فی زمانہ جب اس دنیا میں اربوں انسان بھرپور زندگی گزار رہے ہوں اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں حادثات بھی ہوتے ہوں، تب آدمی کا لمبی عمر پانا ایک معجزے سےکم نہیں ہوتا۔ ہرآدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ موت کو قریب سے دیکھتا ہے اور پھر بعد میں سوچتا رہ جاتا ہے کہ وہ بچ کیسے گیا۔ ہم بھی جب اپنے ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے جس نے ہمیں کئی مواقع پر موت کے منہ سے بچایا۔ ہم جب اپنی آنکھیں بند کرکے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہیں تو کتنے شناسا چہرے ایسے یاد آتے ہیں جن کو موت نے لمبی عمر کی مہلت نہ دی۔ ہم خود کو ان خوش نصیب لوگوں میں تصور کرتے ہیں جنہوں نے زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور زندہ رہے۔ چند واقعات جنہوں نے ہماری عمر بڑھائی وہ یہ ہیں۔
پانچ سے سات سال کی عمر میں ہم اپنے دوستوں کیساتھ ندی پر نہانے گئے۔ اس وقت ہمیں تیراکی نہیں آتی تھی۔ دوستوں کی نقالی میں جب ہم نے چند قدم پانی میں آگے بڑھائے تو زمین نیچے سے سرکتی ہوئی معلوم ہوئی۔ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے جب ہمارے پاؤں کے صرف انگوٹھے زمین کیساتھ لگے رہ گئے تو ہم نے آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف سرکنا شروع کیا اور خدا نے ہمیں بحفاظت پانی سے باہر نکال لیا۔ اس دن اگر چند انچ مزید پانی ہمیں آگے لے جاتا تو ہم ندی میں بہ جاتے۔
ایک دفعہ سکولوں کے ٹورنامنٹ ہورہے تھے اور بسوں والے طلبا کو صرف چھت پر سفر کرنے دے رہے تھے۔ ہم بھی بس کی چھت پر چڑھ گئے اور ٹانگیں نیچے لٹکا کر جنگلے کے سہارے بیٹھ گئے۔ بس کی چھت طالبعلموں سے بھری ہوئی تھی۔ ایک بہت ہی تیز موڑ آیا اور ہم جب آدھے سے زیادہ بس کی چھت سے سرک گئے تو ہمارے دوستوں نے ہمیں پیچھے سے پکڑ لیا۔ اس دن اگر وہ نہ پکڑتے تو ہم گہری کھائی میں ایسے گرتے کہ ہڈی پسلی سلامت نہ بچتی۔
ایک صبح ہم کالج جانے کیلیے دوستوں کیساتھ بس سٹینڈ پربس کاانتظار کررہے تھے۔ اس وقت بس والے پانچ سے زیادہ طلبا کو ایک بس میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے۔ جی ٹی ایس کی بس آئی اور ہم نے اپنے بہت ہی قریبی دوست کو عزت بخشی اور اپنی جگہ بس میں سوار کرادیا اور خود دوسری بس کا انتظار کرنے لگے۔ بعد میں راستے میں ہم نے ایک جگہ پر دیکھا کہ جی ٹی ایس کی بس سڑک کے پاس الٹی پڑی ہے اور لوگ زخمیوں کو باہر نکال رہے ہیں۔ ہمارے دوست کی اسی حادثے میں موت واقع ہوئی اور خدا نے ہمیں بچا لیا۔
ایک دفعہ ہم رات کی ڈیوٹی کے بعد گھر واپس آرہے تھے کہ گھر کے بالکل قریب ہمیں اونگھ آگئی اور ہماری گاڑی غلط سائیڈ پر چلنے لگی۔ قسمت اچھی تھی اس وقت سڑک پر زیادہ رش نہیں تھا۔ سامنے سے آنے والی گاڑی نے زور زور سے ہارن بجانا شروع کردیا۔ جب ہماری آنکھ کھلی اور ہم نے بریک لگائی تو ہم دوسری گاڑی سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر تھے۔
