لطیفہ کچہ بے ادب سا ہے مگر موجودہ صورتحال پر صادق آتا ہے اسلیے سنائے بناں چارہ نہیں۔ کسی عورت کا بیٹا ہر سال فیل نہیں بلکہ ایک کلاس پیچھے سرکنے لگا تو اس کے بڑے بھائی نے ماں سے کہا “بےبے نالا زور سے باندھ لے تیرا بیٹا پیچھے آرہاہے”۔ اب ہمیں بھی اپنے نالے کس کے باندھ لینے چاہئیں کیونکہ پاکستان بھی اکیسویں صدی سے ابراہیم لنکن کے دور میں واپس جارہا ہے تبھی تو جنرل مشرف نے اپنی تقریر میں پاکستان میں ایمرجنسی کے جواز کو ابراہیم لنکن کی ایمرجنسی اور اس کے قول سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملک میں آئین معطل کردیا گیا ہے اور وہ بھی بطور چیف آف آرمی سٹاف اور پھر بھی مضر ہیں کہ ملک میں مارشل لا نہیں ہے۔ بنیادی حقوق کی معطلی اور جمہوریت سے فرار پر اپنے ساتھیوں امریکہ، یورپی یونین اور یورپ سے معافی مانگی ہے اور انہیں باور کرایا ہے کہ پاکستان ابھی آپ کے ملکوں کی طرح بنیادی حقوق اور جمہوریت کے قابل نہیں ہوا۔ اپنے غیرملکی ساتھیوں سے جنرل صاحب نے بڑے ہی معذرت خواہانہ انداز میں بات کی ہے مگر پاکستانیوں کو بڑے رعب اور دبدبے سے مخاطب کیا ہے۔
اسمبلیاں بحال رہیں گی اور تمام وزرا اپنے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے مگر آئندہ کا لائحہ عمل ظاہر نہیں کیا گیا اور تیسرے مرحلے کو مکمل کرنے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا اس کا مطلب یہی ہوا کہ انتخابات کا دور دور تک ابھی کوئی امکان نہیں ہے۔
ہمارے اندازے کے خلاف بینظیر صاحبہ نہ صرف پاکستان واپس آگئی ہیں بلکہ انہوں نے جنرل مشرف کے موجودہ اقدامات کی مذمت کی ہے یہ الگ بات ہے کہ ان سب اقدامات کا جنرل مشرف کو براہ راست ذمہ دار ٹھرانے کی بجائے ان کے ساتھیوں پر الزام لگایا ہے جنہوں نے جنرل مشرف کو مارشل لا کی طرح کی ایمرجنسی لگانے کا مشورہ دیا ہے۔ اب تھوڑی سی امید ہو چلی ہے کہ بینظیر صاحبہ دوسری سیاسی جماعتوں سے ملکر مارشل لا کیخلاف سیاسی تحریک چلائیں گی۔ اگر تو بینظیر اور ان کی پارٹی قیادت کو دوسری اپوزیشن کیساتھ گرفتار نہ کیا تو سمجھو بینظیر مصالحتی آرڈینینس کی خیرات کا بدلہ چکا رہی ہیں۔ ویسے اس ایمرجنسی کا فائدہ بینظیر کو بھی ہوا کیونکہ اب ان کا مصالحتی آرڈینینس سپریم کورٹ میں دفن ہو جائے گا۔
اس ایمرجنسی کا سب سے زیادہ فائدہ جنرل مشرف، ان کے سیاسی حواری مسلم لیگ ق اور ان کے بین الاقوامی ساتھیوں کو ہوا ہے۔ عوام تو سراسر خسارے میں رہے ہیں اور خاص کر وہ لوگ جو کئی ماہ سے اپنے گمشدہ عزیزوں کی دستیابی کیلیے اسلام آباد میں احتجاج کررہے تھے اور سپریم کورٹ ان کی مدد کررہی تھی۔ ایم کیو ایم بھی خاص طور پر فائدے میں رہی ہے کیونکہ اب سندھ ہائی کورٹ جو کراچی کے ہنگاموں کا سوموٹو ایکشن لے رہی تھی سے اس کی جان چھوٹ جائے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ناپسندیدہ ججوں کو ریٹائر کرکے جنرل مشرف اور ان کے ملکی اور غیرملکی ساتھی اپنی پسند کے نتائج حاصل کرسکیں گے؟ کیا وہ شمالی علاقوں اور سوات کی صورتحال کو کنٹرول کرسکیں گے؟ کیا میڈیا پر پابندی لگا کر دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا؟
مزہ اس وقت آئے گا جب کل سے مسلم لیگ ق کے سیاستدان میڈیا پر آکر اس ایمرجنسی کابڑی دھٹائی سے دفاع کریں گے اور ان کے مقابلے میں کوئی نہیں ہوگا کیونکہ حزب اختلاف کے بڑبولے جو ان کو شرمندہ کرسکتے تھے تین ایم پی او کے تحت نظربند ہوچکے ہوں گے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ ججوں کی اکثریت نے چاہے ذاتی وجوہات کی بنا پر ہی سہی پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کیا ہے اور اس طرح جنرل مشرف کے موجودہ اقدام کو غیرآئینی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے نے ان کے اس عمل پر ججوں کو مبارکباد دی ہے۔ جنہوں نے حلف اٹھایا ہے وہ اسے کس طرح جائز قرار دیں گے یہ ان کی ریٹائرمنت کے بعد پتہ چلے گا۔
No user commented in " ہم پھر سو سال پیچھے چلے گئے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply