بہت پہلے جب سرف واشنگ پاؤڈر مارکیٹ میں آیا تو اس کے ایک ٹی وی اشتہار میں دھلے ہوئے دو سفید کپڑے دکھائے جاتے تھے۔ ایک عام واشنگ پاؤڈر والا گندہ کپڑا ہوتا تھا اور دوسرا سرف والا صاف شفاف۔ آخرمیں آواز آتی تھی “فرق صاف ظاہر ہے”۔
یہی فرق ہم نے پاکستان اور امریکہ میں ایک ساتھ ظہور پذیر ہونے والے دو واقعات میں دیکھا ہے۔ پرسوں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں ایک قحبہ خانے پر چھاپہ پڑا اور وہاں سے درجنوں عورتیں اور مرد حرام کاری کے جرم میں گرفتار ہوئے۔ ان میں سے ایک پی پی پی کے ایم این اے قیوم جتوئی بھی تھے۔ سنا ہے مجسٹریٹ نے آصف زرداری کی مداخلت پر قیوم جتوئی کی ضمانت لے لی مگر باقیوں کو یہ کہ کر جیل بھیج دیا کہ وہ اتنے سارے لوگوں کی ضمانت نہیں لے سکتے۔ حددو آرڈیننس میں اگر ترمیم نہ ہوئی ہوتی تو قیوم جتوئی کی ضمانت اتنی جلدی نہ ہوتی۔ بہرحال نہ پیپلز پارٹی نے اس واقعے کو سنجیدہ لیا اور نہ ہی پاکستان کے اٹارنی جنرل نے کوئی کاروائی کی۔ صاف ظاہر ہے اپروچ والا آدمی بچ گیا اور غریب عدالتوں کے دھکے کھاتے پھریں گے۔
دوسری طرف امریکہ کی سٹیٹ نیویارک کے گورنر ایلیٹ سپٹزرکا اسی طرح کا کیس منظرعام پر آیا ہے۔ یہی گورنر جب اٹارنی جنرل تھا تو اس نے حرام کاری کے اڈوں کیخلاف کئی کیس جیتے تھے۔ اب وہ خود ایک دھندے والی کو نیویارک سے واشنگٹن اپنے ہوٹل میں بلانے اور اس کے ساتھ حرام کاری کرنے کے الزام میں پھنس گیا ہے۔ ابھی اس نے سرعام پبلک سے معافی مانگی ہے مگر میڈیا، پبلک اور پارٹی کی لیڈرشپ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑگئی ہیں اور اس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ گورنر ایلیٹ سپٹزر کی استعفیٰ دیے بغیر جان نہیں چھوٹے گی۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ گورنر مستعفی ہو گئے ہیں۔
اسی فرق کی وجہ سے امریکہ سپر پاور ہے اور پاکستان ترقی پذیر۔ سچ کہا گیا ہے کہ جن بستیوں سے انصاف اٹھ جاتا ہے وہ کھی ترقی نہیں کرسکتیں۔ پتہ نہیں ہمارے ہاں کب تبدیلی آئے گی۔ کب امیراورغریب قانون کی نظر میں برابر ہوں گے اور کب حکمران اپنے آپ کو قانون سے ماوراء سمجھنا ترک کردیں گے۔
تبدیلی صرف ایک صورت ميں آسکتی ہے، وہ ہے پبلک کا خواب غفلت سے جاگنا اور اپنے حکمرانوں کا احتساب کرنا۔ اس خواب غفلت سے جاگنے کیلیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ قوم کو خواب غفلت ميں سوئے رکھنے کیلیے ہی حکومت تعلیم پر زیادہ خرچ نہیں کررہی۔ مگر ہمیں سوفیصد یقین ہے کہ آزاد میڈیا اب پبلک کو تعلیم یافتہ بنانے میں بہت بڑا کردار ادا کرے گا اور جلد ہی قوم جاگ جائے گی۔
4 users commented in " فرق صاف ظاہر ہے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackقوم کو جگانے کے لئے رولا ڈالنا پڑے گا مگر ہم تو چُپ چاپ ہیں ۔۔ ۔ بے حس ۔ ۔ لاچار ۔۔ اور ہاں ہمیں جگائے گا کون؟ ۔ ۔ جگانے والے بھی تو سو رہے ہیں !!!
آپ نے بالکل درست فرمایا ہے یہی وہ فرق ہے جس کی وجہ سے ہم ترقی تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں پر ہم چاہے جتنے بے حیائی اور برائ کے الزامات لگائیں لیکن یہ بات ماننی پڑتی ہے کے لیڈر شپ کے میعار انہوں نے اتنے اونچے کر رکھے ہیں اور لیڈران پر نظام کی اتنی سخت گرفت ہے کے معمولی لغزش بھی کئی لوگوں کے سیاسی کیریر کے خاتمے کا باعث بن جاتی ہے جیسے نیویارک کے گورنر کو نہ صرف یہ کے مستعفی ہونا پڑا بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی نیویارک میں اسے اپنی سیاسی ساکھ کے لیے ایک بٹا قرار دے رہی ہے ۔
موضوع سے ہٹ کر۔ آج کا آپ کی سائٹ کا لوڈنگ ٹائم بے انتہا بڑھ گیا ہے۔۔ شاید کوئی سست رفتار پلگ ان ہے جس نے آپ کی سائٹ کی رفتار بے انتہا سست کردی ہے۔۔
امریکی کعاشرہ چاہے خود کیسا بھی ہے، اپنے رہنماؤں کے حوالے سے ان کے اصول بڑے کڑے ہیں ۔ اور ایک تصحیح نیویارک شہر کے گورنر نہیں نیویارک ریاست کے گورنر
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ۔
موضوع سے بالکل الگ تلگ باتیں۔
مجھے آپکا بتایا ہوا صرف (سرف) مارکہ کپڑے دھونے کی سفوف استعمال کرنے کا ذاتی تجربہ ہے۔شائد اس کو آجکلSURF EXCEL کے تجارتی نام سے پکارا جاتا ہے۔اور یہاں پاکستان میں سرف اتنا زبان زد عام ہے کہ لوگ واشنگ پاوڈر کو سرف کے نام سے ہی پکارتے ہیں۔
اور اسی کمپنی کا ایک اور تجارتی مارکہOMO کپڑے دھونے کی سفوف کوہمارے ملک میں یہی مقام حاصل ہے۔ جو پاکستان میں سرف کو ھے۔ فرق صرف یہ ہےکہ کچھ ممالک میں اسے “سرف ایکسل“ کہتے ہیں اور دوسرے مممالک میں اسے “او مو“ کہا جاتا ہے۔
آج میرے کومپیوٹر میں آ پکی بلوگ کا ظاھری صورت بلکل بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔اور فونٹ سائز بھی دوسرے دنوں کے نسبت کافی چھوٹاہے۔
Leave A Reply