ہمارے ہاں ایک غریب عورت گھر کا کام کاج کیا کرتی تھی۔ اس کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو ایک کمرے کے مکان میں اپنے خاندان کیساتھ رہتی تھی۔ گرمیوں کے دنوں اس کے بچے بناں بجلی کے تڑپ رہے ہوتے تھے اور اس کے بچے جب گرمی سے بے حال ہو کر اپنے کپڑے اتار دیا کرتے تو وہ اپنے رب سے کہا کرتی۔ ” اے خدا کبھی زمین پر اتر کر دیکھ تیرے بندے کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں”
ہمارے ہاں غریب عیسائی گندگی اٹھانے اور گلیوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں اور ہم لوگوں کے ذہنوں میں شروع سے اسی طرح ذہنوں میں یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ یہ پلید ہیں جس طرح ہندوؤں کو مسلمانوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں عام مسلمان کسی عیسائی جسے عرف عام میں چوڑھا کہا جاتا ہے ہاتھ ملانا تک پسند نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے کھانے کے اپنے الگ برتن ہوتے ہیں جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے۔ اگر مسلمان غلطی سے کسی ہندو کے کچن میں گھس جائے تو ہندو کو سارا کچن پانی سے دھونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تو ایسا نہیں ہے مگر عیسائی کیساتھ مجبوراً ہاتھ ملانے کے بعد اکثر لوگ اپنے ہاتھ دھونے لگتے ہیں۔
ہم بھی اسی ماحول میں پلے بڑھے اور جب ہائی سکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو ہمارے ساتھ دو عیسائی بھی پڑھا کرتے تھے۔ ایک کا رنگ کالا اور دوسرے کا سفید تھا۔ کالے رنگ والے کو تواس کے ہم جماعتی بہت تنگ کیا کرتے تھے اور اس کانام خادم مسیح بلانے کی بجائے خادو عیسائی بلایا کرتے تھے۔ دوسرا عیسائی اپنی رنگت کی وجہ سے پہلی نظرمیں پہچانا نہیں جاتا تھا لیکن جونہی مسلمان لڑکوں کو پتہ چلتا کہ وہ عیسائی ہے وہ اپنے کانوں کو ہاتھ لگانا شروع کردیتے۔
پھر وقت بدلا، ہم نے انجینئرنگ کے بعد نوکری کرلی جہاں ہمارے ساتھ عیسائی انجنیر بھی کام کرتے تھے مگر تب تک پڑہائی نے مسلمان ملازمین کا ذہن کافی بدل دیا تھا اور وہ عیسائی ملازمین کیساتھ ہاتھ ملا کر دھویا نہیں کرتے تھے مگر تب بھی ان کیساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔
وقت اور بدلا اور ہم لوگ عیسائیوں کے دیس میں آگئے جو دنیا کا ترقی یافتہ اور جمہوری ملک ہے۔ یہاں پر مسلمانوں کو وہی کام کرتے دیکھا جو پاکستان میں عیسائی کرتے تھے۔ جس طرح پاکستان میں گھروں اور گلیوں کی صفائی کو تھرڈ کلاس کام سمجھ کر عیسائیوں سے کرایا جاتا ہے اسی طرح عیسائیوں کے ترقی یافتہ ملک میں ٹيکیسی چلانا، گیس سٹیشن اور گروسری سٹور پر کام کرنا، عمارتوں کی مرمت کرنا، عام ریستورانوں میں ویٹر کا کام کرنا، سڑکوں پر پھول اور دوسری اشیائے صرف بیچنا، اخبار ڈیلور کرنا وغیرہ جیسے کام تھرڈ کلاس سمجھے جاتے ہیں اور یہ کام زیادہ تر غیرملکی کرتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ یہ کام عیسائی اسلیے نہیں کرتے کہ یہ تھرڈ کلاس ہوتے ہیں بلکہ ان کاموں میں تنخواہ بہت کم ہوتی ہے لیکن اندر کی بات اللہ جانتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عیسائی ان کاموں پر مامور ہندوؤں، مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ظاہری طور پر برابری کا سلوک کرتے ہیں اور یہی سلوک ان امیگرینٹس کا ذہن بدلنا شروع کردیتا ہے۔ وہی مسلمان جو کبھی اپنے ملک میں عیسائی کے ساتھ سلام لینا گناہ سمجھا کرتا تھا عیسائیوں کے ملک میں انہی کے برتنوں میں کھانا کھانے لگتا ہے۔ انہی عیسائیوں کے ساتھ بلا جھجھک اٹھنا بیٹھنا اور نہ صرف کام کرنا شروع کردیتا ہے بلکہ پینا پلانا اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا کھیل بھی کھیلنا شروع کردیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے توعیسائیوں کیساتھ شادیاں بھی کرلی ہوئی ہیں۔
جوں جوں آدمی عیسائی معاشرے میں وقت گزارتا جاتا ہے اس کے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بارے میں خیالات بدلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ وہی لوگ جو پاکستان ميں عیسائیوں کو مساجد کی دوار تک کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے عیسائیوں کے ملک میں عیسائی لیڈروں کو مسجد میں بلا کر تقریریں کرواتے ہیں بلکہ جب وہ لیڈر مسلمانوں کیساتھ نماز بھی پڑھتے ہیں تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ وہی مسلمان ہوتے ہیں جو کبھی دوسرے فرقے کا آدمی ان کی نماز میں شامل ہوجائے تو سمجھتے ہیں کہ ان کی نماز نہیں ہوئی۔
پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب مسلمان عیسائیوں کے ملک کی فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کیخلاف لڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جس ملک کے شہری ہیں اس کی خدمت کررہے ہیں اور دوسرے مسلمان ملک کے مسلمان حق پر نہیں ہیں۔
اس ساری مغزماری سے صرف یہی ثابت کرنا تھا کہ ماحول اور تربیت آدمی کی شخصیت بناتی ہے۔ اگر آپ انتہاپسند مدرسے سے فارغ ہوئے ہیں تو آپ کٹر مسلمان ہیں، اگر آپ گورنمنٹ سکول کیساتھ ساتھ مسجد سے بھی مذہبی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں تو پھر آپ باعمل مسلمان ہوسکتے ہیں، اگر آپ نے مشنری سکول، ایچی سن یا کاکول اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی ہے تو پھر آپ ماڈریٹ مسلمان ہیں۔ اگر آپ کی پرورش جاگریرداروں، وڈیروں اور امیروں کے گھر میں ہوئی ہے توپھر آپ کے دل ميں غریب کی کوئی قددر نہیں ۔ اسی طرح اگر آپ عیسائی معاشرے ميں پلے بڑھے ہیں تو پھر عیسائیوں سے میل جول آپ کو معیوب نہیں لگتا۔
اسی لیے انسان کیلیے ضروری ہے کہ وہ یکطرفہ فیصلہ نہ کرے بلکہ دونوں طرف کے دلائل اور معلومات کی روشنی میں فیصلہ کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن انسان تبھی کھلے دل سے فیصلہ کرنے کے قابل ہوگا جب وہ شعور کی منازل طے کرے گا اور دونوں طرح کے حالات سے گزرے گا۔ امیر آدمی کے دل میں غریب کا درد تب ہی جاگے گا جب اس نے زندگی میں کبھی غربت دیکھی ہوگی۔ اسی طرح بقول عطاالحق قاسمی کے ہمارے حکمران ایم این اے اور ایم پی اے تب تک غریب پرور بجٹ نہیں بنا سکیں گے جب تک انہیں غریبوں کی طرح چند ماہ زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ہر ممبر اسمبلی کو چند ماہ کیلیے ایک عام غریب آدمی کے بجٹ پر جھونپڑیوں میں رہنے کا ریفریشر کورس کرایا جائے اس کے بعد دیکھئے گا کہ ہمارا بجٹ غریب پرور بنتا ہے کہ نہیں۔ لیکن اگر ہمارے حکمران یورپ پلٹ ہوں تو پھر وہ ایک غریب کی غربت کو کبھی بھی جان نہیں پائیں گے۔ ان کا بجٹ وہی ہوگا جس ميں امیروں کو فائدہ ہوگا۔
