پہلے خبر یہ چھپی کہ عمران خان کی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا اور امریکی سفیر سے ملاقات ہوئی ہے۔ پھر اس خبر کی تردید فوج اور تحریک انصاف کے ترجمانوں نے کر دی۔ اس کے بعد امریکی سفیر نے ایک تقریب میں اس ملاقات کی تصدیق کر دی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ خبر مشترکہ ملاقات کی تھی اور امریکی سفیر کی تصدیق علیحدہ علیحدہ ملاقات کی ہے۔ اس طرح تو پھر دونوں ہی سچے ہوئے۔ مگر اچھا ہوتا اگر فوج اور تحریک انصاف ان ملاقاتوں کی ایسے ہی تصدیق کر دیتے جیسے امریکی سفیر کو کرنی پڑی۔
پتہ نہیں ایسی باتوں میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے جس کا بھانڈا دوسرا فریق پھوڑ سکتا ہو۔ آج کی سب سے بڑی خبر امریکی جنرل کو لکھے گئے خط کو ہی لے لیجئے۔ لکھوانے والوں نے اس کی تردید کی مگر خط موصول کرنے والے نے اس جھوٹ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
کچھ اشارے ایسے ہیں جن سے لگتا ہے پی پی پی کے دن گنے جا چکے ہیں اور نواز شریف پر عمران خان کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ آئی ایم ایف اور امریکی سفیر کا صاف اور ایماندار حکومت کی طرف اشارہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں قوتیں عمران کو آزمانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جو قوتیں عمران خان کو برسراقتدار لائیں گی وہ ان کے مفادات کے خلاف چل کر پاکستان کو کرپشن سے کیسے پاک کریں گے؟ وہ کیسے متحدہ موومنٹ کے بغیر حکومت بنائیں گے؟ وہ کیسے پاکستان کو قرضوں سے نجات دلائیں گے؟ وہ کیسے فوج کے دفاعی بجٹ میں کمی کریں گے؟ وہ کیسے مہنگائی ختم کریں گے؟ وہ کیسے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ پر قابو پائیں گے؟ یہ سارے کام ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہیں۔ ان کی انجام دہی کیلیے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر حکمرانی کرنی ہو گی۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ موقع ملنے پر کیا عمران خان ان مگرمچھوں کا مقابلہ کر سکیں گے جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑِی رکاوٹ ہیں۔
6 users commented in " فوج، عمران اور امریکہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackميں عمران خان کو شروع دن سے چندہ ديتا آ رہا ہوں اُس کے ٹرسٹ کيلئے ۔ مگر اس کا اندازِ سياست مجھے اچھا نہيں لگا ۔ سب چور کہنا آسان ہے ۔ اس طرح تو ميں کہوں سب چور ہيں تو عمران خان بھی چور ہوا ۔ دوسرے اگر مياں رشيد اور عمر چيمہ ہی عمران کے ترجمان رہے تو عمران گيا کام سے
کل ہی پی ٹی آئی کے سیکریٹری نے پروگرام کیپیٹل ٹالک میں ملاقات کے بارے میں کہا تھا کہ ملاقات ایک تقریب میں ہوئی ہے عمران اور منٹر کی۔ اس سے زیادہ کیسے تردید یا تصدیق کر سکتے ہیں۔
عجیب منطق ہے کہ چور کو چور نہ کہو۔ ایسا کریں پھر زرداری کہ ساتھ حضرت زرداری رحمتہ اللہ اور نواز شریف کو امیر المومنین اور الطاف بھائی کو قبلہ بڑے پیر صاحب کہنا شروع کردیں ۔
فارغ صاحب جاوید چوہدری کے پروگرام کل تک میں پی ٹی آئی کے نمائندے نے واضح طور پر کہا کہ یہ ملاقات نہیں ہوئی۔
اصل میں ہر ایک دوسرے کو چور کو کہتا ہے اور کہنا بھی آسان ہے۔ اور چوری ہو بھی رہی ہے مگر کیا صرف سیاستدان ہی یہ کام کررہے ہیں فوج نہیں۔
کیا پتہ اگر ان کی چوری پتہ چل جائے تو ہم کہیں کہ ملک کو تو یہ لوگ کھا رہے ہیں۔
عمران خان نے فوج کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیا ہے اور ایم کیو ایم کو بھی۔ امریکی سفیر کو بھی کچھ کچھ اس قسم کی یقین دھانی کرائی گئی ہوگی۔
تو کیا سارے ہی تھیلی کے چٹے بٹے (؟) نہیں ہیں۔
کافی پرانی پوسٹ ہو گئی ہے لیکن ریکارڈ کی درستی کے لئے کہ شازل اگر سوال یہ تھا کہ عمران منٹر ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے یا نہیں تو جواب نہیں-
یہ سب ضمنی باتیں ہیں اگر آپ اپنے ضمیر پر ہاتھ رکھ کر پوچہیں کہ عمران بہتر یا زرداری نواز الطاف پھر جو آپ کا ضمیر کہے اس کو ووٹدے دیں۔
میں تو کہوں گا اور ہر جگہ کہتا ہوں کہ “سب ننگے ہیں اس حمام میں“ کوئی بھی خیر خوا نہیں نہ پاکتان کا اور نہ ہی غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کا۔ سب اپنے جیبوں کو بھرنے کے لئے لگے ہوئے ہیں بقول کسے“ عورت کو خیر نہیں نہ مکے میں اور نہ سسرال میں“۔ غریب عوام کا ان میں کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ جب تک یہ کوٹے سکے ، جانب دار عادلیہ اور یہ اسٹبلشمنٹ رہے گی کوئی تبدیلی نہیں ائے گی۔ ان سے توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کا مصداق ہے۔
Leave A Reply