ہم چونکہ باقاعدہ بلاگر نہیں ہیں اور نہ ہی دوسرے بلاگر کیساتھ علیک سلیک ہے شائد اسی وجہ سے ہمیں کسی نے ٹیگ نہیں کیا۔ پھر بھی ہمارے بچپن کے روزوں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
روزے چھتیس سال بعد دوبارہ اسی موسم میں آتے ہیں۔ ہمارے پچھلی گرمیوں کے روزے جوانی کے روزے تھے۔گرمی اتنی کہ گیلا تولیہ یا رومال سر پر رکھے جمعہ پڑھنے جاتے تو چند منٹوں بعد ہی سوکھ جاتا۔ اے سی کی کمی درختوں کے نیچے بیٹھ کر پوری کی جاتی۔ تپتی زمین پر پاؤں جلتے تھے۔ ہم جوانی کے دور میں پانچ وقت کی نماز کیساتھ ساتھ تاش کھیلتے روزے کے دن گزارا کرتے تھے۔ گرمی کے باوجود جوانی کا زور اتنا تھا کہ عصر کے بعد ہاکی کی پریکٹس بھی روزانہ کیا کرتے تھے۔
ڈھولچی یا ٹین کے ڈبے کی آواز پر والدہ محترمہ سب سے پہلے اٹھا کرتی تھیں۔ پہلے انہوں نے جاگ لگے دودھ کو رڑک کر مکھن اور لسی بنایا کرنی۔ پھر آٹا گوندھنا اور جس جس کا پراٹھا پکتا جانا اسے بستر پر کھانا دیا کرنا۔ اذانوں کی آواز میں روزہ بند کرنا۔ نماز کیلیے مسجد جانا، پھر صبح کی سیر دوستوں کیساتھ کرنی اور اس کے بعد گھر آ کر آرام کرنا۔
شام کو کبھی شکنجوی، کبھی گڑکے شربت والے ستو، کبھی روح افزا اور کبھی دودھ سوڈا، کھجوریں، سالن روٹی کیساتھ روزہ افطار کیا کرنا۔ کبھی کبھار پہلے مسجد چلے جایا کرنا۔ وہیں شکنجوی، چنوں والے چاولوں اور کھجوروں کیساتھ روزہ افطار کر کے جماعت کیساتھ نماز پڑھنی۔ کبھی کبھار کسی نے روزہ کھولنے کیلیے جلیبیاں مسجد بھجوانی اور وہ امام صاحب نے اپنے حجرے میں رکھ لیا کرنی۔ ہم نے دوران نماز ہی نماز توڑنی، جلیبیوں کا لفافہ اٹھانا اور ساتھ والی گلی میں جلیبیاں کھانے کا جو مزہ آیا کرنا وہ بعد میں کسی بھی مٹھائی کا نہیں آیا۔
تراویح میں شرارتوں کی بھرمار ہوا کرنی۔ جب نمازی سجدے میں ہوتے تو کسی کے پیچھے مٹی کا لوٹا رکھ دیا کرنا، کسی کے پیچھے پانی بھرا غبارا اور کسی کو ویسے ہی دھکا دے کر بھاگ جایا کرنا۔ ایک دفعہ تو یار لوگوں نے سب نمازیوں کی جوتیاں وضو والی جگہ پر رکھ کر ٹوٹیاں چلا دیں اور خود بھاگ گئے۔ پھر کیا تھا اگلے دن نمازیوں نے ہمارے گروپ کی وہ چھترول کی کہ نانی یاد آگئی۔ تراویح میں ایک دوسرے کو دھکے دینا، تراویح میں دیر سے شامل ہونا اور کھسر پھسر کرنا ہم بچوں کا معمول ہوتا تھا۔ ایک دفعہ یار لوگوں نے نمازیوں کو ایسے دھکے دیئے کہ پوری صف ہی ہل گئی۔ پھر کیا تھا، ایک نمازی نے مسجد کے دروازے بند کردیے اور ہم لوگوں کی وہ مرمت کی کہ ساری اگلی پچھلی شرارتوں کی کسر نکال دی۔
ستائیسویں کے ختم کے اپنے مزے ہوا کرتے تھے۔ جلیبیوں اور بوندی کا وہ مزہ آنا کہ بیس تراویح اور اس کے بعد امام مسجد کی لمبی تقریر کی ساری تھکن بھول جایا کرنی۔ یار لوگ ایک دن میں دو تین مساجد میں ختمِ قرآن میں شامل ہوا کرتے تھے۔
تراویح کے بعد گلیوں میں چھپن چھپائی بھی کھیلا کرتے تھے۔ سارا شہر کھیل کا میدان ہوا کرتا تھا۔ ایک دوسرے کو ڈھونڈنے میں اندھیرے میں گلی گلی پھرنے سے ڈر نہیں لگا کرتا تھا۔ اس وقت کے چوکیدار بھی ہماے واقف ہو چکے تھے۔
No user commented in " چھتیس برس پہلے کے روزے "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply