جب سے ٹي وی رنگین ہوا تھا نعیم بخاری کو ہم ٹاک شوز میں دیکھتے آرہے تھے۔ ان کی وجیہ شکل اور نفاست پسندی نے پہلی نظر میں ہی سب کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے بڑی بڑی شخصیات کے انٹرویو کیے اور نام کمایا۔ نعیم بخاری کو تب لوگ ٹی وی اور طاہرہ سید کے شوہر کے حوالے سے جانتے تھے اور کم لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ وکالت بھی کرتے ہیں۔ وہ دور نعیم بخاری کے عروج کا دور تھا۔
1990 میں نعیم بخاری نے اپنی حسین بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے بچوں کو بیچ دو راہے میں چھوڑ دیا۔ یہ حسین جوڑی چونکہ پڑھی لکھی تھی اسلیے طلاق کے معاملات خوش اصلوبی سے انجام پاگئے اور انہیں کورٹ کچہری کے چکروں میں نہیں پڑنا پڑا۔ ویسے اس جوڑي کی علیحدگی کو لوگوں نے پسند نہیں کیا۔
فروری، 2007 سے پہلے نعیم بخاری نے ٹی وی پر اپنی آمد کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے شو ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ پھر اچانک 16 فروری 2007 کو نعیم بخاری کا ایک خط اخباروں میں چھپا اور ان کی شخصیت زیر بحث آگئی۔ کہتے ہیں یہ خط حکومتی ایما پر لکھا گیا یعنی نعیم بخاری سے لکھوایا گیا۔ اس خط لکھنے کی وجہ چیف جسٹس کو بدعنوانی کے الزامات لگا کر معطل کرنا تھا۔ جب 9 مارچ 2007 کو جنرل مشرف نے چیف جسٹس کو معطل کیا اور ان کا ریفرنس جیوڈیشل کونسل کو بھیج دیا تو نعیم بخاری اپنے خط کی وجہ سے اب مشہوری سے بدنامی کی طرف چل پڑے۔ پتہ نہیں کیسے اور کیوں نعیم بخاری جیسا پڑھا لکھا اور سمجھدار انسان سرکاری سازش کا حصہ بن گیا اور اپنی بے داغ زندگی کو داغدار کر بیٹھا۔
جونہی چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک چلی، نعیم بخاری کے برے دن شروع ہوگئے۔ وہ نہ صرف اپنے ہی ساتھی وکلاء کی نفرت کا نشانہ بن گئے بلکہ عام پبلک میں بھی ان پر آوازے کسے جانے لگے۔ جس شخصیت کو بنانے میں انہیں برسوں لگے ان کی ایک غلطی نے اسے ایک دن میں بگاڑ کر رکھ دیا۔ وہ لوگ جو ان کی ایک جھلک دیکھ کر خوش ہوتے تھے ان کے نام سے نفرت کرنے لگے۔
ان کی اس غلطی نے ان کی بار کی ممبر شپ کینسل کرادی اور وہ وقتی طور پر روپوش ہوگئے کیونکہ اب انہیں جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ ان کی بدقسمتی کہ چیف جسٹس کی تحریک دن بدن زور پکڑتی گئ اور ایک دن وہ بھی آیا جب چیف جسٹس کو بحال کردیا گیا۔ تب شاید نعیم بخاری نے سوچا کہ اب لوگ ان کا خط بھول چکے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ اسلیے انہوں نے مقدمات کے سلسلے میں کچہری جانے کا فیصلہ کرلیا۔
اس منگل کو وہ سکھر میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے پیش ہونے کیلیے جونہی کچہری پہنچے، وکیلوں نے انہیں تاڑ لیا۔ پھر کیا تھا ہرکوئی مرمت کرنے کیلیے ان پر چڑھ دوڑا۔ جج تو یہ صورتحال دیکھ کر اپنے چیمبر میں گھس گئے اور نعیم بخاری کو بھی جج کے چیمبر میں گھس کر جان بچانی پڑی۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری کو بلایا گیا اور بڑی مشکل سے نعیم بخاری کو وہاں سے بحفاظت نکالا گیا۔
