آج کل حزب اختلاف اس شش و پنج کا شکار ہے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے یا نہیں۔ کچھ لوگ جن میں سول سوسائٹی اور وکلاء بھی شامل ہیں الیکشن کے بائیکاٹ کے حق میں ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک تین نومبر سے پہلے کے حالات بحال نہ کردیے جائیں انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ مخالف گروپ کا خیال ہے کہ انتخابات میں اگر حصہ نہیں لیا تو مخالفین یعنی صدر مشرف اور ان کی پارٹي مسلم لیگ ق کو دھاندلی کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ حکومت بنا لیں گے۔
اگر انصاف سے دیکھا جائے تو انتخابات کے بائیکاٹ کی تجویز حق ہے اور انتخابات میں حصہ لینا باطل ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بائیکاٹ سے وہ لوگ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیں گے۔ ہمارے خیال ميں وہ تب تک مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکیں گے جب تک متحد نہیں ہوں گے یعنی انتخابات کا بائیکاٹ تمام حزب اختلاف ملکر نہیں کرے گی تو اس بائیکاٹ کا فائدے کی بجائے الٹا اسی طرح نقصان ہوگا جس طرح جنرل ضیاء کے پہلے انتخابات کے بائیکاٹ کا ہوا تھا۔
حالات یہی بتا رہے ہیں کہ پی پی پی انتخابات کے بائیکاٹ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی وجہ بھی نظر آتی ہے کہ بینظیر اپنے مغربی آقاؤں کے حکم کیمطابق صدر مشرف کیساتھ ملکر حکومت بنانا چاہتی ہیں تو پھر وہ بائیکاٹ کیسے کریں گی۔ ہم مولانا فضل الرحمان کی اس بات کے حق میں ہیں کہ اگر پی پی پی بائیکاٹ کرے تو پھر ایم ایم اے یا اے پی ڈی ایم کو بائیکاٹ کرنا چاہیے۔
حق بات تو یہی ہے کہ ایمرجنسی کے خاتمے اور عدلیہ کی بحالی سے کم کسی تجویز پر راضی نہیں ہونا چاہیے اور ہم عمران کے الیکشن کے بائیکاٹ کو اصولی طور پر تو جائز سمجھتے ہیں مگر وہ اس بائیکاٹ سے وہ نتیجہ نہ حاصل کرسکیں گے جو حاصل ہونا چاہئیں یعنی ایمرجنسی ختم کردی جائے اور عدلیہ بحال کردی جائے۔
اب فیصلہ ہمیں یہ کرنا ہے کہ اگر حق کا ساتھ دے کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی امید نہ ہو تو پھر کیا حق کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے یا اپنے فیصلے پر ڈٹے رہنا چاہئے۔ دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ حق حاصل کرنے کیلیے کیا کوئی متبادل طریقہء کار بھی ہے اور اگر ہے تو پھر کیا اس طریقہء کار کو اپنانا چاہیے یا نہیں؟ ہمارے خیال میں تو حق کا ساتھ دینا چاہیے مگر نتائج کی گارنٹی کیساتھ اور دوسرے یہ بھی خیال رہے کہ حق کا ساتھ دیتے دیتے کیا ہم کفر کے ہاتھ مزید مضبوط تو نہیں کررہے؟
عمران خان نے حق کا ساتھ دے کر جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ اس کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ حق کو چھین سکے۔ اسلیے اسے چاہیے تھا کہ حق کے حصول کیلیے ایسی جدوجہد کرتا جس کے نتائج نکل سکتے۔ کل کا ویسے کوئی پتہ نہیں کہ عمران خان کا جلایا ہوا بائیکاٹ کا چراغ سارے پاکستان میں اجالا کردے مگر اس وقت تو ہمیں عمران کا چراغ سورج کے سامنے حقیر ہی لگ رہا ہے۔
کفر کی طاقتیں یکجا ہوچکی ہیں اور وہ حق کو دبانے کیلیے تیار ہیں۔ اب حق کی بات کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ ان کا مقابلہ اپنے موجودہ وسائل سے کریں ناں کہ کسی غیبی امداد کے سہارے بیٹھ کر وقت ضائع کریں اور بعد میں پچھتائیں۔
بات وہیں پر ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی یعنی اگر حزب اختلاف ملکر انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرسکتی تو پھر کسی کو بھی بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسی طرح حق کی بات کرنے والے کفر کو اسمبلی کے اندر اور باہر ٹف ٹائم دے سکیں گے۔ وگرنہ بائیکاٹ کی صورت میں وہ پانچ سال کیلیے منظر سے غائب ہوجائیں گے۔
ایکسپریس کے کالم نگار جاوید چوہدری کی اس تجویز کے ہم حق میں ہیں کہ اگر اعتزاز احسن، جاوید ہاشمی اور علی احمد کرد اپنی الگ جماعت بنالیں تو وہ بازی پلٹ سکتے ہیں مگر ہمارے خیال میں اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ وکلاء کی تحریک سے کچھ امیدیں اب بھی وابستہ ہیں کہ شاید وہ اپنی جہدمسلسل سے عدلیہ کا وقار بحال کراسکیں۔ بینظیر یا دوسرے سیاسی لیڈروں کو تو معزول ججوں کو بھولنے میں ہی فائدہ ہے کیونکہ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی حکومت پر بھی عدلیہ کی تلوار اسی طرح لٹکتی رہے جس طرح پرویز مشرف پر لٹکی ہوئی تھی اور وہ ایمرجنسی سے عدلیہ کی آزادی کا گلہ گھونٹنے پر مجبور ہوئے۔
3 users commented in " کیا انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوکلاء نے تو ملک بھر میں اُن تمام وکیل اُمیدواروں خواہ کسی بھی پارٹی کے ہیں اپنا فارم واپس لینے کا کہا ہے! یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اعتزاز احسن نے بھی وکلاء کی کال پر اپنے فارم واپس لینے کی بات کہ ہے!!
