جو بویا ہے وہ کاٹ رہے ہیں
ہم اپنے زخم ہی چاٹ رہے ہیں
حکومت نے تجویز پیش کی ہے کہ بجلی کی کمی کا تدارک ہفتہ میں دو چھٹیاں اور کاروبار رات آٹھ بجے بند کرکے کیا جائے۔ واہ ری قابل حکومت، تیری پھرتیوں کے ہم صدقے۔ اس تجویز کو پڑھ کر ہم حکومت کی عقل پر حیران رہ گئے۔ یہ دنیا میں واحد حکومت ہوگی جو بغیر ایڈوانس پلاننگ کے چل رہی ہے اور دوبارہ اگلے پانچ سال کیلیے منتخب ہونے جارہی ہے۔ بقول اس حکومت کے پچھلی حکومتوں نے ملک کو لوٹا اور اس کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا۔ حکومت کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی کہ سات سال میں یہ بھی پلان نہیں کرسکی کہ مستقبل میں ملک کوبجلی کے بحران سے کیسے بچایا جائے گا۔ سات سال پہلے اگر حکومت نے پانچ سالہ یا دس سالہ مستقبل کی پلاننگ کی تو کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ سات سال بعد ملک میں بجلی کی کھپت کتنی ہوگی اور موجودہ پیداوار اس ڈیمانڈ کو پورا کرسکے گی یا نہیں۔
حکومت نے ہفتے میں دو دن چھٹی کی تجویز صوبوں کو بھیج کر یہ بھی نہیں سوچا کہ اس سے ملک کی پیداواری صلاحيت کتنی متاثر ہوگی۔ رات آتھ بجے مارکیٹیں بند کرکے بزنسز کتنے متاثر ہوں گے اور ہفتہ وار مختلف دنوں میں کارخانوں میں دو چھٹیاں کرکے عوام کے معمولات زندگی کتنے متاثر ہوں گے۔ اچھا ہوتا اگر حکومت ہفتے میں دو دن کی چھٹی کے نقصان کے اعدادوشمار بھی دے دیتی۔ ہم بڑے فخر سے اپنے درآمد کندہ وزیرخزانہ کی بڑائیاں گنواتے نہیں تھکتے تھے مگر سات سال بعد پتہ چلا کہ وزارت خزانہ صرف ٹیکس وصول کرنے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے بندوبست کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی رہی۔
پاکستان کا مزدور جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسا جارہا ہے جب مزید ایک دن کی چھٹي سے اس کی آمدنی کم ہوگی تو وہ بیچارہ تو کہیں کا نہیں رہے گا۔ اسی طرح پاکستان کے دوسرے اداروں کے ملازمین کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔
اگر حکومت موجودہ پالیسیوں پر چلتی رہی اور اس نے توانائی کے بحران کو جسٹس افتخار جیسے بحرانوں کی نظر کردیا تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے جب ہفتے میں دودن کام ہوا کرے گا اور پانچ دن چھٹی۔ اس وقت ہوسکتا ہے بجلی صرف اسلام آباد کیلیے ہی رہ جائے اور باقی پتھر کے زمانے کی طرف لوٹا دیا جائے جس کا ذکر 911 کے بعد امریکی سیکریٹری نے ہمارے جنرل صدر مشرف کیساتھ کیا تھا۔ ابھی تو گاؤں گاؤں بجلی پہنچانے کا اعلان ہورہا تھا اور کہا جارہا تھا کہ کہ ہم ہر گھر میں پینے کا پانی اور بجلی پہنچا دیں گے۔ پھر کیا ہوا کہ حکومت نے افغان پالیسی کی طرح ایک اور یوٹرن لے لیا اور بجلی کے بحران سے ملک کو دوچار کردیا۔ اس بحران نے بھٹو دور کی آٹے، گھی اور چینی کی راشن بندی کی یاد تازہ کردی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ایک دن ہمیں بجلی بھی راشن ڈپو سے لینی پڑے۔
سنا ہے اس بجلی کے بحران نے جنریٹر کمپنیوں کا بزنس عروج پر پہنچا دیا ہے اور حکومتی عہدیدار اس سے کافی مال بنا رہے ہیں۔ وہی کمپنیاں جو پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی ضامن ہیں، جنریٹر بیچ رہی ہیں۔ کہیں یہ بجلی کا بحران کسی سازش کا نتیجہ تو نہیں، جو جنریٹر بیچنے والوں کی ملی بھگت سے ہورہی ہو۔ جس دن جنریٹر کمپنی اپنا مال بیچ لے گی بجلی کا بحران ختم کردیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح کی ایک سازش موٹر سائیکل سواروں کیلیے ہیلمٹ کی پابندی کی بھی ہوچکی ہے۔ جونہی ہیلمٹ بیچنے والی کمپنی کے ہیلمٹ بک گئے ہیلمٹ کی پابندی بھی نرم پڑگئ۔
