پہ بھی غور کی جئیے گا۔ پچھلی تحریر پہ اس نے نام بدل کر یاسر جاپانی خواہ مخواہ نامی صاحب کا نام استعمال کر کے انکی طرف سے مجھے گالیاں لکھ رکھی ہیں جو آپ کے بلاگ کی ابھی تک زینت بنی ہوئی ہیں جبکہ مجھے علم ہے کہ یاسر جاپانی صاحب کا کام نہیں اور نیز ایسی حرکت کون کر رہا ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ آپ جو صاحب بلاگ ہیں آپ کو اس بارے علم نہیںـ؟
واللہ آپکی اس غیر جانبداری، لاعلمی اور معصومیت پہ حیرت ہوتی ہے۔
ایک بات کی وضاحت جو کسی وجہ سے یاسر جاپانی خواہ مخواہ صاحب نے نہیں کی وہ میں کئیے دیتے ہوں کہ ان کے نام سے جو گالیاں دی گئیں ہیں۔ وہ انہوں نے نے نہیں لکھیں۔ آپ اس تبصرہ نگار کا آئی پی چیک کریں اور دوسروں کو بھی اس بارے آگاہ کریں۔
گوندل صاحب معذرت میرے نام سے کیا گیا تبصرہ میں دیکھ نہ سکا۔
شہزاد سلیم والے تھریڈ میں عبد الشیطان نے کس طرح ماحول کو خراب کرتے ہوئے معزز مبصرین کو بلاوجہ گالیاں دیں اور آپ کی اپنے بلاگ سے بے پراوئی کی وجہ سے کیسے نفیس آدمی کو مجبوری میں غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کرنے پڑے۔ اس وقت آپ سو رہے تھے اور اب آکر شکوہ کررہے ہیں۔ ہمارا بھی مشورہ یہی ہے کہ کتوں پر پابندی لگادیں سب ٹھیک ہوجائے گا، امید ہے آئندہ آپ تماشا نہیں دیکھیں گے۔
تبصرہ خانے پر لکھ دیتے کہ گالی گلوچ اور غیر مہذب تبصرے شائع نہیں ہونگے
بجائے اس کے ایک پوسٹ لکھ دیئے!!
شعیب، ہندوستان سے
نظر انداز کريں، پڑھنے والے خود اندازہ لگا ليں گے کيا ٹھيک ہے کيا غلط۔
پابندی کا مطالبہ کرنے والے وہ اصحاب ہيں جنکے سامنے دليل بھينس کے آگے بين بجانے کے مترادف ہے-
یاسر جاپانی، لو بھئی تمہاری خواہش پوری ہوئی،
جيسے جيسے جہادی کم ہونگے ويسے ويسے جرنيل اور امير ہوں گے۔
آپ سالہاسال کینیڈا اور امریکہ رہ چکے ہیں۔ آپ بتائے اگر خدانخواستہ آپ کے بچے سے کوئی غلطی سرزد ہو اور وہ کہیں چھپ جائے اور پولیس آپ کے دروازے پر ہو تو کیا وہ آپ کو تنگ کرے گی؟ کیا آپ کو بچے کی حرکت کا الزام دے گی؟ کیا آپ کو بچے کی جگہ حراست میں لے لے گی؟
اس کی روشنی میں آپ اکمل کا تبصر دیکھیں۔ کس ڈھٹائی سے پوسٹ کی صحت کے خلاف تبصرہ کر رہا ہے اور آپ اس کو روک نہیں پا رہے؟ برائی کو پنپنے نہ دیں۔ اس کو جڑ سے ہی ختم کر دیں۔
آپ اکمل کا آئی پی ذرا چیک کریں اور عبداللہ کا بھی۔ میرے خیال سے عبداللہ کو مکمل بین کرنے کے بعد اکمل بھی شائد بین ہو جانا چائے۔
چونکہ اس پوسٹ پر ہدایت نامے لکھے جارہے ہیں تو ایک ہدایت نامہ میری طرف سے بھی۔۔۔۔۔۔!!!
محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ہدایت نامہ برائے صحافی برادری
1۔قلم اٹھانے سے پہلے بلند آواز میں کہیں کہ ملک اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ اگر ملک کا خیال نہیں ہے تو لکھنے سے پہلے اپنے جسم کے نازک حِصوں کے بارے میں سوچیں، ان پر اگر نازک وقت آگیا تو کیا ہوگا؟
2۔اگر کسی خبر میں مسلح افواج کا ذکر آئے تو اس کے لیے فوج کا لفظ استعمال مت کریں، عسکری یا مقتدر حلقوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بلکہ آپ کی اور آپ کے اخبار کی صحت کے لیے بہتر ہوگا کہ لفظ مقتدرہ استعمال کریں۔ بزرگ پڑھنے والے سمجھیں گے کہ آپ مقتدرہ قومی زبان جیسے اداروں میں فخرزمان یا افتخار عارف کاحوالہ دے رہے ہیں ، نوجوان سوچیں گے کوئی نئی عربی ڈش ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
3۔اگر آپ کی طبیعت شاعری کی طرف مائل ہے تو یہ شعر خوشخط لکھ کر اپنے سامنے آویزاں کرلیں۔
لےسانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا
4۔ کیا پلاٹ لے لیا ہے؟ اگر کل مرجاؤ گے تو بچے کیا تمہارے ضمیر کا اچار ڈال کر کھائیں گے؟
5۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر کراچی میں صحافت کرتے ہیں تو وہ آفاق والا شعر اتار دیں۔ کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ آپ آفاق گروپ کے آدمی ہیں۔
6۔ جیسے ہی کسی خبر میں لفظ بلوچ، بلوچی یا بلوچستان آئے تو اس کو کاٹ کر لفظ نامعلوم ڈال دیں۔ مثلاً َ کچھ نامعلوم افراد ایک نامعلوم شخص کو اغواء کر کے ایک نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں اس پر نامعلوم طریقے سے تشدد کر کے نامعلوم جگہ پر پھینک دیا گیا۔
7۔یہ لکھنا نہ بھولیں کہ نامعلوم افراد کے خلاف ایک نامعلوم مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
8۔اگر بچپن میں کہیں قلم اور تلوار کی طاقت والا لطیفہ سنا تھا تو اسے بھول جائیں اب اس پر کوئی نہیں ہنستا۔
9۔قومی سلامتی کے امور پر لکھنے سے پہلے وضو کر لیں اور اگر ایمان کمزور ہے تو اس طرف مت جائیں۔ اور بہت سے موضوعات ہیں جن پر لکھا جاسکتا ہے ، ہمارے گٹر کے ڈھکن کون چراتا ہے، بھکاری مافیا کے نئے انداز، قبضہ گروپ کی کارستانیاں وغیرہ وغیرہ۔
10۔لیکن یاد رہے کہ قبضہ گروپ اور مقتدرہ کا ذکر ایک ساتھ نہ آئے۔
11۔اس ہدایت نامے کے عنوان میں برادری کے مطلب کہنے کے لیے کسی پنجابی بھائی سے رجوع کریں۔ چیمہ، چٹھہ، کیانی ویسے تو سب برادریاں کہلاتی ہیں لیکن برادری کے اندر چھوٹے بڑے کا احترام ضروری ہے۔ مثلا َ َ کیانی برادری کے اندر ایک فالسے کی ریڑھی لگانے والا بھی ہو سکتا ہے اور ایک میجر بھی۔ پہلے برادری میں اپنے مقام کا تعین کریں۔ اس سے پہلے کہ برادری آپ کو اپنا مقام یاد کرائے، برادری میں اپنا مقام پیدا کریں۔
