پرانے وقتوں میں لتا منگیشکر کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا۔
بھولے سے بھی نہ کرنا پیار کوئی
دل کا نہ کرنا اعتبار کوئی
اس گانے کی پیروڈی کچھ اس طرح کی بھی ہوسکتی ہے
صدر سے بھی نہ کرنا ادھار کوئی
ان کا نہ کرنا اعتبار کوئی
ہمارا معاشرہ نیچے سے لیکر اوپر تک کرپٹ ہوچکا ہے۔ جب سے جنرل مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ توڑا ہے اور ایم ایم اے نے استعفے دینے کا وعدہ نہیں نبھایا، تب سے سیاستدانوں کےزبانی وعدوں پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ پتہ نہیں اب کتنے فیصد لوگ اپنی زبان کی پاسداری پر کاروبار کررہے ہوں گے مگر حکومت کیساتھ زبانی ڈیل کی دوبارہ غلطی کسی کو بھی نہیں کرنی چاہیے۔ ایسے موقع پر ہمارے ایک بزرگ کہا کرتے “تم تو وعدہ کرکے ایسے پھر [مکر] گئے ہو جیسے تھالی میں کھیر پھر جاتی ہے”۔
سپریم کورٹ میں حالانکہ حکومت کے وکیل شریف الدین پیرزادہ نے تحریری طور پر کہا ہے کہ جنرل مشرف دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھانے سے پہلے وردی اتار دیں گے مگر اس تحریر نامے کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ یہ اس شخص کی طرف سے ہے جو اپنا اعتبار کھو چکا ہے۔ کیا پتہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے اختیارات کا استممال کرنے ہوئے وردی پہنے رکھیں۔ استغاثہ کے وکیل نے ٹھیک کہا ہے کہ وعدہ خلاف شخص کے ایک اور وعدے پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اب وعدہ خلاف کی زبان پر اعتبار کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قانون میں اسی طرح ترمیم کی جائے جس طرح فرد واحد کیلیے پہلے ترمیم کی گئی تھی اور لکھا جائے کہ جنرل مشرف آئیندہ سول صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔ اس ترمیم میں ایسا کوئی جھول نہیں چھوڑنا چاہیے تاکہ شریف الدین پیرزادہ اور ڈاکٹر شیرافگن جیسے آدمی بھی اس کی کوئی اور تعبیر نہ نکال سکیں۔
پتہ نہیں باوردی صدر کا الیکشن لڑنے پر کیوں زور دیا جارہا ہے۔ اگر مسلم لیگ ق کو اپنے آپ پر اتنا ہی زعم ہے تو پھر ایک ماہ پہلے کیا اور بعد میں کیا۔ پہلے تو یہ تھا کہ جنرل مشرف وردی اتارنے پر راضی ہی نہیں تھے اب جبکہ راضی ہو گئے ہیں تو پھر دیر کس بات کی۔ ضروری ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کی جائے اور دوسروں کیلیے ایک اور غلط مثال چھوڑی جائے۔
سابق ججز، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی اکثریت یہی رائے دے چکی ہے کہ جنرل مشرف کو اب ریٹائر ہوجانا چاہیے کیونکہ ان کے پاس اب نہ تو وردی میں اور نہ وردی بغیر صدر منتخب ہونے کی کوئی گنجائش ہے۔
اگر جنرل مشرف خود اور مسلم لیگ ق والے انہیں وردی میں ہی صدر منتخب کرنا چاہتے ہیں تو پھر دال میں ضرور کوئی کالا ہے۔ ہم تو پہلے بھی اسی قسم کا مشورہ حزب اختلاف کو دے چکے ہیں اور اب سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان کو بھی دیں گے کہ اب جھانسے میں نہ آنا۔ حکومت کو صرف وہی راہ دکھانا جس سے وہ ادھر ادھر نہ ہوسکے۔
خدا ہمارے حکمرانوں کے دل کی میل صاف کرے اور انہیں خود غرضی کی حدوں سے آگے ملکی مفاد کی خاطر قربانی دینے کی ہمت عطا فرمائے۔
No user commented in " ان کا نہ کرنا اعتبار کوئی "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply