ہماری ایک پوسٹ کراچی کے فسادات کا ذمہ دار کون؟ کے جواب میں ہمارے ایک قاری درد آشنا جب الزام تراشیاں سن سن کر تنگ آگئے تو انہوں نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا۔
“سب سے صحیح بات اظہر الحق صاحب نے کی ہے ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہم ہیںاور صرف ہم۔ یہ ہم ہی ہیںجو اپنے ووٹ بیچ کر ایسے لوگوںکو اقتدار دلواتے ہیں جو خود بکے ہوئے ہیں، اپنے نفس کے ہاتھوں۔۔۔
ان سب خامیوںکا تو ہمیںایک عرصہ سے پتا ہے۔ ظلم کی اس چکی میںتو سب پس رہے ہیں، لیکن اس کے حل کی کوئی بات نہیںکرتا۔۔۔ دیکھیںجب اپنا گھر جل رہا ہو تو آپ اس بات پر بحث نہیںکریں گے کہ آگ کیسے لگی، بلکہ اُس وقت صرف گھر کو بچانے کی فکر کریں گے۔
میںسمجھتا ہوں ہمیںایک انقلاب کی ضرورت ہےجو نچلی سطح سے لایا جانا چاہئے۔ اس سلسلہ میںیہی درخواست ہے کہ اس سلسلے میںبھی ایک ٹاپک شروع کیا جائے کہ ان تمام مسائل کا کیا حل ہے اور ان پر قابو پانے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں۔”
ہم نے درد آشنا کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس موضوع کو منتخب کیا ہے اور بحث کیلیے ابتدا کرتے ہیں۔
ہمارے قارئین کی اکثریت جو پڑھی لکھی اور باشعور ہے اس بات پر متفق ہے کہ تمام خرابیوں کی جڑ ہم خود ہیں اور ہمیں سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ لیکن یہ احتساب ہم تب ہی کرسکیں گے جب ہم مان جائیں گے کہ خرابی ہمارے اندر ہے۔
پہلے تو ہم یہی سمجھتے رہے کہ ہم اپنی خرابیوں سے آگاہ نہیں ہیں مگر آج اس پوسٹ سے پہلے جب ہم نے اردو بلاگنگ کے گورو ذکریا کے بلاگ پر ایک سروے کا نتیجہ دیکھا تو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ اس سروے کو ورلڈ پبلک اوپنین ڈاٹ اورگ کی سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے جس ميں چند اسلامی ملکوں بشمول پاکستان کے شہریوں سے امریکہ کی پالیسی، عام پبلک پر حملے اور القائدہ کے بارے میں رائے لی گئ ہے۔ اگر آپ اس سروے کا مطالعہ کریں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ پاکستانیوں کی اکثریت نہ صرف موجودہ مسائل سے آگاہ ہے بلکہ انہیں ان کا حل بھی معلوم ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس بارے میں اتفاق کرتی ہے کہ امریکہ کا دنیا پر کنٹرول ہے، مسلم دنیا کو کمزور اور ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا امریکہ کی پالیسی ہے۔ اکثریت کا یہ بھی خیال ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مسلم دنیا کو کمزور کرنے کیلیے ہے۔ پاکستانی یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ تمام مسلم ممالک سے اپنی افواج واپس بلا لے۔ پاکستانیوں کی اکثریت خودکش حملوں کے خلاف ہے حتی کہ امریکہ کیخلاف بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ اکثریت کا یہ بھی خیال ہے کہ 911 کے پیچھے القائدہ نہیں تھا۔
اس سروے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ مغربی ثقافت کو اپنے سے دور رکھا جائے، جمہوریت ہی سب سے بہتر طریقہ ہے حکومت کرنے کا، 79 فیصد کا خیال ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت نافذ ہونی چاہیے اور 74 فیصد اس بات پر راضی ہے کہ تمام مسلم ممالک کو ملا کر خلافت قائم کی جائے۔
اب اگر ہم اس سروے کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پاکستانیوں کو معلوم ہےکہ ان کے مسائل کی وجہ ان میں نااتفاقی، غیرجمہوری حکومت اور اسلام سے دوری ہے۔ مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم پاکستانی پتہ نہیں کیوں ان وجوہات کو دور کرنے کی جستجو نہیں کررہے۔ ہوسکتاہے ہم میں ابھی تک جرات اور حوصلے کا فقدان ہو اور ہم فوجی ڈکٹیٹرشپ کیخلاف اٹھنا اپنی جان کیلیے خطرہ سمجھتے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے ابھی تک ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہوں اور کسی نیک اور مخلص لیڈر کی آمد کے انتظار میں ہوں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح خود کچھ نہ کرنا چاہتے ہوں اور سب کچھ خدا پر چھوڑ رکھا ہو۔
