ہمارے خیال میں اس وقت پاکستان ایک خود مختار ملک صرف کاغذات پر ہی ہے عملی طور پر نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان قرضوں میں اتنا ڈوبا ہوا ہے کہ وہ اپنا بجٹ بھی اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتا۔ نہ پاکستان اپنی مرضی سے برآمدات کر سکتا ہے اور نہ درآمدات۔ نہ پاکستان شمالی علاقوں پر بیرونی جمہوری طاقتوں کی بمباری روک سکتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے پاکستانی طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے۔ نہ پاکستان اپنی مرضی سے ڈاکٹر قدیر کو رہا کرسکتا ہے اور نہ پاکستانی غائب شدگان کو واگزار کراسکتا ہے۔ نہ پاکستان مہنگائی پر کنٹرول کرسکتا ہے اور نہ لاقانونیت ختم کر سکتا ہے۔ نہ پاکستان بجلی گھر وقت پر لگا سکتا ہے اور نہ گندم کی سمگلنگ روک سکتا ہے۔ نہ پاکستان عوامی خواہشات کے مطابق اپنا صدر تبدیل کرسکتا ہے اور نہ ججوں کو بحال کرسکتا ہے۔ نہ پاکستان فوج کے تربیتی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ناخواندگی کو ختم کر سکتا ہے۔
اگر ان تمام مسائل پر غور کیا جائے تو ان کے تانے بانے بیرونی جمہوری طاقتوں کے مفادات سے جا ملتے ہیں۔ اب بیرونی جمہوری طاقتوں کے مفادات تب تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک ملک کی اشرافیہ ملک سے غداری کی مرتکب نہ ہو۔ غداری پر اکسانے کیلیے بیرونی جمہوری طاقتیں ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ کبھی وہ مالی لالچ دیتی ہیں اور کبھی جان سے مار دینے کی دھمکی دیتی ہیں۔ وہ کرتا دھرتاؤن کو اس طرح برین واش کرتی ہیں کہ ان کا موت کے بعد کی زندگی پر سے ایمان ہی اٹھ جاتا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہی وقت ہے جو سمیٹنا ہے سمیٹ لو۔ یہ غدار لوگ اپنے پیشروؤں کے عبرت نام انجام سے بھی سبق نہیں سیکھتے اور بلی کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ تصور کرلیتے ہیں کہ جو کچھ پہلے لوگوں کیساتھ ہوا وہ ان کیساتھ نہیں ہو گا کیونکہ فوج، امریکہ اور خدا ان کیساتھ ہے۔
اگر عوام نے اپنے مسائل سے نجات حاصل کرنی ہے اور خود مختار بننا ہے تو پھر ان اشرافیہ یعنی غداروں سے گلو خلاصی کرانی ہو گی۔ اس وقت ملک میں غدار ایک دو نہیں کہ موجودہ صدر کو ہٹانے سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے بلکہ ملک میں غداروں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ موجودہ صدر کے جانے کے بعد اس سے بھی بڑا غدار ان پر مسلط ہو جائے گا۔ فی زمانہ اگر خود مختاری حاصل کرنی ہے تو پھر اسی طرح اشرافیہ سے جان چھڑانی ہوگی جس طرح کراچی میں لوگوں نے چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان سے جان چھڑائی۔
قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے سارے مضمون کو پس پشت ڈال کر ہم پر یہ الزام نہ لگادیں کہ ہم نے چوروں کے جلائے جانے کو جائز قرار دیا ہے بلکہ ہم نے اس طرح کا علاج ملک کے غداروں کو ختم کرنے کیلیے تجویز کیا ہے۔
ملک تب خود مختار ہو گا جب ملک پر ان لوگوں کی حکمرانی ہوگی جو بیرونی جمہوری طاقتوں کی بجائے اپنی طاقت عوام میں تلاش کریں گے اور عوام کے غیض و غضب سے ڈریں گے۔ تب وہ حکمران ملک کے سائنسدانوں، علمائے دین، تجرزیہ نگاروں اور ذہین لوگوں کی ایک کانفرنس بلا کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ملک کے حکمران رائے عامہ سے صلاح مشورہ نہیں کریں گے تو سمجھا جائے گا کہ ان کے مشیر بیرونی جمہوری طاقتوں کے لوگ ہیں جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک بنے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور کسی بھی وقت بیرونی جمہوری طاقتوں کیلیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اب اس طرح کے مثالی حکمران عوام کو تبھی نصیب ہوں گے جب عوام خواب غفلت سے جاگیں گے اور وہ غداروں کا احتساب اسی طرح شروع کردیں گے جس طرح انہوں نے اٹھارہ فرروری کو جنرل مشرف کے ٹولے کو گھر بھیج کر ان کا احتساب کیا۔ تب پاکستان خود مختار ملک ہو گا اور پھر سترہ کروڑ عوام سے کسی بیرونی جمہوری طاقت کو ٹکر لینے کی جرات نہیں ہوگی۔
1 user commented in " خود مختارپاکستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنہ جانے مجھے کیوں گماں ہوتا ہے کے ہم خود ہی اس بات میں سنجیدہ نہیں ہیں۔۔ ہم نے پھر ان ہی لوگوں کو چن چن کر ایوانوں میں پہنچا دیا جن کے جانے کے لیے مسجدوں میں دعائے نجات مانگی گئی تھی۔ پھر دل سے تو کوئی بھی قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا۔۔۔ ملک کا ہر آدمی چاہتا ہے کے اس کے سارے کام بالا ہی بالا ہوجائیں اور اسے کسی پراسیس سے نہ گزرنا پڑے ۔۔ اس صورت حال میں کیسے ان حکمرانوں اور بیرونی آقاؤں سے جان چھوٹے ۔
Leave A Reply