ہمارا ایک کلاس فیلو کیڈٹ کالج سے ایف ایس سی کرکے چوہدری عابد کے نام سے یونیورسٹی میں داخل ہوا مگر بعد میں عابد بدتمیز کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا نام بدتمیز کیوں پڑا اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔ شروع میں توعابد نے خوب پڑھائی کی مگر تعلیم کے دوسرے سال اس نے سینئرز کیساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا بلکہ ان کیساتھ جوا کھیلنا شروع کردیا۔ شراب کی عادت اسے کیڈٹ کالج سے پڑی تھی جو جوے کیساتھ ملکر دوآتشہ ہوگئی۔
اس وقت تاش کے پتوں کیساتھ جوا کھیلا جاتا تھا اور تاش کی دو گڈیاں ملا کر گیم کھیلی جاتی تھی۔ ان جواریوں کی مہربانی سے عابد کو نقل میں بھی آسانی ہوگئی اور وہ بڑے آرام سے امتحان پاس کرتا گیا حتیٰ کہ اس نے فرسٹ کلاس میں گریجوایشن کرلی۔
پڑھائی کے دوسرے سال ہم دوستوں کی وجہ سے وہ کلاس کا کونسلر بنا اور تیسرے سال یونین کا سیکریٹری جنرل۔ جب وہ آخری سال میں تھا تو اس کے سینئرز گریجوایشن کے بعد ملازمت کرنے لگے۔ ان میں چند ایک کی وساطت سے عابد کو ان کے ساتھی سرکاری ملازمین کیساتھ جوا کھیلنے کا موقع ملا اور اس نے فیکٹری کے ایم ڈیز تک سے دوستی گانٹھ لی۔ اس دوستی کا اسے یہ فائدہ ہوا کہ وہ کلاس میں سب سے پہلا شخص تھا جسے اس فیکٹری میں سترہویں گریڈ کی سرکاری نوکری ملی۔
فیکٹری ميں کام کرنے سے زیادہ اس نے کلب میں جوا کھیلنے کو ترجیح دی اور ساتھ ساتھ ٹینس کھیلنا بھی شروع کردیا۔ وہ اس وقت بورڈنگ ہاؤس میں رہتا تھا۔ ایک دفعہ ہم اسے ملنے گئے اور اس نے ہمیں بھی جوا کھیلنے کیلے کہا۔ ہم نے سوچا کہ شاید مذاق کررہا ہے۔ ہم چونکہ اناڑی تھے اور ابھی دو بازیاں ہاری ہی تھیں کہ اس نے رقم کا مطالبہ شروع کردیا۔ بہت کوشش کی مگر بیس روپے نکلوا کر ہی اس نے جان چھوٹي۔
ٹینس چونکہ بڑے بڑے افسر کھیلا کرتے تھے اسلیے اس کی دوستی بہت بڑے افسروں سے ہوگئی جنہوں نے بعد میں اس کیساتھ بیٹھ کر جوا کھیلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ اس جوے اور شراب نوشي کی وجہ سے عابد کو بڑے افسروں کے گھروں تک رسائی حاصل ہوگئی اور اس کی ان کی بیگمات سے بھی دوستی ہوگئی۔ اس دوران ایک بیگم کی بہن کو اس نے پٹا لیا جس کی سہیلی کا باپ جنرل تھا۔
جب پی ٹی سی ایل کا پبلک سروس کا امتحان ہوا تو جہاں پڑھے لکھے لوگ ناکام ہوگئے عابد نے انٹرویو کیلیے کوالیفائی کرلیا۔ جنرل کی سفارش نے رنگ دکھایا اور خالد کی پی ٹی سی ایل میں بطور انجینئر سیلیکشن ہوگئی۔
اس کی پہلی پوسٹنگ ہمارے پڑوس میں ہوئی۔ ایک دفعہ ہم اسے ملنے گئے تو اس نے پانچ سو روپے ادھار مانگ لیے۔ ہم نے مروت کے مارے اسے روپے دیے جو آج تک اس کی طرف واجب الادا ہیں۔
نوکری ملنے کے بعد وہی جنرل اس کا سسر بنا اور اس کی شادی جنرل کی بیٹی سے ہوگئی جو آرمی میں کیپٹن ڈاکٹر تھی۔ عابد کی جوے اور شراب کی عادت نہ چھوٹ سکی اور اسی وجہ سے اس کے اپنی بیوی کیساتھ تعلقات ہمیشہ خراب ہی رہے۔
وقت گزرتا گیا اور عابد پانچ بیٹیوں کا باپ بن گیا۔ اس دوران اس کی ترقی بھی ہوتی رہی اور آج کل وہ پی ٹی سی ایل میں انیسویں گریڈ کا انجینئر ہے۔ اس کی بیگم لازمی کرنل کے عہدے تک پہنچ چکی ہوگی۔ ہماری اس سے ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے مگر اس کی خیریت کی اطلاع ملتی رہتی ہے۔
چند ماہ قبل ہمارے ایک کلاس فیلو جو آرمی میں کرنل ہیں نے بتایا کہ عابد اس کے گھر آیا تھا۔ وہ نشے میں دھت تھا اور رات اس کے گھر گزارنا چاہتا تھا۔ کرنل صاحب صاحب اولاد تھے اسلیے انہوں نے معذرت کرلی۔ بعد میں انہیں پتہ چلا کہ رات وہ کسی اور دوست کے گھر میں گزار کر واپس چلا گیا۔
ہمارے مولوی قسم کے کلاس فیلو اس کی کامیابیوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ وہ کہتے ہیں عابد کے جوے اور شراب کی عادت نے اسے سب کچھ دلا دیا۔ اسے اچھی نوکری اور چھوکری ملی اور وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوا۔ ہم انہیں اکثر کہتے ہیں کہ اس کی ظاہری کامیابی پر نہ جاؤ۔ ہوسکتا ہے وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہو اور اپنی اولاد کی تربیت اچھی طرح نہ کرسکا ہو۔آگے چل کر اس سستی کا خمیازہ پتہ نہیں اسے کتنا بھگتنا پڑے۔ لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو کوستے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت سی کامیابیاں ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے حاصل نہ ہوسکیں۔
اب آپ بتائیں حقیقت میں کامیاب کون رہا۔ وہ جس نےجوے اور شراب کو بنیاد بنا کر کامیابی کی منازل طے کیں یا وہ جو مولوی بن کر عام پبلک کی طرح ایک معمول کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
5 users commented in " کیسے کیسے لوگ – جواریوں کی دوستی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایسی کامیابی سے بندہ ایویں ہی ٹھیک ہے۔
آگے چل کر یقیناََ عابد کو بہت بڑے امتحان سے گزرنے پڑے گا۔۔۔ اللہ اس کے حال پر رحم کرے۔
آدمی مشاهدے کا غلام هوتا هے ـ اس لیے آنکهوں سے دیکهی هوئی چیزوں کو هی حقیقت سمجھتا هے ـ
لیکن چیزوں کی تاثیر بهی هوتی هے جب یه ظاهر هوتی ہے تو پهر بہت دیر هوچکی هوتی ہے ـ
عابد جیسے لوگ عمر کی چالیسویں دهائی میں هی کئی بیماریوں میں مبتلا هوجاتے هیں
جہنم کے عذابوں میں سے ایک عذاب دکھ دینے والا عذاب بهی ہے اور جب ایسے لوگ دکھ کے عذاب میں مبتلا هوتے هیں تو
مولوی ٹائپ اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر کتکتاریاں والی باتیں کرکے قہقہے لگا رهے هوتے هیں ـ
عابد جیسے لوگ جسمانی کمزوری سے گلی میں گِرے پڑے هوتے هیں اور مولوی ٹائپ کو اس کے کسی بیٹے نے پیٹھ پر اٹهایا هوتا ہے اور دوسرے بیٹے پاس کھڑے هوتے هیں که اباجی کب کچھ کام کہیں ـ
جب ہم زندگی کی دوڑ میں مصروف هوتے هیں تو ایسے لوگوں کی سپیڈ دیکھ کر ہم کہتے هیں وه گیا وه گيا اور جب یه دوڑ اختتام کے قریب پہنچتی هے تو ایسے لوگ دور کنارے کسی کهائی میں گِرے پڑے هوتے هیں اور کسی کے پاس ان کی حالت پر افسوس کرنے کا بهی وقت نہیں هوتا ـ
میں اب جب اپنی عمر کے چالیسویں دهائی میں هوں تو اپنی معتدل کزاری جوانی اپنے ساتھ لیے هوئے هوں مگر میرے کتنے هی ہم عمر بابے بن کر ہسپتالوں کے چکر لگا رہے هیں ـ
یا پهر اولاد کے گلے کر رہے هیں ـ
بہت سے لوگوں کی نظر میں عابد کی زندگی شاید بہت کامیاب ہو لیکن اس کے مجموعی نتائج بہرحال منفی ہی نکلیں گے۔ سب سے بڑی چیز عزت ہوتی ہے، جب وہی پاس نہ رہے تو پھر دوسری تمام باتیں بہت چھوٹی اور کامیابیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔
لوگوں کا تبصرہ پڑھ کر ایک ھی بات ارشاد کرسکتا ھوں، کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔۔۔۔۔، فلسفے اور مستقبل بینی اور طب کے علم کی معراج۔۔۔ اس پوسٹ پر تبصرے پڑھ کر ھو جاتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھمبا نو چتے رھو۔
یہ میرا اس پتہ پہ پہلا تبصرہ ہے،بہت خوشی ہوتی ہے اور بہت کچھ سیکھنے کو حاصل ہوتا ہے.میں تو اسے تربیت بالغاں کہتا ہوں..اور آپ کے مضمون کے بارے میں کہوں گا کہ یہ صرف ایک عابد کی کہانی بلکہ کئی عباد کی کہانی ہے جو حالات و واقعات اور تاریخ کے تناظر میں تھوڑی بہت تبدیل ہوتی ہے..
ایسے واقعات اکثر گھریلو حالات اور گھر کی تربیت کا مظہر ہوتے ہیں،
Leave A Reply