“عمران خان نے حق کا ساتھ دے کر جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے “ کیا حق کا ساتھ دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے؟ یا اس کی بھی یار لوگوں نے کچھ شرائط رکھ دی ہیں؟ اگر ہاں تو پھر لازم یہ بھی بتا دیا ہو گا کب حق کا ساتھ نہیں دینا چاہئے!!!
دیکھیں ایک طرف تو لوگ کہتے ہیں کہ الیکشن درست نہیں جب الیکشن درست نہیںتو پھر اس میں حصہ لینے کا مطلب تو اسے درست ماننا ہے ؟ اپوزیشن میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام لوگ اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح دوسری پارٹی بائیکاٹ کرلے تاکہ انکا راستہ صاف ہوجائے۔۔ مولانا فضل الرحمن سے مجھے تو امید نہیں کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے۔۔ انکی تو متحدہ مجلس عمل بھی اب متحد نہیں رہی۔۔ ہاں اگر وہ لوگ جن کو لوگ سمجھتے ہیں کہ ایماندار ہیں جیسے اعتزاز احسن، علی کرد، عمران خان ۔۔ انکو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہوجانا چاہیے تھا۔۔ الیکشن جیتنا نہ جیتنا ایک طرف لوگوں کے پاس ووٹ ڈالنے کے لیے ایک متبادل تو دستیاب ہوتا۔۔
الیکشن کے بائیکاٹ کے دو بڑے وجوہ تھے :
ایمرجنسی کا نفاذ اور عدلیہ کی آزادی (یا دوسرے لفظوں میں معزول ججوں کی بحالی )
سابق جنرل مشرف صاحب (معذرت خواہ ہوں کہ میں اب بھی انہیں صدر نہیں سمجھتا ) کی طرف سے ایمرجنسی اٹھانے کے اعلان کے بعد ایک ہی مطالبہ یا جواز رہ گیا ہے اور وہ ہے معزول ججوں کی بحالی ۔ بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل نے اسے ایک نیا رنگ و آہنگ دے دیاہے اور ہے عدلیہ کی آزادی ۔ ویسے بھی اکثر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کا موڈ یہی لگ رہا ہے کہ وہ معزول ججوں کی بحالی پر زیادہ زور نہیں دیں گے ۔ بلاشک و شبہ ان قابل قدر شخصیات (جج صاحبان) نے عدل اور ملک کے لئے بہت بڑی قربانی دی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ان کو بحال کیا جاسکے گا تاوقتیکہ کہ آئندہ الیکشن میں مشرف مخالف کیمپ کو واضح اکثریت مل سکے جو تقریبا ناممکن نظر آرہا ہے ۔
بات اس پر ہونے چاہیئے کہ الیکشن کے بائیکاٹ کا فائدہ کیا ہوگا ۔ انفرادی بائیکاٹ کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت بے نظیر اور نواز بھی میدان میں موجود ہیں ۔
سڑکوں پر عوامی احتجاج اور بیلٹ کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرنے میں پاکستانی قوم کی انداز فکر کافی عجیب و غریب واقع ہوئی ہے اس ئے مجھے یقین نہیں اگر کرد ، اعتزاز اور عمران ایک جماعت بنالیں تو وہ پورے ملک میں سویپ کرجائیں گے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا ۔ پاکستانی قوم کبھی ووٹ بطور احتجاج نہیں ڈالتی اگر کبھی ایسا ہوا تو انقلاب آجائے گا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست کا ادراک رکھنے والے بائیکاٹ سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔
Leave A Reply