ہمارا یہ یقین رہا ہے کہ آج کے وڈیرے جاگیردار صرف انگریزوں کی خدمات کے بدلے میں زمینوں کے مالک بنے۔ آج کالم نگار عباس اطہر نے اپنے کالم کنکریاں میں انکشاف کیا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا نے انگریزوں کیساتھ ملکر ان تین سو باغیوں کو ہلاک کیا جو خود کو تحریک آزادی کے مجاہدین کہتے تھے۔ ان کے خاندان نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ جنگ آزادی کے ہیرو احمد خان کھرل کو شہید کرنے پر شاہ محمود قریشی کے خاندان کو وہ انعامات دیے گئے جن کی وجہ سے یہ آج جاگیردار ہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے پاس اگر ان الزامات کے جوابات ہیں تو وہ کسی ٹاک شو میں ضرور پیش کریں۔
10 users commented in " شاہ محمود قریشی کے آبا واجداد کے کارنامے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackیہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے خالد مسعود خان روزنامہ جنگ میں ان سجادہ نشینوں کی اچھی خاصی عزت افزائی کر چکے ہیں۔
اصل سوال جو پوچھا جانا چاہئے کہ کیا عباس اطہر کو شاہ محمود قریشی کے آبا و اجداد کے کارناموں کا اب علم ہوا؟ کیا اسے محض اتفاق ہی سمجھا جائے کہ عباس اطہر کو یہ سب باتیں اس وقت یاد آئیں جب شاہ محمود قریشی ان کے کیمپ کو چھوڑ چکے تھے؟
پاکستان میں ہر شخص کو سچ بولنے کا دورہ اس وقت پڑتا ہے جب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
عباس اطہر کو آخر نمک کا حق ادا کرنا تو ہے ہی۔
بالکل جب تک شاہ محمود پیپلز پارٹی میں تھے تو عباس اطہر کے نزدیک پارسا، جیسے ہی نکلے شیطان۔
کالم نگار کو یہ بات اس وقت یاد کیوں نہیں آئی جب شاہ صاحب اقتدار میں تھے؟
جی سر جی
پاکستان کی سیاست میں اکثریت ایسی هی هے
جو نهیں هیں وه
ایسے بننے کی کوششوں میں هیں
پرانے انگریز ناں سہی
نئے امریکی صاحب بهادر گھاس تو ڈالیں
یه لوگ بلوچستان ، وزیرستان یا سارا پاکستان میں کهیں بھی ان کے مفادات کے لیے بندے پھڑکا سکتے هیں
جس طرح قریشی صاحب کے آباء نے کیا تھا
پنجاب کا ایک گاؤں جو سرگودے کی تحصل بھلوال میں واقع ہے ، جهاں قریشیوں کی ابادی پرانوں سے هے
وهان لوگ ان کو ابو جهل کی اولاد کهتے هیں
جس کو صدیاں گزرنے پر قریشیوں نے مذاق کا رنگ دے دیا هے که
که لوگ مذاق میں کهتے هیں
اب مجھے یاد نهیں که
مصنف کا نام کیا تھا
اس کتاب گے متعلق بی بی سی پر تبصره بھی شائع هوا تھا
که اس کتاب کے قریشی مصنف نے خود اعتراف کیا تھا که
قریشی تو هیں لیکن هم اسلام پھلانے کے لیے برصغیر میں نهیں آئے تھے
بلکه میرے اباء کا تعلق “اُن ” سے تھا جن کو ابو جهل کہتے هیں
Allah hum ko kisse per alzam nahi katana charge
10جون 1857 کو ملتان چھاونی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہے میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو بمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کرکے تہہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی تقریبا بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاونی کے درمیان واقع پل شوالہ پر دربار بہا الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی ہمارے موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا تھا۔ کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔ جلالپور پیر والہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔
مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کو رنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کو رنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال ، ہراج ، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا ۔ مہر شاہ آف حویلی کو رنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔ اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیرسالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور آٹھ چاہات جن کی سالانہ جمع ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔ مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔
