ایکسپریس کی خبر کے مطابق اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ہونے والی ایک کتاب کی تقریب پذیرائی کے موقع پر ملک کے معروف دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسر خواجہ مسعود کی وفاقی وزیرپارلیمانی امورڈاکٹر شیرافگن اور صاحبِ کتاب ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر کی طرف سے سرعام بےعزتی کرنے، انہیں مغلظات سنانے اور انہیں کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ممتازقانون دان اور دانشور عابدحسن منٹو نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی وزیر اور ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے ایک انتہائی معزز شخصیت کے بارے میں جو لغو باتیں کیں، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔
ڈاکٹر صاحب اپنی زبان درازی کی وجہ سے مشہور ہیں اور ان کی اس زبان درازی کے صدرقے انہیں موجودہ حکومت نے اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے کیونکہ ان کی زبان درازی مخالف کیلے زہرِ قاتل ہوتی ہے۔ وہ جب جب بھی حزب اختلاف میں بیٹھے انہوں نے شیخ رشید کی طرح حکومتوں کا ناک میں دم کیے رکھا۔
اب جبکہ ان کی پیٹھ پر فوجی بوٹ کی طاقت ہے تو وہ بھپرے ہوئے شیر کی طرح جنگل میں اودھم مچا رہے ہیں۔ جب آدمی اودھم مچانے پہ آتا ہے تو وہ پھر اچھے برے کی تمیز بھول جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو زبان درازی کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ جب تک وہ کسی کو دوچار سنا نہ لیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ جنرل مشرف جیسا آرمی کا تربیت یافتہ کمانڈو بھی ان کی زبان درازی کو پسند کرتا ہے تبھی تو انہوں نے آج تک اس شیر کو پنجرے میں بند نہیں کیا۔
ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب قدرت شیر کو جنگل سے پکڑ کر سرکس ميں کرتب دکھانے پر مجبور کردے گی اور پھر شیر کی حالت دیکھنے کے لائق ہوگی۔
جب آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے تو وہ بہت ساری جوانی کی قباہتیں ترک کردیتا ہے بلکہ بہت سارے تو گناہوں سے توبہ کرکے حاجی نمازی بن جاتے ہیں۔ نہ جانے ڈاکٹر صاحب کب بوڑھے ہوں گے اور کب وہ بھی دوسروں کی دل آزاری سے توبہ کریں گے۔
ہم نے زندگی میں ایک اصول پر سختی سے عمل کیا ہے اور وہ ہے منہ پھٹ کو کبھی منہ نہ لگانا کیونکہ آپ تو ایک بات کرکے مزاح پیدا کرنے کی صرف کوشش کریں گے اور منہ پھٹ آپ کی شخصیت پر ایسے تابڑ توڑ حملے شروع کردے گا کہ آپ کو منہ چھپانے کیلیے جگہ نہ ملے گی۔ ہم نے اکثر منہ پھٹ لوگوں کو منہ لگانے کا حشر دیکھا ہے جب لوگ بالکل بے بس کھڑے منہ پھٹ کا صرف منہ دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ہم نے جب بھی اس اصول سے انحراف کیا ہمیشہ منہ کی کھائی۔
3 users commented in " ڈاکٹرشیرافگن کا ایک اور کارنامہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackویسے شیخ رشید آخری بار کب اپوزیشن میں بیٹھے تھے اور شیر افگن نیازی صرف نام کا شیر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کا شجرہ نسب ڈھاکے والے نیازی سے ملتا ہے کہیں جا کر۔
مجھے اپنے قابلِ قدر اُستاذ کے ساتھ ناروا سلوک کا پڑھ کر بہت دکھ ہوا ۔ خواجہ مسعود صاحب گارڈن کالج میں ہمارے گیارہویں بارہویں جماعت میں ریاضی کے استاذ تھے ۔ مجھے ایک شرمیلے لڑکے سے بااثر مقرر انہوں نے ہی بنایا ۔ کہاں یہ کہ پہلی بار جب میں سٹیج پر پہنچا تو میری آنکھوں کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور کہاں ایسا کہ میں تقریر کرنے کھڑا ہو جاؤں تو ہال میں کتنا ہی شور کیوں نہ ہو ایک دم سناٹا چھا جاتا تھا ۔ میرے محترم استاذ خواجہ مسعود صاحب میرے محلے دار بھی ہیں ۔ اُن کی رہائش گاہ اور میرا گھر پانچ منٹ کی پیدل مسافت ہے ۔ کبھی کبھی ملاقات ہوتی رہیتی ہے ۔
آپ کے بلاگ اور پھر اخبار کی خبر کو پڑھ کر نہایت دکھ ہوا کے اب قابل لوگوں کی پاکستان میں اسطرح تذلیل کی جائے گی۔ شیر افگن صاحب کو نہ معلوم کہاںسے ڈاکٹری کی ڈگری ملی ہے کہ ان میں تعلیم کے قلیل قسم کے اثرات بھی نظر نہیں آتے۔
شاید اس کام کے لیے بھی انہوں نے آرٹیکل 52 دفعہ 2 یا نہ جانے کس کس چیز کی کہانی سنائی ہوگی۔
Leave A Reply