وزیر اعظم چونکہ خود وزیر خزانہ ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے انہوں نے اپنا بہت سا کام اپنے مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کو سونپ رکھا ہے جن کی معاونت ظاہر ہے سیکریٹری خزانہ بھی کرتے ہوں گے۔ وزارت خزانہ ایک فل ٹائم جاب ہے جو وزیر اعظم جیسے مصروف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور ہمارا نہیں خیال کہ وزیراعظم اپنے مصروف وقت سے وزارت خزانہ کیلیے وقت بھی نکال سکتے ہوں گے، ہاں وزارت خزانہ اپنے پاس رکھنے کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ انہیں اپنے آقاؤں کو نوازنے کیلیے کسی دوسرے شخص سے درخواست نہیں کرنی پڑتی ہوگی۔ مگر دوسری طرف وزارت خزانہ اپنے پاس رکھنے سے جو ملک کا نقصان ہورہا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔
پچھلے سال کی اچھی خبریں یہ ہیں کہ پاکستان میں گندم کی وافر مقدار پیدا ہوئی جس کی وجہ کافی سارا زرمبادلہ دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوا۔ بقول مشیر خزانہ پاکستان کی افراط زر کی شرح زیادہ نہیں بڑھی اور صنعتی، زرعی اور سروس سیکٹر کی ترقی کی رفتار بھی معقول رہی۔ گوکہ صنعتی ترقی کی رفتار پچھلے سال سے کم رہی مگر پھر بھی آٹھ اعشاریہ پچھتر فیصد بری نہیں ہے۔
پاکستان میں بیروزگاری کی شرح چھ اعشاریہ دو فیصد اور غربت کی شرح تیس اعشاریہ نو فیصد تھی۔ اگر بیروزگاری کی شرح پر غور کیا جائے تو یہ بڑےبڑے صنعتی ملکوں کے برابر یا ان سے بھی کم ہے مگر دوسری طرف اگر غربت کی شرح دیکھی جائے تو وہ بہت زیادہ ہے۔ پتہ نہیں بیروزگاری کی اتنی کم شرح ہونے کے باوجود ملک میں اتنی غربت کیوں رہی۔ لگتا ہے ہمارے ہاں بیروزگاری کی شرح میں صرف مردوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اگر بیروزگاری جانچنے کیلیے صرف مردوں کو گنا گیا ہے تو پھر جو ایک دو فیصد عورتیں کام کررہی ہیں ان کو کس کھاتے میں ڈالا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں بیروزگاری کی شرح جاننے کیلیے اگر مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کیا جائے تو بیروزگاری پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہوگی۔ غربت کی شرح جو عام اندازوں کے مقابلے میں حکومت نے بہت کم بتائی ہے مگر اس کے باوجود حکومت کی توجہ چاہتی ہے۔
موجودہ حکومت نو گیارہ کے فوائد کی وجہ سے کافی عرصے سے کشکول توڑنے کا دعوی کرتی آرہی ہے مگر پچھلے سال ملکی قرضوں میں چار اعشاریہ تین فیصد اضافے کا اقرار اب خود کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے کشکول توڑا نہیں ہاں اس کا سائز کم کردیا ہے۔