12۔بعض ناعاقبت اندیش لوگ ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو ان کے نام سے پکارنے لگے ہیں یا انہیں خفیہ ایجنسیاں کہہ کر بلانے لگے ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں کوئی بات خفیہ نہیں ہے۔ آپ پرلازم ہے کہ انہیں ہمیشہ حساس ادارے کہہ کر پکاریں۔ اگر آپ اپنے حساس اداروں کے بارے میں لکھتے ہوئے اپنے محسوسات کو ایک طرف نہیں رکھیں گے اور معاملے کی حساسیت کا خیال نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے جسم کے کسی حساس حصے پر ضرب آئے اور پھر آپ بلبلاتے ہوئے حساس اداروں کو الزام دینے لگیں، حالانکہ آپ کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔
اور یہ بھی،
.سوری دشتیاری صاحب
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے بلوچی لٹریچر، تاریخ اور ثقافت پر ہر زبان میں ہونے والے کام کو ڈیڑھ لاکھ کتابوں اور دستاویزات پر مشتمل ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کی شکل دے دی ہے
مر تو سب ہی جائیں گے لیکن کچھ لوگ توقع سے زیادہ زندہ رہ جاتے ہیں۔ صبا دشتیاری کی موت بھی تاخیر سے ہوئی۔
انہیں جس نے بھی مارا عجلت میں نہیں مارا۔انہیں قاتل نے سدھرنے کے لئے کافی وقت دیا لیکن صبا دشتیاری چونکہ جذباتی آدمی تھے، دماغ سے زیادہ دل سے کام لیتے تھے اس لئے انہیں یہ سامنے کی بات سمجھ میں نہ آسکی کہ وہ دی گئی مہلت سے فائدہ اٹھائیں، دائرے کے اندر رہ کر کھیلیں ۔بلوچوں کے حقوق کے لئے منہ سے آگ اگلنے کا کرتب بند کریں۔
یونیورسٹیاں یقیناً آزاد خیالی کی پرورش گاہیں ہوتی ہیں لیکن یہ ایک مغربی تصور ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں آزاد خیالی اور شرک میں بال برابر فرق ہے۔ لہذا اگر یہ شوق پورا کرنا ہے تو کسی ایسی جگہ جائیے جہاں سماج اور ریاست میں ہر بات برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت ہو۔ ایک طے شدہ نظریاتی سرزمین میں ایسی لگژری برداشت نہیں ہو سکتی۔ یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کو صرف وہ نصاب پڑھانے تک خود کو محدود رکھیں جو ریاست نے متعین کردیا ہے۔
یونیورسٹیاں یقیناً آزاد خیالی کی پرورش گاہیں ہوتی ہیں لیکن یہ ایک مغربی تصور ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں آزاد خیالی اور شرک میں بال برابر فرق ہے۔ لہذا اگر یہ شوق پورا کرنا ہے تو کسی ایسی جگہ جائیے جہاں سماج اور ریاست میں ہر بات برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت ہو۔
صبا دشتیاری کو قاتل نے یہ بھی موقع دیا کہ وہ سرکاری ملازمت کے اصول و قواعد و ضوابط کا پاس کریں۔اپنی ریٹائرمنٹ بینفٹس، ترقی اور پنشن کا خیال کریں۔اگر حقوق بازی کے کھیل میں کودنے کا اتنا ہی شوق ہے تو یونیورسٹی کی جان چھوڑ دیں اور پھر کھل کر جو چاہے بولنے کا خطرہ مول لیں۔