آیۓ اپنے خول سے باہر نکلیں اور جن جن باتوں سے ہمیں اختلاف ہے ان کو عملی طور پر پرکھیں پھر آپ دیکھیے گا آپ کا ذہن کس طرح بدلتا ہے۔ کسی دن اپنے گھریلو ملازم کا روپ دھاریے، گلیاں صاف کرنے والا چوڑھا بن کر دیکھیے، مزارع کی طرح کسی جاگیردار کے ڈیرے پر چند دن بسر کیجیے، کسی ڈی آئی جی کا ڈرائیور بنیے، کسی جنرل کا بیٹ مین بنیے، کسی افسر کا پی اے بنیے اور پھر دیکھیے کہ ایک عام آدمی کس طرح اپنی غیرت مار کر اپنی روٹی روزی کما رہا ہے۔ جب تک آپ آگ سے نہیں گزریں گے آپ کا ذہن کندن نہیں بنے گا اور آپ کوآگ میں جلنے والے کے درد سے آگاہی نہیں ہوگی۔
3 users commented in " نیچے اتر کر دیکھیے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackback<p>۔ ہر مزہب کا احترام کرنا چاہیے، باکستانی تو ویسے بھی جاہل گنوار قوم ہے۔ عیسائی کیا یہ تو دوسرے فرقے کے مسلمان کو بھی کافر کہتے ہیں</p>
یہ بات تو درست ہے کہ ماحول انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن کیا یہ بھی درست نہیں کے ہمارے یہاں غیر مسلموں بلکہ غیر مسلکوں تک کے بارے میں دیا جانے والا سبق کچھ مناسب نہیں؟ کیا یہ بھی صرف ہمارے معاشرے تک محدود نہیں جہاں تیلی، دھوبی اور اسطرح روز مرہ کے پیشوں یا کام کی تحقیر کی جاتی ہے ؟ کم از کم میں نے مغربی معاشرے میں ایسا نہیں دیکھا کے کسی کے کام کی وجہ سے اس سے نفرت کی جائے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے کام کرنے والوں، چوکیداری پر مامور لوگوں سے لوگ گپ شپ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور انکے ساتھ بیٹھنے کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔۔ مغربی معاشروں کو اسکا کریڈٹ دینا چاہیے کہ یہی نبی کریم کی تعلیم ہے کے کسی کالے کو گورے پر کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں بلکہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں تو باقاعدہ قانون ہے کہ مذہب یا رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔ باقی رہا ہمارا بجٹ اور سیاستدان۔۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ہر انسان غریب ہو تو پالیسیاں صحیح بنائے مسئلہ نظام کا ہے ۔۔ کیونکہ ہمارا سیاسی نظام کا محور عوام نہیں لہذا بجٹ بھی عوامی نہیں۔۔ جیسا کے بعض ملکوں میں طاقت کا محور عوام نہیں بلکہ کارپوریشنز ہیں چناچہ وہاں کی ہر پالیسی کارپوریشنز کے مفاد کے طابع ہوتی ہیں۔
main kabhi kabhi time milne per BBC aur aap jaisi web sites dekh leta hoon
aaj aik baat kehni thi,main kafi days se logon ke tabsiray perh raha tha aur khaas ker —– sahiba ka jo keh —main rehti hain main bhi waheen rehta hoon aur inko jaanta hoon balke haqeekatan apne dost ke hawale se jaanta hoon.main ne dekha wo kaisi achhi batain kerti hain aur kirdar kaisa apna rakha hai.——————
ab aap batain log pehle apnay aapko theek karain aur uskay baad chalain baat kernay tu munasib bhi lagay na
naja nain yahan kon kon hoga aur unki batain suno tu lagta hai yeh log inqilab berba kerdain ge
Leave A Reply