ملکی برآمدات ميں تو اضافہ تین اعشارہ چار فیصد اور درآمدات میں آٹھ اعشاریہ نو فیصد ہوا ہے۔ اس طرح تجارتی خسارہ گیارہ ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ کہتے ہیں کہ درآمدات میں پاکستانی تاجروں نے بہت ساری جدید مشینری منگوائی ہے اور اس جدید مشینری کی وجہ سے پاکستان کی صنعت عالمی لیول پر مقابلے کے قابل ہوسکے گی۔ لیکن اس تجارتی خسارے کا پاکستانی معیشیت پر اچھا اثر نہیں پڑ رہا۔
حکومت کو اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلیے پچھلے سال دو سو ارب روپے کے قرضے حاصل کرنے پڑے جبکہ اس سے پچھلے والے سال میں بجٹ خسارہ کم کرنے کیلیے حکومت کو تہتر ارب چالیس کروڑ روپے کے قرضے لینے پڑے تھے۔ اگر قرضوں کی یہی صورتحال رہی تو پھر جلد ہی ہمیں اپنے کشکول کا سائز بڑا کرنا پڑے گا۔
یہ بجٹ سے پہلے کی صورتحال ہے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر اس بجٹ میں خسارہ کم کرنے کیلیے مزید ٹیکس نہ لگائے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تنخواہیں بھی بڑھائی گئیں تو پھر یہ سیاسی بجٹ ہوگا جو عموماً حکومتیں الیکشن کے سال میں پیش کیا کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے ہم نامکمل بجٹ بھی کہ سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کے بعد ایک منی بجٹ آئے گی جس میں دی گئ رعایات کو برابر کرنے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کیلیے بہت سارے ٹیکس لگادیے جائیں گے۔
ہم نے ہمیشہ درآمدات پر ڈیوٹیاں ختم کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ درآمدات پر ڈیوٹیاں ختم یا کم کرکے ہم اپنی لوکل صنعت کو تباہ کررہے ہیں۔ اگر حکومت لوکل صنعت کو عالمی منڈی سے تحفظ فراہم نہیں کرے گی تو پھر کون کرے گا۔ اب سنا ہے کہ حکومت اس بجٹ میں آٹھ سو سی سی کی کاروں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کررہی ہے۔ اس طرح پاکستان میں بننے والی کاروں کی صنعت کی ترقی پر ضرب کاری لگے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پاکستان میں چھوٹی کاروں کی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے تو حکومت موجودہ فیکٹریوں کی پیداوار بڑھاتی یا پھر نئ فیکٹریاں لگاتی تاکہ بیروزگاری کی شرح میں کمی ہوتی۔ مزید کاریں سستی قیمتوں پر درآمد کرکے ہم اپنے آقاؤں کی صنعت کو تو تحفظ فراہم کریں گے مگر اپنے ملک کی صنعت کا بیڑہ غرق کرلیں گے جو پہلے ہی عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنے سے محروم ہے۔
11 users commented in " معاشی سال کا جائزہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاب کشکول نہیں اب ٹرک لیے جاتے ہیں قرضے کے۔ کشکول تو کب کا ٹوٹ چکا۔
شوکت عزیز صاحب کو دنیا کی سیر و سیاحت سے ہی فرصت نہیں ملتی تو کام انہوں نے کیا کرنا ہے ۔ گندم کی فصل زیادہ ہوئی اور گندم اور آٹے کی قیمت 20 فیصد بڑھ گئی ۔ اس حکومت نے پچھلے سات سال میں کوئی ایک بھی سچ بولا یا ایک بھی وعدہ پورا کیا ؟
