روزنامہ ایکپریس نے لاہور یونیورسٹی کیساتھ ملکر اگلے بجٹ کی تیاری پر سیمینار منعقد کیا جس میں حکومتی، سیاسی اور معاشی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کشمالہ طارق کے شاید برے دن آچکے ہیں۔ انہوں نے حکمرانی رکن ہونے کے باوجود اپنے خیالات کو حقیقت قرار دے کر حکومت کی خوب خبر لی۔
اس مباحثے کا لب لباب یہ تھا کہ حکومت تو قومی ترقی کے گن گا رہی ہے مگر اس کے مخالف سیاستدان اور غیر جانبدار معاشی ماہرین نے حکومت کی بہت ساری باتوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہیں جھوٹا کہتے کہتے رہ گئے۔
اس مذاکرے سے جو پاکستان کے معاشی مستقبل کی تصویر ابھری ہے وہ کوئی اچھی نہیں ہے۔ حکومت تو کہ رہی ہے کہ قومی ترقی کی اوسط پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت قومی ترقی کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر بیان کررہی ہے۔
کشمالہ طارق کی یہ ڈیمانڈ جاندار تھی کہ باقی ترقی یافتہ اقوام کی طرح بجٹ کو قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی میں پیش کیا جائے جبکہ حکومت کہتی ہے کہ فنانس کمیٹی کی جو گزارشات ہیں وہ وزارت خزانہ کو بھیج دے۔ وزارت خزانہ ان گزارشات پر غور کرے گی اور اگر قابل عمل ہوئیں تو انہیں بجٹ میں ضرور شامل کرے گی۔
معاشی ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق تھی کہ حکومت نے مائکروفنانس کے ذریعے لوگوں کو ضروریات زندگی کی چیزوں پر قرضے دے کر ان کا مستقبل دھندلا کردیا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اشیائے ضرورت کی چیزوں کی بجائے لوگوں کو ان کے کاروبار شروع کرنے کیلیے قرض دیتی۔ ہمارے سامنے مشرق وسطیٰ کی واضح مثال ہے جہاں اشیائے ضرورت کے کاروبار کو فروغ دیا گیا مگر بڑے بڑے کارخانے اور یونیورسٹیاں نہیں بنائی گئیں۔ اسی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے لوگ آج تک کسی ایجار میں اپنا حصہ نہیںڈال سکے۔
اکثریت کی یہ بھی رائے تھی کہ 911 کے بعد ڈالر کی ترسیل کی وجہ سے پاکستان کی اکانومی عارضی طور پر بہتر ہوئی ہے اور اس کا فائدہ امیروں کو زیادہ ہوا ہے۔ امیروں نے ڈالروں کو ریئل اسٹیٹ اور سٹاک ایکسچینج میں لگا کر غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔
ہم بھی اس موقع پر کچھ گزارشات پیش کررہے ہیں اور ہوسکتا ہے بہت ساری دوسرے معاشی ماہرین کے خیالات کی کاپی ہی ہوں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان کی ترقی کیساتھ مخلص ہے تو پھر اسے مندرجہ ذیل اقدامات ضرور اٹھانے چاہئیں۔
1۔ تعلیم اور صحت پر قومی بچت کاکم از کم دس فیصد خرچ کیا جائے۔ یہ رقم حکومت غیرترقیاتی اخراجات کو کم کرکے حاصل کرسکتی ہے۔
2۔ لوگوں کو کاروبار اور صنعتیں لگانے کیلیے قرضے دیے جائیں
3. بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلیے ایمرجینسی نافذ کرکے نئے بجلی گھر لگائے جائیں یا پھر ایران سے فوری طور پر بجلی خریدی جائے
4۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کے بقول حکومت بینکنگ سیکٹر میں بیرونی سرمایہ بند کردے تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاکستان پر دوبارہ قبضے کو روکا جاسکے۔
5. نفع بخش اداروں کو نجی تحویل میں نہ دیا جائے اور اگر نج کاری ضرور ہی کرنی ہے تو پھر ان اداروں کو غیرملکیوں کے ہاتھوں نہ بیچا جائے
5. نیب کو دوبارہ فعال بنا کر ناقرض دہندگان سے قومی دولت واپس لی جائے اور نیب کو سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کی بجائے حکومتی ارکان کی سکروٹنی کیلیے مختص کردیا جائے۔
6. رشوت خوری اور ٹیکس چوری کی لعنت پر قابو پانے کیلیے اینٹی کرپشن کے محکمے میں پوری طرح چھان بین کے بعد انتہائی ایماندار اور نیک لوگ بھرتی کیے جائیں تاکہ وہ معاشرے سے کرپشن کم کرکے بجٹ کے خسارے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔
