آج جنگ کی ایک تازہ خبر پڑھ کر دل بجھ سا گیا اور ہم سوچنے لگے کہ لٹنے والے بیچارے اور کتنی احتیاط کرتے۔ خبر میں لکھا ہے کہ کراچی کے علاقے گلشن جمال میں سویڈن سے گیارہ سال بعد واپس لوٹنے والا باپ اور اس کے دو بیٹے اپنے گھر کے سامنے بندوق کی نوک پر لوٹ لوٹ لیے گیے۔ ان کے رشتے دار دو گاڑیوں میں انہیں ایئرپورٹ سے واپس لا رہے تھے اور ابھی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ پیچھے سے ڈاکوؤں نے انہیں گھیر لیا اور اسلحے کے زور پر ان سے سامان، نقدی اور تمام سفری کاغذات چھین کر فرار ہو گئے۔
پہلے تو سنتے آئے تھے کہ جب آدمی غیرملک سے واپس لوٹ کر ٹیکسی کرائے پر لیتا ہے تو ٹیکسی ڈرائیور کی ملی بھگت سے راستے میں لوٹ لیا جاتا ہے۔ اس خاندان نے تو احتیاط برتی اور ٹیکسی کرائے پر لینے کی بجائے اپنی گاڑیوں میں سفر کیا۔
اس واردات کے دو ہی پہلو ہو سکتے ہیں۔ یا تو خاندان میں سے کسی نے ڈاکوؤں کو دعوت دی ہو گی۔ اس کا امکان تو کم ہی لگتا ہے مگر ملک میں مہنگائی کو دیکھتے ہوئے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا۔ زیادہ چانسز یہی ہیں کہ ڈاکوؤں نے ان کا ایئرپورٹ سے پیچھا کیا ہو گا اور گھر پہنچتے ہی لوٹ لیا ہو گا۔ اب پاکستان کا ہر آدمی تو پولیس کی سپورٹ لے کر ایئرپورٹ جانے سے رہا اور نہ ہی وہ سیکیورٹی گارڈ کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔ اس صورت میں آدمی کیا کرے۔
اس سے پہلے بھی ہم اس موضوع پر کچھ تجاویز گوش گزار کر چکے ہیں اور یہاں دوبارہ دہراتے ہیں۔ کوشش کریں کہ ٹیکسی کرائے پر مت لیں۔ رات کو اور خاص کر رات کے پچھلے پہر سفر نہ نہ کریں۔ کسی کو اپنی آمد کی اطلاع نہ دیں سوائے ایک آدھ خاص آدمی کے۔ اپنے سفری کاغذات کو الگ سے چھپا کر رکھیں۔ سفر کرتے وقت پیچھے مڑ مڑ کر دیکھیں کہ کوئی آپ کا پیچھا تو نہیں کر رہا۔
ایک دفعہ امریکہ کے ایک اخبار میں ہم نے ایک فوٹو دیکھی تھی جس میں عورت نے ڈاکوؤں سے بچنے کیلیے گاڑی میں ایک نقلی کتا بٹھایا ہوا تھا۔ اس سے ہمیں خیال آیا کہ کیوں ناں ایک آدھ سیکیورٹی گارڈ کی وردی سلوا کر گھر رکھ لی جائے اور جو آپ کو ایئرپورٹ پر لینے آئے وہ وردی پہن کر جائے۔
موجودہ مہنگائی اس قدر تیزی سے بڑھی ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہیں چوروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ نہ ہو جائے۔ اب تو آئے دن ڈکیتی کی وارداتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ اخبار والے بھی ان سب کا حال مختصر طور پر ایک خبر میں چھاپ کر اپنی جان چھڑانے لگے ہیں۔ ویسے میڈیا ان راہزنی کی وارداتوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو راہزنی سے بچنے کی تدابیر بتائے اور حکومت کی اس طرح توجہ دلائے۔
2 users commented in " اب یہاں آدمی کیا کرے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکراچی میں شاہراہیں بہت ہی غیر محفوظ ہوگئی ہیں اور اسکا بڑا سبب پولیس کی نااہلی ہی گرادانا جائے گا۔ جرائم کی روک تھام تو ایک طرف لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا خیال ہے کے پولیس باقاعدہ ان جرائم میں ملوث ہے اور لوٹ کا ایک حصہ پولیس کے حصے میں بھی جاتا ہے ۔۔ دوسری طرف ڈاکوؤں کے پاس تو جدید ترین ہتھیار موجود ہوتے ہیں لیکن پولیس کے پاس جدید سہولتوں کا فقدان اور چند ہزار کی تنخواہ جس کے بدلے کوئی بھی اپنی جان داؤ پر نہیں لگائے گا۔
افففف۔ گیارہ سال بعد۔۔ کیا تحفہ ملا، اپنے ملک سے۔۔ 🙁
ہم جب بھی پاکستان جاتے ہیں، کبھی کسی کو نہیں بتایا۔ سوائے چند ایک لوگوں کے۔ گھر پہنچ کر سب کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی آ گیا ہے۔ اگر ابو اکیلے ہوں تو واپسی پر بھی کسی کو نہیں بتاتے۔
Leave A Reply