حویلی کو رنگا کے معرکے میں بظاہر سارے مجاہدین مارے گئے مگر علاقے میں آزادی کی شمع روشن کر گئے۔ حویلی کو رنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کو رنگا، قتال پور سے لیکر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصا دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی جانگلیوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی ۔ جانگلی علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گو گیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے ۔
مورخہ 16ستمبر 1857 کو رات گیارہ بجے سرفراز کھرل نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال بمقام گوگیرہ کو احمد خان کھرل کی مخبری کی مورخہ اکیس ستمبر 1857کو راوی کے کنارے ”دلے دی ڈل“ میں اسی سال احمد خان کھرل پر جب حملہ ہوا تو وہ عصر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ اس حملے میں انگریزی فوج کے ہمراہ مخدوموں ، سیدوں ، سجادہ نشینوں اور دیوانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جس میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی دربار بہا الدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی ، دربار فرید الدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن ، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخادیم وسجادہ نشین شامل تھے۔ احمد خان کھرل اور سارنگ شہید ہو ئے ۔ انگریز احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے ۔ احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو پیوند خاک کرنے کے بعد آگ لگا دی گئی ۔ فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ تمام مال مویشی ضبط کر لیے گئے دیگر سرداروں کو سزا کے طور پر بعبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھجوادیا گیا۔ اس طرح جانگلی علاقے کی تحریک آزادی مخدووموں ، سرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کی مدد سے دبادی گئی۔ اس کے بعد دریائے راوی کے کنارے اس علاقے کے بارے میں راوی چین لکھتا ہے۔
محمد ریاض صاحب کا شکریہ جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر اتنے لمبے تبصرے میں تاریخ کے اوراق کھنگالے اور اپنی معلومات سے سب کو آگاہ کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے سکهوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تها نہ کہ انگریز کے خلاف ۔بلکہ انگریز نے تو مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دی جبکہ سکهوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈهائے تیرهویں صدی کے مجدد حضرت سید احمد شہید بریلوی نے کبهی بهی انگریز کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس نے سکهوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا گیا۔چنانچہ اس دور کے تمام مسالک اسلام یہاں تک کہ مفتیان مکہ نے بهی سکهوں کے خلاف جہاد کو جائز اورانگریزوں کے خلاف جہاد کو ناجائز قرار دیا گیا اس لئے اس دور کی تاریخ اس وقت کے تناظر میں دیکهی جائے تو معاملہ جلد حل ہو جائے گا۔
جی جناب علامہ راشد الخیری کے بیٹے نے اپنے والد پہ جو کتاب لکهی اس میں ذکرکیا کہ وہ عکرمہ بن ابی جہل کی اولاد ہیں
ماشاء اللہ بڑے معروف اور سینیئر کالم نگار عباس اطہر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ میں آپ کی خدمت میں سینکڑوں ایسی ہستیاں گنا سکتا ہوں جنہوں نے انگریز کی اس دور میں معاونت کی اور وہ تمام ہستیاں آپ کے لئے بهی محترم ہیں۔سر سیداحمد خان،سید نذیر حسین دہلوی،نواب صدیق حسن خان،محمد حسین بٹالوی ،مولوی رشید احمد گنگوہی،جمال الدین ابن عمر شیخ عمر مفتی مکہ،حسن بن ابراہیم مفتی مکہ،امام احمد رضا خان،مولوی عبداللہ چکڑالوی،مولانا ظفر علی خان حتیٰ کہ علامہ محمد اقبال صاحب بهی انگریز کی وفاداری کا دم بهرتے تهے اب بتائیے کون سا فرقہ ہے جو باقی رہتا ہے ۔اس لئے جناب تاریخ کو مکمل بیان کیا جائے تو ایمانداری ہوتی ہے
Leave A Reply