گورنمنٹ کي پاليسيز ميں ايک تسلسل رہا اور چند ايک بہت اچھي نئي پاليسيز اختيار کي گئيں جسکي وجہ سے ملک ميں کافي ترقي ہوئي
مثال کے طور پر کسان ابتک صرف يوريا استعمال کرتے آئے تھے، ليکن حکومت نے تجربہ کيا يوريا کي جگہ “ڈيپ” استعمال کرنے کا کيونکہ نئي تحقيق “ڈيپ” کے استعمال سے زيادہ اچھي فصل دکھا رہي تھي
اس سلسلے ميں حکومت نے “ڈيپ” کے استعمال پر 400 روپے کي سبسڈي دي اور اسکا آخر ميں جا کر يہ نتيجہ نکلا کہ ہمارے پاس کپاس کي ريکارڈ فصل ہوئي اور اس مثبت نتيجہ کو ديکھتے ہوئے حکومت نے اس بجٹ ميں يہ سبسڈي 470 روپے تک بڑھا دي ہے
تو پاکستان کے وسائل کے لحاظ سے مسائل بہت زيادہ ہيں، اور پھر يہ تو يوں بھي اليکشن کے سال کا بجٹ ہے اور پاکستان کے وسائل کے لحاظ سے عوام فرينڈلي ہے اور کسي کي طرف سے بذات خود بجٹ پر کوئي زيادہ تنقيد نہيں ہو رہي سوائے اسکے کے الزام لگا رہے ہيں کہ حکومت مستقبل ميں مني بجٹ لائے گي
ديکھئے پاکستان کے وسائل کم ہيں اور آبادي کے بے ہنگم اضافے سے اور پريشانياں بھي بڑھ رہي ہيں اور جبتک يہ شعبہ بہتري نہيں کرے گا (يعني بہبود آبادي) اُسوقت تک پاکستان کے مسائل بڑھتے ہيں رہيں گے (ليکن آبادي اُسوقت تک کنٹرول نہيں ہو سکتي جبتک کہ ہمارا مذھبي طبقہ اسکي مخالفت کرتا رہے گا
اجمل انکل شوکت عزيز صاحب گو وزير سياحت تو نہيں ہيں ليکن کيونکہ سيرو تفريح کے شوقين ہيں تو اپناقيمتی وقت گُھوم پھر کر گُزارنا پسند کرتے ہيں ايسے ميں ہم اُن کو اعزا زی طور پر وزير سياحت بنا ديتے ہيں کيونکہ اُن کی نکھری ،سُتھری لشکتی ہُوئ شخصيّت ديکھ کر ہم لوگ بھی يہی سمجھے کہ وہ شايد مُلک کے ہمدرد ہيں ليکن ايسا ہے نہيں کيونکہ واقعی „کہنے اور کرنے ميں فرق ہوتا ہے „اُس کہنے اور کرنے جيسے پھل کی طرح جس کا ذائقہ ايک دُوسرے سے جُدا ہوتا ہے مُلک کے لۓ سوچنے والوں کے دل ايسے نہيں ہوتے جو اپنے لوگوں کو درد دے کر کہيں کہ يہ بجٹ ايک عوامی بجٹ ہے ،کيا مزاق ہے ؟آج کی تاريخ کا ايسا مزاق جو شايد ہماری عوام کے ساتھ ہميشہ سے ہی يہ وڈ وڈيرے کرتے رہے ہيں کاش کبھی کوئ عام عوام کے لۓ بھی سوچے کبھی کہا جاتا تھا کہ دال روٹی يا چٹنی روٹی کھا کر گُزارہ ہو جاۓ گا ليکن جب داليں 80 روپے اور ٹماٹر 60 سے 70 روپے کلو تک ہو جائيں تو آٹے دال کا صحيح بھاؤ معلُوم کرنے کے لۓ بندہ کيا کرے گا کہاں کی دال روٹی يا چٹنی روٹی ايسے ميں کہاں کي تفريح اور کيسي تفريح ، بُھوکے پيٹ توتفريح کی ت بھی ياد نہيں رہتی سو يہ سب چونچلے پيٹ بھرے کے ہيں ليکن يہ ہمارے موجودہ يا سابق وُزراۓ کرام کو کون بتاۓ گا جو کبھی لندن کی ٹھنڈی ہواؤں سے خطاب فرماتے ہيں اور کبھی دوبئ کے پاش علاقے جميرا ميں استراحت فرماتے ہيں اور فرانس کا پانی (perior water)پيتے ہيں اور انتخاب لڑتے ہيں لياری سے جہاں پانی آتا ہی نہيں اور اگر آتا ہے تو گٹروں کی ملاوٹ بھرا کتنا سچ اور کہاں کا سچ سب لوگ سب کُچھ جانتے ہيں کيا کريں کہ کہاں جائيں گے ،نہيں جا سکتے سو مجبُوری کا نام شکريہ ،تلخی کُچھ زيادہ ہو گئ کيا کريں چينی بھی تو مہنگی ہے ناسو گُزارہ کريں اسی کڑواہٹ پر صبر کے گُھونٹ بھر کر
