آج کل ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے جلسوں اور تقریروں میں کچھ دیر کیلیے انگریزی میں ضرور خطاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انگریزی تقریر بین الاقوامی دنیا کیلیے تھی۔ اس کی تازہ مثال مولانا طاہر القادری کے مینار پاکستان کے جلسے کی تقریر ہے۔ جب مولانا نے اگریزی میں تقریر شروع کی ہو گی تو لاکھوں کے مجمعے کیلیے بوریت کا وقت ہو گا۔ اسی طرح ہمارے حکمران جب ٹی وی پر خطاب کرتے ہیں تو وہ بھی انگریزی میں ہوتا ہے۔ اب بھلا کوئی ان سے پوچھے خطاب آپ اس عوام سے کر رہے ہیں جس کی اکثریت انگریزی کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہے تو پھر اس خطاب کا کیا فائدہ۔
اب تو دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے کہ بڑے بڑے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی مقامی زبانوں میں تقریر کا ترجمہ بروقت دوسری زبان میں ہو سکتا ہے۔ پھر حکمران جس دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں اس کیلیے عوامی خطاب کی بجائے کوئی اور وقت منتخب کر لیا کریں۔ مگر خدارا اگر عوام سے خطاب کرنا ہے تو پھر ان کی زبان میں کیجیے۔
4 users commented in " انگریزی کیوں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام
وہ انگلش میں تقریر عوام کے لیے نہیں اپنے آقاؤں کے لیے کر رھے ھوتے ھیں
طاہر القادری صاحب بھی اپنے آقاؤں کے تابعدار ہیں ۔ ان کو لال مسجد اور مدرسہ حفصہ للبنات پر فوج کشی تو بُری معلوم نہ ہوئی تھی مگر افغانستان میں طالبان دہشتگرد نظر آتے ہیں
دراصل یہ لوگ غلامانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں۔اسلئے یہ چاند پر بھی چڑھ جائیں ،تو بھی انکی ذہنی غلامی ختم نہ ہوگی۔
بقول افتخار صاحب انہں نے اپنے آقاؤن کو اپنی وفاداری دِکھانے کیلئے انگریزی بولنا ہی ہے۔
یہ غلام نوکر کہیں کے
بہت عمدہ
Leave A Reply