7. حکومتی سربراہوں کے بیرونی دوروں پر حد لگادی جائے اور اس طرح بچ جانے والی رقم لوگوں کی بھلائی کیلیے خرچ کی جائے۔
8. عوامی نمائندوں کو کہا جائے کہ وہ اپنے گوشوارے شخصی بنیادوں کی بجائے خاندانی بنیادوں پر جمع کرائیں۔ انہیں یہ بھی کہا جائے کہ وہ اپنے ذاتی مال کیساتھ ساتھ اپنے کاروبار، زمینوں اور کارخانوں کی تفاصیل بھی پیش کریں جنہیں انہوں نے مختلف حربوں سے اپنے نام کیساتھ منسلک نہیں کیا ہوا۔
9. ہندوستان کیساتھ تعلقات بہتر بنا کر فوج اور دفاعی بجٹ دونوں کو آدھا کردیا جائے۔ ویسے حکومت جس طرح کے اقدامات کررہی ہے چند سالوں میں پاکستان کو فوج رکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
10. دفاعی بجٹ خفیہ نہ رکھا جائے بلکہ اسے اسمبلی میں بحث کیلیے پیش کیا جائے تاکہ قومی نمائندے اس کابھی جائزہ لے سکیں۔
11. پولیس کے محکمے کو نئے سرے سے منظم کرنے کیلیے بجٹ میں رقم مختص کی جائے اور کرپٹ حکام کر نکال کر نیک اور ایماندار پولیس آفیس بھرتی کئے جائیں۔
12. لوگوں کو سستااور فوری انصاف مہیا کرنے کیلیے دفاعی بجٹ میں کمی کے بعد جو رقم بچ جائے اس کا کچھ حصہ عدالتی نظام کی بہتری پر خرچ کیا جائے۔ ججوں کی تعداد میں اضافہ کیاجائے۔ اس مقصد کیلیےجو وزارت بنائی گئ ہے اسے فعال کیا جائے ۔
13. قومی نمائندوں کی تربیت کیلئے رقم مختص کی جائے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ انہیں عوامی خدمت کے کورسز کرائے جائیں تاکہ ان کا اخلاقی معیار بلند ہو اور ان کی کریڈیبلٹی اتنی خراب نہ ہوجائے کہ لوگ انہیں درانی کی بجائے غلط بیانی، وزیر قانون کی بجائے وزیر غیرقانونی اور بگ آرم کہنا چھوڑ دیں۔
14. ٹیکسٹائل کے صنعتی بحران کو حل کرنے کیلیے امریکہ اور یورپ سے مزید کوٹہ حاصل کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں اور سال کے آخر میں عوام کو ان کوششوں کی رپورٹ بھی پیش کی جائے۔
ملک کی معاشی ترقی کیلیے تمام معاشي ماہرین اس بات پر متفق ہیں۔ اگر ٹیکسوں کی وصولی بہتر بنائی جائے، کرپشن ختم کی جائے، تعلیم عام کی جائے، عوام کو طبی سہولتیں مہیا کی جائیں اور توانائی اور ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنایا جائے، تو ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ سب کام وہی کرسکتا ہے جو ذاتی مفاد سے بالاتر عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔ ایسا شخص فی الحال تو موجودہ حکومت میں نظر نہیں آتا۔ اللہ کرے پاکستان کو ایسا رہنما نصیب ہوجائے جو تب تک مخملی بستر پر نہ سوئے جب تک اپنے عوام کی قسمت نہ بدل دے۔
2 users commented in " اگلے قومی بجٹ کی تیاری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں آپ کی تمام تجاویز سے متفق ہوں سوائے نمبر 9 کے ۔ ہا ہا ہا ۔ میرے متفق ہونے سے کیا ہوتا ہے میں تو حکومت کے کھاتہ میں صفر ہوں ۔
آپ نے جتنی تجاویز دی ہیں موجودہ حکومت کی دشمن ہیں ۔ اگر حکومت کو پتہ چل گیا تو آپ پر پتھر کے زمانہ کی طرف دھکیلنے والا شدت پسند اور ہو سکتا ہے دہشتگرد کا الزام بھی لگ جائے ۔
جہاں تک کشمالہ طارق کا تعلق ہے وہ الطاف حسین کی پالیسی پر چلتی ہے ۔ عوام کے سامنے دلیل کے ساتھ حکومت پر تنقید اور بے دلیل حکومت کی تابعداری ۔
آپ کے نکات سے بحیثیت عام آدمی تو میں پوری طرح متفق ہوں مگر حکومت میں موجود میرے خاص آدمی شاید کسی بھی نقطے سے متفق نہ ہوں اور ستم برائے ستم یہ کے بجٹ بنانے والے وہ خاص آدمی ہی ہیں جو ابھی تک ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر سوچنے کے قابل نہیں۔۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر آپ کا بلاگ کسی حکومتی سیانے نے پڑھ لیا تو پھر بھولے سے بھی وہ ایسی کوئی چیز بجٹ میں شامل نہیں کریں گے ۔۔
Leave A Reply