امریکہ کے رچرڈ باؤچر اور نیگروپونٹے اپنے ملک کے اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں مگر پاکستان میں ان کی پذيرائی ایک شاہ کے انتہائی قریبی ساتھی کی طرح ہورہی ہے۔ ان دونوں صاحبان نے نئی حکومت کے بننے کا عمل مکمل ہونے سے قبل پاکستان کا دورہ کرکے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے دانشوروں اور سول سوسائٹی نے ان کے موجودہ دورے کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ اگر یہ لوگ نئی حکومت بننے کے بعد آتے اور پھر اپنے ہم منصبوں سے ملکر پاکستانی اور امریکی تعلقات زیربحث لاتے تو اچھا تاثر چھوڑتے۔ ابھی تو ایسے لگتا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کی بجائے ان دونوں کے دورے کا کوئی اور مقصد ہے تبھی تو انہوں نے پاکستانی سیاست کا کوئی ایسا کارندہ نہیں چھوڑا جس سے ملاقات نہ کی ہو۔
ہمارے تمام سیاستدانوں نے ان اصحاب سے ملاقات کرکے یہ تاثر تو قائم کرنے کی کوشش کی ہوگی کہ ان کی پشت پر بھی امریکی ہاتھ ہے مگر اس دورے کیخلاف پاکستانی عوام کے جذبات کو وہ لوگ سمجھ نہیں سکے۔ جن لوگوں نے ان اصحاب سے ملاقات سے انکار کیا وہ عوام کی نظروں میں ہیرو ٹھرے اور باقی سب بکاؤ مال۔ کاش ہمارے سیاستدان پاکستان کے وقار کو اتنا نہ گراتے کہ غیرملکی نمائندے کھلے عام ہرمعاملے میں ٹانگ اڑاتے نظر نہ آتے۔
ویسے ان دونوں صاحبان کی حکومتی سیاستدانوں سے ملنے کی منطق تو سمجھ آتی ہے مگر حزب اختلاف سے ملنے کا کیا تک بنتا ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ حکومت بننے کے بعد حکمران ہی آل ان آل ہوتے ہیں اور حزب اختلاف ایک بے ضرر کیڑہ لیکن اس کے باجود حزب اختلاف کو اتنی اہمیت دینا دال میں کچھ کالا دکھائی دیتا ہے۔ چوہدریوں سمیت ہماری حزب اختلاف بھی ان اہلکاروں کے آگے بچھی جارہی ہے حالانکہ اس کے پاس سنہری موقع تھا حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لینے کا مگر وہ ایسا نہیں کرسکے۔
ان صاحبان کے دورے کا مقصد ہوسکتا ہے پاکستان سے دہشت گردی کیخلاف جنگ کی حمایت کی یقین دہانی حاصل کرنا ہو اور پاکستانی سیاستدانوں کا امریکی آشیرباد حاصل کرنا۔ لیکن کتنا اچھا ہوتا اگر ہمارے رہنما اس موقعے پر ان اہلکاروں سے بجلی کے بحران سے نکلنے کیلیے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ مہنگائی کم کرنے کیلیے ان سے امداد مانگتے اور کچھ نہیں تو کم از کم ملک میں ایک آدھ کارخانہ لگانے کی درخواست کرتے۔ ہم لوگ ان سے برآمدی کوٹے کو بڑھانے کی ضمانت لے سکتے تھے یا پھر امریکی سرمایہ پاکستان کے اداروں میں لگانے پر زور دیتے۔
ہم لوگ واقعی سستے بکنے والے لوگ ہیں اور اپنی قیمت لگوانا بھی نہیں جانتے۔ اس نازک موقع پر جب غیرملکیوں کو ہماری مدد کی شدید ضرورت ہے ہم کم از کم ان سے سودے بازی تو اچھی طرح کرسکتے تھے۔ ان سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں حمایت کے بدلے ایسی ڈیل کرتے جس سے ملک ترقی کرتا نہ کہ ایسی امداد پر اکتفا کرتے جس کے بموں سے اپنے ہی ہلاک ہوں گے۔ ابھی تک جتنی امداد کا وعدہ ہوا ہے وہ ایندھن بن کر ہمارے گھر میں جلے گی جس میں صرف ہم ہی جل مریں گے لیکن وہ محفوظ رہیں گے۔
No user commented in " کاش ہم سیانے ہوتے "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply