اس سے پہلے بھی ہم بابائے پاکستانی ایٹم بم اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر یہاں اور یہاں پر کالم لکھنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور آج جب ہمارا میڈیا پاکستان کے 28 مئی کے تاریخی واقعے پر خاموش ہے ہم نے بھی اپنے دوسرے بہت سے کالم نگاروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خان صاحب کو ایک بار پھرخراج تحسین پیش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، انڈیا نے سب سے پہلے ایٹمی دھماکہ 18 مئ 1974 کو کیا جس پر عالمی دنیا خاموش رہی، پھر انڈیا کو نہ جانے کیا سوجھی اس نے11 مئ 1998 کو دوبارہ ایک نہیں بلکہ کئ دھماکے کردیے۔ اس کے جواب میں پاکستان پر انڈیا کے دھماکوں کا جواب دینے کا دونوں طرف سے اتنا دباؤ پڑا کہ اسے دھماکہ کرنے کیلیے پورے سترہ دن لگ گئے۔ مخالفین نے پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی اور حامیوں نے نواز شریف کو دھماکہ کرنے پر مسلسل دباؤ میں رکھا۔ آخرکار نواز شریف کو اپنی سیاسی پوزیشن بحال رکھنے کیلیے اپنے عوام کی خاطر بیرونی دنیا کے دباؤ کو خاطرمیں نہ لاتے ہوئے آج کے دن ایٹمی دھماکہ کرکے انڈیا کو یہ باور کرانا پڑا کہ وہ مستقبل میں پاکستان کو ڈرانے سے پہلے سو بار سوچے۔ اس تاریخی لمحے کو پی ٹی کی نیوز میں یہاں یو ٹیوب پر کسی نے محفوظ کردیا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو بھی اسرائیل کی طرح اپنے ایٹمی پروگرام کو خفیہ رکھ کر عالمی مراعات سے مستفید ہوتے رہنا چاہیے تھا مگر اس کے مقابلے میں یہ دلیل زیادہ مضبوط ہے کہ انڈیا کی طاقت کا جواب دینا ضروری تھا تاکہ وہ پاکستان پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔
آج کے دن کو اگر یوم تکبیر کی بجائے یوم قدیر کا نام دیاجائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس طرح ہم اس شخص کا نام تاریخ میں ہرسال روشن کرتے رہیں گے جس کی وجہ سے چھ سات سال پہلے ہندوستان نے ہماری سرحدوں پر فوجیں تو اکٹھی کردیں مگر اسے حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری موجودہ حکومت نے اس دن کو قومی پیمانے پر منانے سے اس لیے گریز کیا ہے کہ ایک تو یہ اس کے مخالف نواز شریف کا کارنامہ تھا اور دوسرے پاکستانی عوام کے دلوں میں محسن پاکستان کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے روشن ابواب کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔ میڈیا کو چاہیے تھا کہ جس طرح ویلنٹائن ڈے اور اس طرح کی دوسری قباحتوں پر سارا دن وقف کردیتے ہیں اور ذمیمے کے ضمیمے شائع کرکے اخبارات کے صفحات کالے کردیتے ہیں، اس دن کو بھی پاکستان کی پرائڈ کیلیے وقف کر دینا چاہیے تھا۔
خان صاحب پہلے شخص نہیں جن کے اچھے کام کا صلہ ان کی کردار کشی کرکے قید میں ڈال کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ہم فاتح اسلام خالد بن ولید اور فاتح سندھ محمد بن قاسم کے ساتھ بھی یہی سلوک کرچکے ہیں۔
ہم تو اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر آج کے دور میں انڈیا ایٹمی دھماکہ کرتا تو کیا ہماری موجودہ حکومت عالمی دباؤ کو بالائے طاق رکھ کر ایٹمی دھماکہ کرتی یا نہیں؟ ہمیں تو اس کی امید اسلیے نہیں ہے کہ بقول عبدالقادر حسن “ہمارا ایک بدبخت سفیر جو جرنیل رہا ہے کہتا ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ہیرو نہ ہوتا، تو ہم اسے سب سے اونچے درخت پر لٹکا دیتے” اوراپنا اقتدار محفوظ رکھنے کیلیے اپنے آقاؤں کو خان صاحب کی لاش کی شکل میں ایک اور نذرانہ پیش کرتے۔