دشتیاری صاحب یقیناً آپ نے بلوچ ادب، تاریخ اور فلسفے کو متعارف کرانے اور اسے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کرنے میں جو علمی کردار ادا کیا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔آخر ان موضوعات پر آپ کی چوبیس سے زائد کتابیں بھی تو اسی ریاست میں چھپی ہیں جسے آپ اپنی قوم کے ارمانوں اور حقوق کا قاتل سمجھتے ہیں۔
ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے بلوچی لٹریچر، تاریخ اور ثقافت پر ہر زبان میں ہونے والے کام کو ڈیڑھ لاکھ کتابوں اور دستاویزات پر مشتمل ظہور شاہ ہاشمی ریفرنس لائبریری کی شکل دے دی ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد لائبریری ہے۔ اگر آپ بقیہ زندگی اسی پر توجہ دینے میں کھپا دیتے تو یہ بھی کوئی کم اہم خدمت نہ ہوتی۔
صبا صاحب ! آپ اتنے بڑے آدمی تھے ۔کم ازکم اپنے بڑے پن کا ہی خیال کرلیتے۔کیا اتنے بڑے آدمی کو زیب دیتا تھا کہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ کینٹین میں بیٹھ کر گپ لگائے، سیاسی بھوک ہڑتالوں میں شریک ہو، جلسوں سے خطاب کرتا پھرے، مظاہروں میں شامل ہو، عام لوگوں کی طرح نعرے لگائے۔
دشتیاری صاحب یقیناً آپ نے بلوچ ادب، تاریخ اور فلسفے کو متعارف کرانے اور اسے اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کرنے میں جو علمی کردار ادا کیا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔آخر ان موضوعات پر آپ کی چوبیس سے زائد کتابیں بھی تو اسی ریاست میں چھپی ہیں جسے آپ اپنی قوم کے ارمانوں اور حقوق کا قاتل سمجھتے ہیں۔
توکیا ہر بات کہنے کے لئے ہوتی ہے، تو کیا ہر بات کرنے کے لئے ہوتی ہے۔آپ کہتے تھے کہ سچ بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کی جرات ہونی چاہئیے۔تو کیا ہر سچ بولنے کے لئے ہوتا ہے۔اگر یہ عادت اتنی ہی اچھی ہے تو آپ کے ساتھ کے اساتذہ اور ساتھی اس عادت کو کیوں نہیں اپناتے۔تو کیا انہیں وہ چیزیں نظر نہیں آتیں جو آپ کو دکھائی دے رہی تھیں۔
صبا صاحب ! آپ نے تو تاریخ گھول کر پی رکھی تھی ۔کیا آپ کو نہیں معلوم تھا کہ یونانیوں نے سقراط کے ساتھ کیا کیا، نازیوں نے اپنے نظریے سے اختلاف کرنے والے دانشوروں کو کیسے غائب کیا، چینی اور روسی کیمونسٹوں نے نام نہاد لبرل اساتذہ کا کیا حشر کیا، امریکہ میں میکارتھی ازم کے زمانے میں کھلی سوچ رکھنے والوں کو کہاں کہاں چھپنے پر مجبور ہونا پڑا۔
چلئے یہ تو بہت دور کی مثالیں ہیں۔ہو سکتا ہے آپ کے لئے اجنبی ہوں۔ لیکن کیا آپ یہ بھی بھول گئے تھے کہ پچیس مارچ سنہ انیس سو اکہتر کو ڈھاکہ میں جب آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا تھا تو سب سے پہلے ڈھاکہ یونیورسٹی کے نام نہاد ملک دشمن سوچ رکھنے والے اساتذہ اور ٹیچرز کو گولیوں سے بھونا گیا تھا۔ کاش آپ ڈھاکہ کے قومی عجائب گھر میں آج بھی رکھے ہوئے اس خون آلود قالین کو ہی جا کر دیکھ لیتے جس پر علم و دانش کی لاشیں پھڑکائی گئی تھیں۔