جب جمعے کی چھٹي ہوا کرتی تھی تو یہ واویلہ مچایا گیا کہ اس طرح پاکستان کے بیرونی دنیا کیساتھ تجارت میں تین دن ضائع ہوجاتے ہیں کیونکہ یورپ میں ہفتہ اتوار کو چھٹي ہوتی ہے۔ پاکستان کی بیرونی تجارت جو کل کاروباری حجم کا دس فیصد بھی نہیں ہوگی کو پاکستانی مسلمانوں کی جمعہ کی چھٹی سے زیادہ اہم سمجھا گیا اور مسلمانوں کے ملک میں عیسائیوں کی عبادت کے دن یعنی اتوار کو ہفتہ وار چھٹی کردی گئ۔ اب بھی جب ہفتہ میں دو چھٹیوں کی تجویز زیر غور آئی ہے تو یہ دو دن ہفتہ اور اتوار ہی چنے گئے ہیں تاکہ اپنے آقاؤں کی نقالی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ حکومت اگر چاہے تو چھٹی جمعہ اور ہفتہ کی بھی کرسکتی ہے۔ مگر نہیں ہم اپنےملک میں وہ کام کبھی مجبوری کی حالت میں بھی نہیں کریں گے جن سے ہمارے دین اسلام کو فائدہ پہنچے۔
اے حکمرانو یہ ملک ہندوؤں سے اسلیے الگ کرکے بنایا گیا تھا تاکہ مسلمان اپنی مرضی کی زندگی جی سکیں۔ آزادی کے بعد بھی اگر دوسروں کی تقلید کرنی تھی تو پھر الگ ہونے کا کیا فائدہ ہوا۔ یاد رکھیں اسلام کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی کوششیں جتنی مرضی کرلو تم کامیاب نہیں ہوگے۔ یہی اللہ کا وعدہ ہے۔ اس کو مٹانے والے مٹ جائیں گے مگر نبی صلعم کا دین زندہ رہے گا۔
اب بھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر بجلی کے بحران کا حل تلاش کرے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے محلات اور دفتروں میں بجلی کا استعمال کم کرے۔ اس کے بعد ایران اور بھارت سے بجلی خریدنے کی جو تجویز سامنے آئی تھی اس پر بات چیت آگے بڑھائے اور ان سے بجلی خریدے۔
یہ تو عقل کے اندھے کو بھی معلوم ہے کہ معیشت کی ترقی کا دارومدار توانائی پر ہوتا ہے۔ اگر بجلی اور گیس وافر مقدار میں مہیا نہیں کی جائے گی تو پھر نہ کارخانے چل سکیں گے اور نہ مال کی ترسیل ایک جگہ سے دوسرے جگہ ہوسکے گی۔ بجلی نہیں ہوگی تو ٹیوب ویل نہیں چلیں گے ، ٹیوب ویل نہیں چلیں گے تو کسان فصل کیسے پیدا کریں گے۔ بجلی کی معطلی سے کارخانے متاثر ہوں گے، سکول کالج اور یونیورسٹیاں متاثر ہوں گی بلکہ سارا نظام زندگی متاثر ہوگا۔
ہم تو سوچ رہے تھے کہ حکومت الیکشن والے سال میں عوامی بجٹ پیش کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوشس کرے گی۔ ایک بحران کے بعد دوسرے بحران سے تو یہی لگ رہا ہے کہ اس سال الیکشن نہیں ہوں گے اور نیم جمہوری ڈکٹیٹرشپ ایک مکمل ڈکٹیٹرشپ میں ڈھل جائے گی۔
3 users commented in " جو بویا ہے وہ کاٹ رہے ہیں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackلفظ لفظ سچائی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ خوف ہے تو اس چیز کا کہ نصف صدی سے نہ معلوم کیا کیا بویاگیا ہے خدا جانے اس ملک کا کیا ہوگا جہاں ہر آنے والا دن ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف لے جاتا ہے اور ارباب اقتدار دہشت گردی کے خلاف جنگ، عرب اسرائیل تعلقات اور امریکی جنگی جنون میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ اپنے گھر کا چراغ گل ہونے کو ہے۔۔
بجلی کے بعد ایک اور بڑا بحران آنے والا ہے جو بجلی سے زیادہ سگین ہو گا ۔ پانی کا بحران ۔ اسلام آباد مین ان دنوں حالت یہ ہے کہ میں ایک دن چھوڑ کے ایک دن اپنی کار میں تین کولر لے جا کر ٹیوب ویل سے پینے کیلئے پانی لاتا ہوں ۔ اس پر موجودہ حکومت نے جن مراکز میں چار سے زیادہ منزلیں بنانے کی اجازت تھی وہاں دس منزلوں کی اجازت دے دی ہے ۔ اور اس کے علاوہ ساٹھ ستر منزلہ عمارتوں کے کیلئے گرین ایریا غیر ملکی کمپنیوں کو بیچ دیا ہے ۔ اور نیا جی ایچ کیو بھی اسلام آباد مین مع فوجی افسروں کی رہائش کے بنایا جا رہا ہے ۔ پانچ سال بعد ہمیں پانی بھی نہیں ملے گا
ایک تو آپ لوگ پریشان بہت جلدی ہوتے ہو-
بھای حکومت کا ایک ایک وزیر فل اےسی میں باہر سے منگوایا ہوا پانی ٹھنڈا کروا کر پی پی کر عوام کے با رے میں ھی سوچ رھا ہے-
Leave A Reply