دُعاگو
شاہدہ اکرم
شاہدہ،
آپ سے پھر کہوں گي کہ پاکستان کے مسائل بہت ہي زيادہ ہيں، اور ہمارے پاس الہ دين کا چراغ نہيں کہ ان چيزوں کو پلک جھپکتے ميں حل کيا جا سکے
1) ہماري قوم کا سب سے بڑا مسئلہ تيزي کے ساتھ بڑھتي ہوئي آبادي (اور پچھلي نسل تعليم کے ميدان ميں باقي دنيا سے بہت پيچھے)
2) لسانيت کا عفريت
3) علاقائي وڈيروں اور جاگيرداروں کا عفريت
4) کرپشن اوپر سے ليکر نيچے تک
5) لاقانونيت
6) مذھبي انتہا پسندي اور فرقہ پرستي
7) سرحد ميں ہتھياروں کا کھلا کاروبار جہاں سے غير قانوني اسلحہ کي تجارت پورے ملک ميں کي جاتي ہے
8) اسي طرح سرح و بلوچستان ميں ڈرگز کا کاروبار اور باڑہ مارکيٹيں جو ملک ميں اپني صنعت نہيں لگنے ديتيں
9) مافيا سسٹم جيسے سرحد سے متعلقہ قبائلي علاقوں ميں بجلي کا بل کوئي نہيں بھرتا
10) ڈيمز نہيں بن سکتے کيونکہ سندھي اب پنجابيوں پر اعتماد کرنے کے ليے تيار نہيں
،،،،،،،،،،،،،،، تو ان سب چيزوں کے باوجود اگر ہم نے تسلسل کے ساتھ پچھلے 7 سالوں ميں 7 فيصد کے حساب سے مجموعي ترقي کي ہے تو اس پر شکر بجا لانا چاہيے،
،،،،، تو اگر شاہدہ بہن، ہم اگر مشرف صاحب کو ہٹا کر آپ کو اور مجھ کو بھي حکومت ميں بٹھا ديں گے تو آپ اور ميں بھي کچھ نہيں کر سکيں گے
مہہ وش جی خُوشی ہُوئ يہ ديکھ کر کہ اتنی عرق ريزی سے آپ نے تجزيہ کيا ،ليکن پياری بہنا ہم لوگ صرف تجزيہ ہی کرتے ہيں مُجھے اور آپ کو پکی بات ہے اپنے مُلک سے نا صرف پيار ہے بلکہ ہم اس کو سُدھارنے کے سپنے بھی پُوری شدّومد سے ديکھتے ہيں جبکہ جن کا يہ کام ہے وہ صرف وہی کرتے ہيں جو ہر صاحب اقتدار اپنے اقتدار ميں نا صرف کرتا ہے بلکہ اُس اقتدار کو طُول دينے کے لۓ جان ناتواں کی ساری توانائياں صرف کر ديتا ہے بالکُل اُسی طرح جيسے اس سے پہلوں نے کيا ہوتا ہے اصل اور نقل کی پہچان کے لۓ نا جانے کونسے مُحدّب عدسے ايجاد ہوں گے اور کب؟ کہ سب ايک ہی تھيلی کے چٹے بٹے کيوں دکھتے ہيں ،کيا ہماری دُور اورنزديک دونوں کی نظرايک ساتھ کمزور ہو گئ ہے يا ہم بہلاووں ميں جی رہے ہيں مجمُوعی طور پر جو اعداد وشُمار بہنا جی آپ نے بتاۓ ميں اُن سے بالکُل مُتفق ہُوں اور اپنی چيز کو پھلتے پُھولتے کون نہيں ديکھنا چاہے گا اور کس کو اچھا نہيں لگے گا کہ اپنا مُلک ترقی کرے ان سب باتوں کے لۓ ہم سب دُعاگو ہيں کہ امن و امان ، سلامتی اور خُوشحالی کے پُھول چاروں اور کھليں اور يہ خُوبصُورتی صرف سات سالوں تک نہيں بلکہ ہميشہ تک کے لۓ ہماری ہو جاۓ ليکن مہہ وش جی ہميں