آپ یہ کہہ کر ہمیں بہت لمبے عرصے تک فریب نہیں دے سکتے تھے کہ ہم تو محض پڑھنے لکھنے والے لوگ ہیں۔ہمارا مسلح جدوجہد کرنے یا بندوق اٹھانے والوں سے کیا لینا دینا۔آپ ان سے زیادہ خطرناک لوگ ہیں۔آپ جیسے لوگ عام آدمی کا دماغ مسلح کرتے ہیں۔لہذا جس طرح سانپ کو مارنے کے لئے اس کا سر کچلا جاتا ہے اسی طرح قوموں کو مارنے کے لئے ان کا دماغ بننے والے لوگوں کو کچلنا بھی جائز ہے۔ دماغ ختم ، سوچ ختم ، آدمی ختم، مسئلہ ختم۔
صبا دشتیاری صاحب کاش آپ کو یہ باتیں سمجھ میں آ جاتیں۔یہ ٹھیک ہے کہ آپ بہت بڑے دانشور اور استاد تھے لیکن شائد آپ میں کامن سنس کی کمی تھی۔اور یہ صرف آپ کا مسئلہ نہیں ہے ہر بڑے آدمی میں کامن سنس کی کمی ہوتی ہے اور وہ اس کمی کے سبب موقع محل دیکھ کر بات کرنے کی صلاحیت اور مصلحت کے معنی سے عاری ہو جاتا ہے۔
صبا صاحب آپ کی موت پر ہمیں بھی دکھ ہے۔لیکن یہ دکھ آپ کے زندہ رہنے کے دکھ سے پھر بھی کم ہے۔ بحرحال اپنی موت کو ہماری مجبوری سمجھ کر معاف کردیجئے گا۔آخر ہمیں ریاست بھی تو چلانی ہے۔
مشورے بعد میں دونگی پہلے تو یہ بتائیں کہ جاوید گوندل صاھب پہ کوء پابندی لگانے کی بات کیوں نہیں کرتا۔ اس لءے کہ وہ ایک ھلقے کے پسندیدہ مبصر ہیں۔
اکثر گری ہوئ زبان استعمال کرتے ہیں، حد سے زیادہ تعصبیت پہ مبنی خیالات انکے ہماری نظر سے گذر چکے ہیں۔دروغ گوئ بھی خوب کرتے ہیں ۔۔
درھقیقت مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ وہ بھس میں چنگاری ڈال کر بئ جمالو دور کھڑی کا عملی نمونہ ہیں۔ مگر چونکہ جزاک اللہ گروپ کے سرگرم کارکن ہیں اس لئے انکی طرف ٹیڑھی نظر تو کیا انکے خلاف بات بھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اور وہ سارے لوگ جو عبداللہ کے خلاف پابندی کی بات کرتے ہیں انکی اکثریت وہ ہے جو ایم کیو ایم کو سخت نا پسند کرتی ہے جبکہ عبداللہ کا قصور یہ نظر آتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔ اب چونکہ اس وقت بلاگستان میں اینٹی ایم کیو ایم لوگوں کی اکثریت ہے جسکی اپنی وجوہات ہیں ۔ اور میں انکی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی تو جناب عبداللہ پہ پابندی لگاءو اور جاوید گوندل کو مفتی بناءو جیسے نعرے سامنے آتے رہتے ہیں۔ آپ لوگ جاوید گوندل پہ کیوں فدا رہتے ہیں۔ انکی اخلاقی خوبیوں کی وہ نمایاں مثالیں بتائیے جس پہ انہیں عبداللہ پہ ترجیح دی جائے۔ اور آپ خود نہ بتا پائیں تو انہیں دعوت ہے کہ وہ آکر ثابت کریں کہ ان ان خصوصیات کی بناء پہ میں عبداللہ سے کہیں بہتر ہوں۔
مشورے یہ ہیں۔
نمبر ایک ، اپنے بلاگ کی سیٹنگ ایسی کر لیں کہ جو آپکے پاس مبصر کی حیثیت سے رجسٹر ہو صرف وہی آکے تبصرہ کر سکے۔
نمبر دو، اپنے پسندیدہ مبصرین کی ایک فہرست بنا کر اسی طرح ساتھ لگا دیں جس طرح پسندیدہ بلاگرز کی لگائ ہوئ ہے۔ اسکے بعد بھی کسی میںجذبہ ہو تو آکے تبصرہ کر لے۔
