نو مارچ سے پہلے تمام حکومتی کام حکمرانوں کی مرضی سے ہو رہے تھے۔ خاص کر چوہدری پرویز الٰہی اپنے پانچ سالہ دور کی کارکردگی کی بنا پر اونچی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ چند ماہ سے وہ پنجاب کے کونے کونے میں جلسے منعقد کررہے تھے جن میں لوگ جوک در جوک حکومتی مسلم لیگ ق میں داخل ہورہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ تمام لوٹے اس یقین کیساتھ کہ جنرل مشرف اگلے پانچ سال کہیں جانے والے نہیں ہیں بیت المال سے اپنا حصہ الگ کرنے کیلیے مزید وقت برباد کئے بغیر سرکاری لیگ میں شامل ہونے کیلیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔
نوٹ – یہ تصویر اسلام آباد کی آرٹ گیلری میں نمائش کیلیے رکھی گئی ہے۔ اس صدارتی کرسی کا ڈیزائن علی رضا نے تیار کیا ہے اور ہمارے خیال میں لوٹوں کے بیٹھنے کیلیے یہ بہت موزوں جگہ ہے ۔
لیکن یک دم سیاسی ہوا الٹی چل پڑی اور جنرل مشرف کے کم عقل سیاسی مشیروں نے نو مارچ کو ایسی آگ لگائی جس کی لپیٹ میں وہ خود بھی آگئے اور جنرل مشرف کو بھی جھلسا کر رکھ دیا۔ جب جنرل مشرف کے اقتدار کی کشتی ڈولتی نظر آئی تو پھر چوہدری پرویز کے جلسے بھی کم ہوگئے اور سرکاری لوٹوں نے الٹی دوڑیں بھی لگا دیں۔ تب سے لوٹوں نے سرکاری مسلم لیگ سے بھاگ کر پی پی پی اور مسلم لیگ نون میں اس یقین پر پناہ لینا شروع کردی ہے کہ اگلی حکومت ان میں سے کسی ایک کی ہوگی۔
اگر جنرل مشرف نے پی پی پی کے بھگوڑوں کو شروع میں پناہ دینے کیلیے قانون میں تبدیلی نہ کی ہوتی تو آج موجودہ لوٹوں پر آسانی سے فلورکراسنگ کا قانون لاگو کرکے انہیں نااہل قرار دیا جاسکتا تھا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے بھی سرکاری مسلم لیگ کی تقلید کرتے ہوئے ان لوٹوں کو اپنے ٹٹی خانوں میں جگہ دینی شروع کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس لوٹوں کے موسم میں ضمیر فروشوں کی حاصلہ شکنی کی جاتی اور بھٹو کی ابتدائی سٹریٹیجی اپنا کر عوامی نمائندے انتخابات میں کھڑے کئے جاتے مگر افسوس کہ دونوں پارٹیوں نے بھٹو کے آخری دور کی طرح پھر روایتی سیاستدان خاندانوں کے لوٹوں پر قناعت کرنا ٹھیک سمجھا ہے۔
یہ روایتی سیاستدان ہمیشہ موقع پرست ثابت ہوئے ہیں مگر پارٹیوں کے سربراہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان لوٹوں کو اپنی پارٹیوں میں شامل کررہے ہیں۔ دراصل ان لیڈروں کو معلوم ہے کہ عوام ابھی اتنے باشعور نہیں ہوئے کہ وہ اچھے برے نمائندے کی پہچان کرسکیں اور وہ ابھی بھی ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ جس دن لوگوں نے ذات برادری سے اوپر اٹھ کر ووٹ دینے شروع کردیے اس دن لوٹوں، گھوڑوں اور لفافوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تب تک آئیں ہم سب لوٹوں کی ٹٹی خانے بدلنے کی مہم سے لطف اندوز ہوں اور ان موقع پرستوں کے انجام کا انتظار کریں۔
1 user commented in " لوٹوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا اپنا خیال ہے کہ مسئلہ اب عوامی شعور کا نہیں بلکہ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا ہے ۔۔ یہ تو سب کو نظر آرہا ہے کہ کھیل کا میدان کم از کم پاکستان نہیں ہے نہ ہی ریفری اور ایمپائرز مقامی ہیں ۔۔ ہم تو صرف تماشائی ہیں اور ہمارے اوپر صرف نتیجہ لاگو کیا جائے گا۔۔ ایسی صورت حال میں لوٹے اور بگھوڑے کیا کریں ۔۔
Leave A Reply