نہيں چاہيۓ نا يہ وزارت ہميں يعنی مُجھے اور آپ کو کيونکہ ہم اپنے گھر ميں مست ہيں کاش کہ ہم سب پُورے مُلک کو اپنا گھر بنا سکيں اور مست ہو کر رہ سکيں بِناء کسی ڈر اور انديشے کے يوں کہ راوی چين ہی چين لکھتا ہو اور پلک جھپک کر سب کُچھ نہيں مل رہا پياري بہنا 60 سال گُزر چُکے پھر بھي کوئ بات نہيں اللہ کرے سب اچھا ہو جاۓ کہ دُعا تو کي ہي جا سکتي ہے ،ہاں اُميد ہے ميری کسی بات کا بُرا نہيں مانا ہوگا کہ اپنوں کا بُرا نہيں ماناجاتا، ہے ناں
خير انديش
شاہدہ اکرم
مہوش بی بی تم جیسے سمجھ دار بندوں کی یہاں کافی ضرورت ہے آتی جاتی رہا کرو اور ان جیسوں کو عقل دیتی رہا کرو،
مجھے تو یہ سارے پیٹ بھرے لگتے ہیں اچھا کھاتے ہیں اچھا پہنتے ہیں اور چین کی نیند سوتے ہیں اور منہ کا مزہ بدلنے کو یہاں جو منہ میں آتا ہے بغیر سوچے سمجھے لکھا کرتے ہیں،حکومت کے ہر کام میں کیڑے ڈالناان کا پسندیدہ مشغلہ ہے،مجھے تو یہ سارے اپوزیشن کے حمایتی لگتے ہیں،چلو جو غلط ہے اسے تو بندہ غلط کہے پر جو صحیح ہو اسے بھی صرف اس لیئے غلط کہنا ہے کہ حکومت نے جو کیا ہے،
فرمان صاحب ایک اچھی بحث چل رہی ہے اور ہمارے جیسے قاری کافی کچھ سیکھ رہے ہیں پھر یہ بلا وجہ کا تبصرہ ؟ کسی بھی چیز میں دو رائے ہو سکتیں ہیں شاہدہ اکرم اور مہوش علی اپنے اپنے موقف کو مناسب طرح پیش کر رہی ہیں۔۔ آپ جہاندیدہ آدمی لگتے ہیں لیکن پھر بھی دلائل مکمل ہونے سے پہلے فیصلہ سنا دیتے ہیں؟ امید ہے موضوع پر اپنی رائے دیں گے۔۔ تبصرہ نگاروں پر نہیں ۔۔ شکریہ
ریوٹر کی رپورٹ اس لنک http://in.news.yahoo.com/070530/137/6gh05.html پر دیکھی جاسکتی ہے جسکے مطابق 2007 اور 2008 پاکستان میں کپاس کی دوسری تاریخی فصل ہوئی ہے۔ اس میں کچھ اور چیزوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور امید ہے کہ حکومت اس پر سنجیدگی سے کام کرے گی۔ مہوش علی اور شاہدہ اکرم کی گزارشات بھی اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ ہم مسائلستان سے پاکستان کا سفر تیزی سے طے کریں۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ بجٹ کی عام آدمی کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہ گئی کیونکہ اسکی زندگی روزانہ ہی ایک بجٹ بگھتی ہے۔ دوسرا تنخواہوں میں اضافہ اور گرانی میں اضافہ میں بھی ابھی تک کافی فاصلہ ہے اور ملک میں ادھار کلچر کو بلا وجہ فروغ دیا جارہا ہے جو آگے چل کر مزید مسائل کا باعث بھی بنے گا