کراچی کے موجودہ فسادات سے پہلے ہم اس غلط فہمی میں بھی رہے کہ تعلیم انسانی عقل و شعور کو اجاگر کرتی ہے اور اس طرح انسان سمجھدار ہوجاتا ہے مگر کراچی کے پڑھے لکھے لوگوں نے بارہ مئ کو جو تماشا دنیا کو دکھایا اس نے ہمیں دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیا۔
تعلیم کی افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے اور تعلیم سے مراد یہ نہیں کہ انسان کے پاس بی اے ایم اے کی ڈگری ہی ہو، تعلیم سے مراد اچھے برے کی تمیز اور نیکی بدی کی پہچان ہے۔ آپ کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں اور کسی بھی انپڑھ آدمی سے سوال کرکے دیکھ لیں آپ کو آپ کے سوال کا وہی جواب ملے گا جو ایک پڑھا لکھا آدمی دے گا۔ مثلاً آپ اگر مزارع سے پوچھیں گے کہ اپنے حقوق کی جنگ کیوں نہیں لڑتا تو وہ یہی جواب دے گا کہ اس کے حالات اجازت نہیں دیتے۔ اگر اسے بچوں کی تعلیم کے بارے میں پوچھیں گے تو وہ تعلیم کے حق میں دلائل دے گا مگر اپنی مجبوریوں کو رکاوٹ بتائے گا۔ ہر مزدور کو معلوم ہوتا ہے کہ ہاری اس کی تنخواہ اس کی محنت سے کم دے رہا ہے مگر اس میں اپنا حق مانگنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یہ کم ہمتی ہر جونیئر میں اپنے سینئر کے سامنے پائی جاتی ہے۔ مزدور کارخانہ دار کے آگے، نوکر مالک کے آگے اور کلرک صاحب کے آگے اسی طرح بے بس ہے جس طرح ہماری فوج امریکہ کے آگے۔
ہم بات وہیں پر ختم کرتے ہیں جہاں سے ہم نے شروع کی تھی یعنی اپنے سارے مسائل کے ہم خود ذمہ دار ہیں اور اپنی کم ہمتی کی وجہ سے انقلابی اقدامات اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ یہ ہمت یا تو کوئی نیک اور صالح لیڈر ہم میں پیدا کرسکتا ہے یا پھر آپس میں اتحاد کرکے جاگیرداروں، وڈیروں اور جنرلوں کی اجارہ داری کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ جب تک ہم “سب سے پہلے میں” کی رٹ نہیں چھوڑیں گے ہم بیکار ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟
2 users commented in " موجودہ مسائل کا حل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ بات بالکل درست ہے کہ خرابیوں کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہی ہیں کیونکہ جن ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے اتنی تگ و دو کی گئی وہ بھی آخر کار ہم میں ہی سے ہیں۔ اب جب کہ ہم اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں ہم نے مسائل کی نہ صرف یہ کے نشاندہی کرلی ہے بلکہ انکے وجوہات پر بھی خاطر خواہ بحث ہو چکی ہے جن میں سطحی چیزوں پر اختلاف پایا جاتا ہے لیکن بنیادی چیزوں سے تمام لوگ متفق نظر آتے ہیں اور میں پوری طرح تائید کرتا ہوں آپ کی کے تمام بلاگرز مل کر پرابلم آئیدینڈیفیکیشن کے بجائے سلوشن اورینیڈ بلاگ کا اہتمام کریں۔ کچھ چیزیں جو میرے ذہن میں ہیں وہ اس طرح ہیں کہ
1۔ ہم سب سسٹم سے نالاں ہیں کیونکہ بلاگرز مل کر ایک سسٹم وضع کریں جو سب کے خیال میں پاکستان کے لیے بہترین ہو۔
2۔ ہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور لیڈران سے نالاں ہیں کیونکہ ہم پاکستان کے لیے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے خاکے وضع کریں۔
3۔ تعلیمی نظام کی ہم نے ایسی کی تیسی کردی کیونکہ اب ایک بہترین تعلیمی نظام وضع کرنے کے لیے آراء اکھٹی کرنے کا کام کیا جائے۔
4۔ کیونکہ اس بلاگ پر الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے بہترین امیدواروں کا چناؤ کیا جائے تاکہ کسی طرح کچھ بہتر لوگ آگے آئیں اور موجودہ سسٹم کو ہی اسکی اصل روح کے ساتھ بحال کر سکیں۔
موجودہ نسل کا خیال ہے کہ ہمارے بڑوں نے اس ملک کی نظریاتی اور سیاسی اساس تباہ کردی ہے تو کیا خیال ہے کیا ہم ایسے کا ایسا ہی آگے منتقل کر دیں گیں؟ یا پھر کچھ اس بارے میں ہی کم از کم لٹریچر کی حد تک ہو جائے تاکہ کل کا نوجوان یہ نہ کہے کہ ہم مسائل اجاگر کرنے میں ہی لگے رہے۔
سب سے پہلے ایک کام کرنا ہے ۔ اس کے بغیر سب بے کارہے۔
چوکی داروںکو چوکی پر واپس بھیجو
فوج کو بیرکوں تک محدود کرو- الطاف، مشرف، شجاعت، پرویز الہی پر انسداد دھشت گردی کی عدالت میں قتل کے مقدمہ چلاکر کر لالوکھیت کے پل پر پھانسی دو۔
Leave A Reply