10 users commented in " یوم تکبیر ہے دراصل یوم قدیر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackالسلام علیکم محترم۔
اوپر ایٹمی دھماکوں کی تاریخ صحیح کر لیجیے۔ 11 می 1988 نہیں بلکہ 11 می 1998۔
ابو حلیمہ صاحب،
شکریہ
محترم ہم مُسلمان تو ہيں ليکن نا جانے کيوں ايک احسان فراموش قوم بھی ہيں اور اپنے مُحسنوں کے احسانوں کا بدلہ ہميشہ اُن کو قيد ميں ڈال کر دينا ہماری پُرانی روايات ميں شامل ہے سو کيا ہُوا جو ہم نے آج کے دن کو فراموش کر ديا ہميں اس بات کی بھی تو عادت ڈالنی چاہيۓ کہ اگر کسی نے کُچھ کيا ہمارے لۓ تو کيا ہُوا ؟جواب ميں ہم نے بھی تو اُنہيں جو ديا وہ کُچھ کم نہيں اب وہ نظر بندی کی صُورت ميں ہو يا بيماری کی حالت ميں کسمپُرسی کی لاچاری ،کيا ہُوا جو پڑوس کے مُلک ميں ايسے ہی کارنامے پر صدارت تفويض کر دی گئ اب کوئ ضروری تو نہيں کہ ہم ہر ايک کو اُس کی خواہشات کے مُطابق عطا کر ديں بات ہے اپنے اپنے ظرف کی ليکن کتنے دُکھ کی بات ہے کہ ہم جو کبھی يہ کہا کرتے تھے کہ
اب يہ نا کہيں گے اہل چمن ہم دن ہی منايا کرتے ہيں
جبکہ اب ہم دن بھی نہيں مناتے بلکہ ذاتي دُشمنيوں ميں اتنے آگے جا چُکے ہيں کہ قومی سطح پر ہُوئ باتوں کو بھی اپنی ذات کی روشنی ميں ديکھنے کے عادی ہو گۓ ہيں اللہ ہی رحم کرے ہماري حالت پر
دعاگو
شاہدہ اکرم
ڈاکٹر قدیر تو چیز ہی کیا ہے ۔ اگر قاید اعظم بھی ہوتے تو فوج انہیں اپنے اقتدار بجانے کے لیے ٹکٹکی پر لگاتی۔
پاکستانی قوم نے اپنے محسنوں کے ساتھ کیا کیا یہ دیکھ کر اب کسی میں اس بے حس قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ باقی نہیں رہی۔ نہ ہی اب کبھی کوئی بھی قوم کے لیے کچھ کرنے کا سوچے گا۔ جب تک پاکستانی قوم کی سوچ نہیں بدلے گی تب تک نہ ان کے سر سے خود غرض حکمران ٹلیں گے اور نہ ہی کوئی پاکستانی ملک کے لیے کچھ کرے گا؟
اس بات سے یاد آیا، پاکستان کے ایک بڑے محسن۔ الطاف حسین کی بیگم گھر چھوڑ کر چلی گی ہیں، کچھ پتا ہے آپ کو اس بارے میں؟ سنا ہے کہ انہوں نے اپنے سسر کو گھر میں نظر بند کروا دیا اس چکر میں۔ کیا بات ھے قاید کی!
کسی فرد یا قوم کی عظمت کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے۔ فوجی قیادت اپنے امریکی آقاؤں کیساتھ مل کر ڈاکٹرصاحب کی جتنی بھی کردار کشی کر لیں، تاریخ انہیں ایک عظیم شخص کے طور پر یاد رکھے گی۔ بحیثیت قوم ہماری تاریخ کوفہ والوں کے زمرے میں لکھی جائیگی۔
افضل بھائی، میرے ناقص علم کے مطابق لفظ “ضمیمہ” ہے نہ کہ “زمیمہ”۔ برائے مہربانی کنفرم کر لیں۔ شکریہ
ساجد صاحب
ہمیںبہت خوشی ہوتی ہے جب کوئی مہربان ہماری تحریر کو غور سے پڑھ کر ہماری کسی غلطی کی درستگی کرتا ہے۔ آپ کی اس نوازش کا شکریہ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو ایٹم بم بنانے پر ہم دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں
اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو صحت تندرست اور پاکستان کے لئے مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثما مین
آفاق بھائ کو راہا کرو وقت کے ھاتھوںنا چلو۔آفاق ہم تیرے ساتھ ھیں۔ایم کیو ایم۔آفاق گروپ۔ملیر سیکٹر
ek waqt aye ga jab sab pachtain gay jab mqm altaf walay oun k gheron m jain gay phir pata lagay ga k afaq sucha tha h our hamesha rahay ga ameen.
Leave A Reply