راشد میں صرف یہ جانتا ہوں کہ چند لوگ معاشرے کو بدل نہیں سکتے اس کے لیئے سب کو من حیث القوم بدلنا ہوگا،اور پہلا قدم ہم پنجابیوں نے ہی اٹھانا ہے اپنی پنجابیت کو خیر آباد کہ کر اس پنجابیت کی وجہ سے صوبائیت نے جنم لیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پھنچادیا،ہم نے تو اپنے غریب پنجابی بھائیوں کا بھی استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی،اور ساتھ ساتھ ان کے زہنوں میں یہ زہر گھولتے رہے کہ دوسرے صوبوں والے غدار ہیں،تاکہ وہ ہمارے ظلم پر غور ہی نہ کر سکیں،آج کسان کی جو حالت ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ہمارے اپنے صوبوں کے بڑے لوگ جن کی سیا ست ہی یہی رہی ہے کہ لوگوں کو آپس میں الجھائے رکھو اور اپنے اکاؤنٹ بھرتے رہو،کسان کو سہولتیں مہیا ہوں تو ہمارا کسان اس سے کئی گنا بڑی اور اچھی فصل اگا سکتا ہے ،
اگر ہم تعصب کے اندھیرے سے باہر نکل آئے تو اس ملک کو ترقی یافتہ بننے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی انشاءاللہ،
ًہوش بی بی نے جو اعداد و شمار دیئے ہیں وہ تو ہر اخبار اور ٹی وی چینل پر بکھرے ہوئے ہیں اور تمھیں مہوش بی بی کے بتانے پر پتہ چلا!،اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم لوگ ایسی خبریں غور سے نہیں پڑھتے یا سنتے جس میں حکومت کی اچھائی ہو صرف اسی پر توجہ دیتے ہو جس میں حکومت کی خرابی ہو یا اسے گرانے کی باتیں ہوں،
ادھار کلچر کوئی آج کا تو نہیں ہے البتہ پچھلی حکومتیں اس کے پورے یا زیادہ تر حصے سے اپنے اکاؤنٹ بھرتی رہیں اور یہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو حالانکہ اس کے ساتھ بھی بہت سی پرانی جونکیں چمٹی ہوئی ہیں اور میں تو بھائی اس حکومت کے حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں اور خاصکر پریزیڈنٹ مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز کو،
فرمان صاحب میں شاید آپ کی پہلی بات سے اتفاق نہ کروں کیونکہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک مخلص انسان بھی انسانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتا ہے۔ خود ہماری تاریخ دیکھیں ۔ رسول اللہ ایک مشن لے کر اٹھے اور دنیا بدل کر رکھ دی۔ قائد اعظم خلوص کے ساتھ اٹھے اور ملک بنا ڈالا۔ آپ جدید تاریخ کو دیکھیں، نیلسن منڈیلا اور مہاتیر نے اکیلے ہی قوم کو قسمت بدل دی۔ جبکہ دوسری طرف ایک صدام اور ایک ملا عمر اور اسامہ نے پورے عراق اور افغانستان کا بیڑا غرق کر دیا۔۔مسئلہ پنجابی اور سندھی کا نہیں مسئلہ استحصال کا ہے یہاں غریب پس رہا ہے چاہے کوئی زبان بولتا ہو امیر عیش کر رہا ہے چاہے کوئی زبان بولتا ہو۔ جہاں تک اعدادو شمار کا تعلق ہے یہ ہر آدمی سنتا اور دیکھتا ہے لیکن یہ بتائیں کہ کیا حکومت کی کریڈیبلٹی اتنی ہے کہ اسکی ہر بات پر یقین کیا جائے ؟ مہوش علی کے اعدادو شمال کوئی نئے نہیں۔ ایک وقت شاید پاکستان نے دنیا کی پانچ فیصد کپاس پیدا کی، نایاب 78 دنیا کی بہترین کپاس کہلاتی تھی ۔۔ لیکن ہم نے یہ دن بھی دیکھا کہ ملک میں آٹے کی قیمت قابو میں نہیں آرہی اور حکومت کو گندم برآمد کرنے کی جلدی ۔۔ کوئی پوچھے کیوں؟
Leave A Reply