کل نعیم بخاری کو پتہ نہیں کیا سوجھی وہ راولپنڈی کی کچہری میں ایک مقدمے کی وکالت کرنے کیلیے نمودار ہوئے۔ ادھر بھی جونہی وکیلوں اوردوسرے لوگوں نے انہیں دیکھا تو ان کو مارنے کیلیے دوڑے۔ پولیس وہاں پر بھی پہنچ گئ۔ پولیس کی بھاری نفری جب انہیں اپنے نرغے میں باہر لے جارہی تھی، مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کردیا. اسی اثنا میں ایک گروپ نے عقب سے پتھراؤ شروع کردیا جس سے ہرطرف بھگدڑ مچ گئ۔ اس دوران بعض افراد نے نعیم بخاری پر تھپڑوں، لاتوں اور مکوں کی بارش کردی اور ان کا کوٹ اتار دیا۔ بعض افراد نے ان پر تھوک پھینکا اور جوس کے خالی ڈبےو پھلوں کے چھلکے ان پر پھینکے۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران نعیم بخاری کو معمولی چوٹیں بھی آئیں جبکہ پتھراؤ کے باعث ایس ایس پی یاسین فاروق، ایس ایچ او سول لائن اظہر شاہ ، ڈسٹرکٹ بار کے ایگزیکٹو ممبر راجہ ذوالفقار اور دوسرے وکلاء کوبھی چوٹیں آئیں۔ تشدد، گھیراؤ اور پتھراؤ کے دوران نعیم بخاری اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معافیاں مانگتے رہے۔ اس واردات کی تفصیل نعیم بخاری نے دی نیوز ایڈیٹر کو اپنے خط میں بتائی ہے۔
کہاں ٹي وی پر لوگوں کے دلوں پر راج کرنے کا زمانہ اور کہاں اب لوگوں سے جوتیاں کھانے کا وقت۔ بھلا کوئی نعیم بخاری سے پوچھے کہ ٹی وی میزبان کو جانبدار بننے کی کیا ضرورت تھی۔ تم اچھے بھلے اپنے کیریئر کو پتہ نہیں کس چیز کی لالچ میں خراب کر بیٹھے۔
اگر یہی حالات رہے تو شاید نعیم بخاری کا گھر سے باہر نکلنا بھی دشوار ہوجائے۔ اب جن کے کہنے پر نعیم بخاری نے “کھشت” جگائی وہی ان کی حفاظت بھی کرے گا۔ سنا ہے چیف جسٹس کے کیس میں جس جس نے حکومت کا ساتھ دیا اسے خوب نوازا گیا ہے۔ کسی کی نوکری ميں اضافہ کردیا گیا، کسی کو بیرون ملک بھیج دیا گیا اور کسی کو اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔ اب نعیم بخاری کے حصے میں کیا آتا ہے یہ وہ جانیں یا حکومت، ہمیں تو فی الحال ان کی رسوائی ہی رسوائی نظر آرہی ہے۔
12 users commented in " نعیم بخاری – مشہور زمانہ سے بدنام زمانہ تک "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس ننگ وطن، اور ایمان فروش کا یہی حال ھونا چاھیے۔۔۔۔ سگ حکومت
yeh hakkomat ka agent hai. yeh tu shruu se hi aiasa tha pata naheen aapne isko achha kion likh dia? yeh bilkul aaisa hi hai jaisey neelam gher wale tariq aziz batain tu ybari chikini chapri magar amal main wohi khabasat
iski tu itni pitai honi chahiye keh iska moon sari life kelyie kala hojaey
ہر ایک کی مرضی! مگر وکلاء کو یوں نہیں کرنا چاہئے تھا! ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے! وکیل کی قانون و اخلاق کو چھوڑ دے تو پھر کون کرے گا اگر میں نعیم بخاری کے خط لکھنے والی حرکت کو اچھا نہیں سمجھتا تو وکلاء کی اِس حرکت کو بھی ٹھیک قرار دینے کے حق میں نہیں!!! نہ اس کی حمایت کرتا ہوں!!! ہر کام کا ایک ظریقہ ہوتا ہے!!!
Baat yeah hai kay jab koi qaum kee peeth main khanjar ghonpay to us kay khilaf contempt ka ruwayya peda ho hee jata hai. Har fard ko kam az kam qaumee muamlaat main zumadaree say kaam lana chahheay jo naeem bhukhari nay nahain kia aur iska khumyaza bhugat rahay hain.
