بارہ مئی کے سانحہ کو آج پورا ایک سال ہو گیا۔ اس سانحے میں پچاس کے قریب ہلاک ہونے والوں کی اس قدر بے توقیری کی گئی کہ ابھی تک نہ تو اس سانحے کی کوئی باضابطہ عدالتی انکوائری ہوئی ہے اور نہ ہی صوبائی اور کراچی کی مقامی حکومتوں نے ان فسادات کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔ کراچی کے فسادات کو طاقت کا مظاہرہ قرار دینے اور ابھی تک کسی بھی انکوائری سے اجتناب اس وقت کی قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ان فسادات میں ملوث ہونے کے شکوک و شبہات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر جنرل مشرف کی حکومت اور کراچی کی مقامی حکومت ان فسادات میں شامل نہ ہوتی تو سندھ ہائی کورٹ کی انکوائری کو کبھی پامال نہ کرتی اور تین نومبر ۲۰۰۷ کے غیرقانونی اقدامات کی بدولت وجود میں آنے والی سندھ ہائی کورٹ اس سوموٹو انکوائری کو داخل دفتر نہ کردیتی۔
اگر یہی فسادات کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوئے ہوتے تو ان کی مکمل چھان بین ہوتی اور انہیں دوبارہ ظہورپذیر ہونے سے روکنے کیلیے اقدامات اٹھاتی۔ مگر ہم تو مفادات میں گھرے ہوئے ایسے سیاستدانوں اور حکمرانی کے پلے پڑے ہوئے ہیں جو شمالی علاقوں اور کشمیر کے زلزلے میں ہلاک ہونے والے لاکھوں افراد کو بھول گئے، وہ بھلا کراچی کے سو پچاس مرنے والوں کی کیا فکر کریں گے۔
اگر اس وقت مکمل انکوائری کرکے ذمہ داران کو سزائیں دے دی جاتیں تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کراچی میں نو اپریل کے فسادات دوبارہ نہ ہوتے۔ ہمارا سروے اس بات کا گواہ ہے کہ اکثریت نے ان فسادات کا ذمہ دار کراچی کی مقامی حکومت یعنی ایم کیو ایم کو قرار دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت بارہ مئی اور پھر نو اپریل کے فسادات کی ذمہ دار کس کو سمجھتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں اس وقت کی حکومت سندھ اور ایم کیو ایم کو بارہ مئی کے فسادات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمران انتہائی حد تک بے حس ہوچکے ہیں انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اٹھارہ فروری کو عوام نے جس نظام کو مسترد کیا وہ ابھی تک موجودہ ہے اور صرف چہرے بدلے ہیں۔ لگتا ہے ہمارے حکمران عوامی طاقت کی بجائے بیرونی جمہوری طاقتوں کی حمایت پر زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر ملک میں تبدیلی آسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف عوامی انقلاب سے آسکتی ہے۔ موجودہ مہنگائی اور حکمرانوں کی وعدہ خلافیاں اس عوامی انقلاب کی راہ خود بخود ہموار کرتی جارہی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب عوام مہنگائی کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرپائیں گے اور میڈیا کی وساطت سے جب حکمرانوں کے اللے تللے دیکھیں گے تو ایک دن اسلام آباد پر ضرور چڑھائی کردیں گے۔
2 users commented in " سانحہ بارہ مئی کی برسی اور حکومتی بے حسی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackایک سال گزرنے کے بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں بلکہ جو لوگ ایک دوسرے پر قتل و غارت گری کے الزامات لگاتے تھے ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈال کر کھڑے ہیں اور عوام حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ سنا ہے ایم کیو ایم کو بارہ مئی کا سال مکمل ہونے پر سندھ حکومت میں انسانی حقوق کی وزارت دے دی گئی ہے؟ گند کو پیشاب سے دھونے کی روایت ہمار یہاں نہ جانے کب ختم ہوگی۔ بہر حال الیکشن کے بعد جن لوگوں نے ماضی کے کرپٹ لوگوں سے امیدیں وابستہ کر لیں تھیں انہیں اب خوش فہمی سے نکل آنا چاہیے۔
جتنے ہمارے حکمران بے حس ہیں اتنی ہی عوام بھی بے حس ہے۔ نائن زیرو پر جا کر جیے الطاف کے نعرے لگانے سے پہلے کم از کم 12 مئی کے ان افراد کو یاد کر لیا جاتا جن میں اکثریت پیپلز پارٹی کے کارکنان کی تھی۔ لیکن حیرتناک بات یہ ہے کہ اس اتنے بڑے “قدم” کے باوجود پی پی کے اندر کوئی آواز نہیں اٹھی اور مجھے یقین ہے کہ 12 مئی کو مرنے والے پی پی کارکنان کے لواحقین اب بھی اسی پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
Leave A Reply