نمبر تین، ماڈریشن لگا دیں، جسکے پسند نہیں آتے ہٹا دیں۔
آخیر میں یہ کہ وہ سارے بلاگ جہاں پہ ہمخیال لوگوں کے علاوہ کوئ تبصرہ نہیں کرتا وہاں امن و امان رہتا ہے۔ جہاں اختلاف ہو گا وہاں ہنگامہ ہوگا۔ اب آپ فیصلہ کر لیں کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتے ہیں یا برداشت کرنا ہے۔
صرف جاوید اور خواہ مخواہ جاپانی کے تبصرے ڈیلیٹ کر دیا کریں ۔ آپ خود فرق محسوس کریں گے۔
ماڈریشن لگا دیں، جسکے پسند نہیں آتے ہٹا دیں۔
آخیر میں یہ کہ وہ سارے بلاگ جہاں پہ ہمخیال لوگوں کے علاوہ کوئ تبصرہ نہیں کرتا وہاں امن و امان رہتا ہے۔ جہاں اختلاف ہو گا وہاں ہنگامہ ہوگا۔ اب آپ فیصلہ کر لیں کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا چاہتے ہیں یا برداشت کرنا ہے۔
ہم مسلمان ہیں لڑیں گے نہیں گالیاں نہیں نکالیں گے تو اور کیا کریں گے۔۔کیونکہ ہم مسلمان جو ہیں اور یہی مسلمانی کا لیبل ہمیں جنت میں لے جائے گا۔۔۔۔۔شاید اسی خام خیالی میں رہتے ہوئے ہم اپنے آپ کو گمراہی میں دھکیل رہے ہیں
آپ کمنٹس کلوز کر دیں۔ تبصرہ نگاری کا آپشن ہی ختم کر دیں۔یہ ممکن ہے ہر بلاگنگ پلیٹ فارم پر۔
جناب آپ نے تو بھیڑوں اور بھیڑیوں کو اکٹھا کر دیا۔۔۔ افسوس
عنقا آنٹی نے مجھے وہ شعر یاد کرا دیا ۔ کیا تھا بولی اماں محمد علی کی؟ خیر میں نے کہیں پڑھا تھا دوسروں کی آنکھ کا تنکا نظر آنا اور اپنی آنکھ کا شہتیر درگزر فرمانا۔
عبداللہ کی ادائیں درج ذیل ہیں۔
آپ ہر بات میں پنجاب گھسیڑ لیتے ہیں۔ شنید ہے اب یہ بیماری صرف اموات تک نہیں آپ پیدائش میں بھی پنجاب لے آتے ہیں۔
آپ گھیا کدو کیسے پکایا جائے جیسی پوسٹ میں بھی کسی نہ کسی ایسی پوسٹ کا لنک دے جاتے ہیں جس میں ٹائ راڈ کھل گیا سترہ بندے مارے گئے جیسی خبر ہوتی ہے۔
آپ ہمیشہ کو بلاگنگ کرتے نظر آتے ہیں اور عموم سگ دم دریدہ کا کردار ادا کرتے ہیں جو بلاگ کی حفاظت کا کام نہایت جانفشانی سے کرتا ہے۔ آپ ہر بلاگ سے دوسرے تمام تبصرہ نگاران پر غراتے نظر آتے ہیں۔
آپ عموما عقل سے زیادتی کر جاتے ہیں وہی عقل جس کی قدروقیمت عنقا آنٹی کو سگ آوارہ کے معاملے نظر نہیں آتی مگر عورتوں اسلام طالبان عمی ڈارلنگ اور مکی ڈارلنگ کی پوسٹس میں نظر آتی ہے۔
آپ تعصب کی بہترین مثال ہیں۔ آپ کو اگر کوئی جواب دے تو اس پر تعصب کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اور ساتھ میں دم کہ ایم کیو ایم مخالف لوگ آپ کو ناپسند کرتے ہیں۔ میرے خیال سے ایم کیو ایم کے حامی لوگ بھی آپ اماں جان کے اس لاڈلے کو پسند نہیں کرتے۔
اگر ان کے بعد بھی کسی کو عبداللہ جان عزیز اور عام بندے میں فرق نظر نہ آئے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرے۔
بچپن میں کھیل کے دوران اکثر لڑائی ہوجاتی تھی، تو کہا کرتے تھے کہ:
لڑائی لڑائی معاف کرو: اللہ کا گھر صاف کرو۔
تو
بھائیو:
لڑائی لڑائی معاف کرو: بلاگستان صاف کرو۔
Leave A Reply