اس بات سے تو یوں ظاہر ہوتا ہے کہ جو بلوغت معاشرے میں اس پوری تحریک کے بعد آنی چاہیے تھی اس سے ہم ابھی بھی کوسوں دور ہیں اور جو چیزیں سوشل بائیکاٹ اور قانونی کاروائی کر کے نمٹائی جا سکتی ہیں انکے لیے بھی وکلا تک تششد کے حامی ہیں۔۔ یعنی وہی بات ہوئی کہ سلمان رشدی پر پتھر مارنا ہوتو سولہ کروڑ ہاتھ لیکن اسکے رد میں ایک کتاب لکھنی ہو تو ایک شخص ڈھونڈنا بھی مشکل۔۔
شعیب کی بات درست ہے جناب، اس عمل سے وکلاء پر انگلی اٹھائ جائے گی۔۔۔۔
naeem bukhari kay sath jo bhi howa..paksitaniyoon ki jahalat ka saboot hai………yeh wakeel hain?ya ghunday hain?kanoon ko khud hath main laitay hain?stupid
Mazedaar baat yeah hai kay Pakistan main Qanoon ya to CJ ko pakarnay kay leeay hai ya Naeem Bukhari aur degar chooroon ko bachany kay leeay
Allah ka karna aisa hua kay awaam kay dobaau main CJ sahab bahaal ho gai warna wo to ghar puhuncha deeay gai thay.
.
kaya pakistan mein khabi loog bashaoor hoon gay?
kaya hum khabi kisis dosarrey ki raye ka ehtaram karna sekheen gaye
ajj yeh jo sara wateen mil ke mush se warde utarne ka mutalba kar raha hai tu us ke hamatee generalz ko chahayee ka wo ewaam ko boon khayeen kyon yeh un ki marzee ke hilaaf hai yeh ewaam kab es qabal ho gike un
mein sence hi a jay kub hum dosare ensan ki ara ko be space dene ke adee hoon gaye kub hum kisi dosare se ehtaleefe raye ko us ki zindgi ki qeemat per nahin hateem kareen gaye
jab mein es jaise newz ko sochte hoon tu mujay yeh sub jo hum mill ker net per likte aur newz channel per bolte hain bakwas lagta hai es wateen mein lawyer jo littate hain un ka yeh haal hai tu hum sub illiterate ewam ka kaya kar sakte hain yeh rawayee humare policical system ki nakamee aur army action ke sub se bare jawaz hain yeh action tu 1st elected p/m ke bi they aur en subactionz ne hum ko khabi syasee sense na ane de aur hum 60 yearz baad bi waheen khare hain humare children kase tarbeet hasal kareen gaye kyon ke jub hum ewamm hote hain tu might is right ko hi believe kartee hain so at the end this blog gave me a n attak of depresion we never gona haveself respect as a nation if v cant respect other personz point of view so it meanz after 60 yearz it might happen in my country that i can live with a deference of opinion but still now itz jo mere marzee ke helaf hai
wo moet ka haqdar hai
تمام تبصرہ نگاروں نے اختلاف رائے کی آزادی کا حق استعمال کرنے پر نعیم بخاری کی پٹائی کو وکلا کی جاہلیت سے تعبیر کیا ہے۔
دراصل نعیم بخاری کی پٹائی ان کی اختلاف رائے کی وجہ سے نہیںہوئی کیونکھ یھ پہلا موقع نہیں تھا کہ انہوں نے اختلاف رائے کا اظہار کیا ہو۔ دراصل وکلا اور عام آدمی کو غصہ ان کی بدنیتی پر تھا یعنی انہوں نے جان بوجھ کر کسی کے ایما پر یہ خط لکھا تاکہ چیف جسٹس کو معطل کیا جاسکے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے لوگ کسی بدکار یا چور کو رنگے ہاتھوںپکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے اس کی ٹھکائی شروع کردیں۔
آج آٹھ سال بعد اس خط کا ایک ایک حرف سچا ثابت ہو چکا ہے ، افتخار چوہدری انتہائی گھٹیا شخص ثابت ہوا جس نے پوری قوم کو دھوکا دیا
Leave A Reply