اسی طرح ایک دفعہ ہم نے پہلی دفعہ برفانی موسم میں گاڑی چلائی۔ سڑک پر چھ انچ برف پڑ چکی تھی اور گاڑیاں آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ ہم سٹیل کے ایک پل پر تیز رفتاری سے جارہے تھے کیونکہ اس پر برف نہیں تھی کہ پل سے اترتے ہی ایک موڑ مڑتے ہوئے ہماری گاڑی بے قابو ہوئی اور کئی چکر گھوم گئی مگر الٹی نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں نے ادھر ادھر ہوکر ہمیں بچا لیا وگرنہ اس دن اپنا کچومر نکل جاتا۔
ایک دفعہ واہ کینٹ میں ہم ایک دوست کیساتھ اس کے موٹر سائیکل پرکام سے واپس گھر جارہے تھے کہ لڑکیوں کے سکول میں چھٹي ہوگئی۔ دوست نے لڑکیوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس دوران سامنے جانے والی ویگن نے سواریاں اٹھانے کیلیے ایک دم بریک لگادی۔ دوست کو ہم نے جب بتایا تو اس نے موٹرسائیکل روکنے کی کوشش کی مگر پھر بھی ویگن سے جا ٹکرائی۔ دوست کی ایک ٹانگ موٹرسائیکل کی ٹینکی اور ویگن کے بمپر کے درمیان آکر ٹوٹ گئی مگر ہمیں خراش تک نہ آئی۔ ٹانگ تو ٹھیک ہوگئ مگر چھوٹی رہ گئی۔ تب سے ہمارا دوست ہلکا سا لنگڑاتا ہے۔
اوجھڑی کیمپ کا جب واقعہ ہوا ہم پاسپورٹ آفس کے باہر کھڑے تھے۔ جب بارود ہوا میں اڑنے لگا تو سب نے مخالف سمت میں دوڑ لگا دی۔ ہم نے بھی سیٹیلائیٹ ٹاؤن سے مریڑ چوک تک پانچ چھ میل بھاگ کر جان بچائی۔ اس دوران جب ہم مری روڈ پر دوڑ رہے تھے تو ایک شیل ہمارے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا ہمارے قدموں میں آگرا جس سے زمین میں گڑھا بن گیا۔ اس دن تو چند سیکنڈ کی وجہ سے ہماری جان بچ گئی اگر ہم ایک فٹ آگے ہوتے تو ضرور اللہ کو پیارے ہوچکے ہوتے۔
ہر حادثے کے بعد ہمارا خدا پر مزید یقین پختہ ہوتا گیا۔ واقعی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے رکھے جسے چاہے اپنے پاس بلالے۔
3 users commented in " جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام
ان واقعات کو ترتیب کے ساتھ اگر سال کا لنک دے کر لکھتے تو زیادہ اچھے لگتے۔ ہر انسان کو زندگی میں ایسے کئی تجربات ہوتے ہیں۔ کچھ کو زیادہ اور کچھ کو کم۔ آپ جیسوں کا اللہ پر یقین پختہ ہو جاتا ہے اور میرے جیسے بےوقوف اس کو قسمت گردانتے ہیں۔
تمیزدار صاحب
ایک تو آپ نے اپنا نام ایسا رکھا ہوا ہے کہ مخاطب کرنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا ہے۔ آپ کی تجویز کا شکریہ دراصل واقعات اس طرح لکھنے کے پیچھے ایک راز ہے وہ پھر کبھی سہی۔
خدا پر یقین اور قسمت کے درمیان بہت نازک سا فرق ہوتا ہے اور آدمی کو اس فرق کی پہچان کرتے وقت خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کہیں خدا کے ہونے سے انکاری نہ ہوجائے۔
یقین اور انکار کے درمیان انسان کے سر کے بال کی موٹائی سے بھی کم فاصلہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہر وقت شیطان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔
Leave A Reply