وزیراعظم نے بینظیر بھٹو کی ۵۵ ویں سالگرہ پر تمام قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کی سمری صدر مشرف کو بھیج دی ہے۔ وزیراعظم کے اس عمل سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت ختم کر دی جائے گی۔ سزائے موت کے بارے میں دنیا میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق سزائے موت جرائم میں کمی کیلیے ضروری ہے اور دوسری رائے کے مطابق سزائے موت سے جرائم میں کمی نہیں ہوتی۔ یورپ کے بہت سارے ممالک میں سزائے موت نہیں دی جاتی۔ اس کےمقابلے میں پاکستان سمیت مسلم ممالک میں سزائے موت برقرار ہے اور اس کا جواز اسلامی قوانین کو پیش کیا جاتا ہے۔ اسلامی قانون تو آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں زناہ کا جرم بھی ثابت ہونے پر سنگساری کی سزا دی جا سکتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں کئی دھائیوں سے اس سزا پر عمل معطل ہے۔
جو لوگ سزائے موت کی حمایت کرتے ہیں وہ سعودی عرب کی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو وہاں پر قتل کے مجرم کو سرعام موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے اس لیے وہاں پر جرائم کی تعداد بہت کم ہے۔ مگر یہ دلیل دینے والے دوسرے ممالک کو بھول جاتے ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہے مگر جرائم کم نہیں ہوتے۔ اسی طرح امریکہ میں سزائے موت کا اختیار ریاستوں کو حاصل ہے یعنی کچھ ریاستوں میں سزائے موت دی جاتی ہے اور کچھ میں اس پر پابندی ہے۔
دنیا کی انسانی حقوق کی تنظيمیں بھی سزائے موت کے خلاف ہیں اور وہ ہر اس ملک کو سزائے موت ختم کرنے کیلیے کہتی رہتی ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اب امریکہ سمیت یورپ کے تمام عیسائی ممالک اسلامی قوانین کی کھل نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ مسلمان ملکوں پر ان قوانین کو معطل کرنے کیلیے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو سزائے موت کو چھوڑ کر امریکہ اور یورپ میں دوسرے جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ زناہ کی سزا زیادہ سے زیادہ عمر قید ہے۔ یہاں تک کہ جھوٹ بولنے پر بھی کئی سال جیل کاٹنی پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح قتل کی سزا عمر قید ہے اور جج مجرم سے سزا مکمکل ہونے سے پہلے پیرول پر رہائی کا حق بھی چھین سکتا ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس کو قتل کیا گیا کیا اس کا خاندان مجرم کو سزائے موت کی بجائے عمرقید کی سزا کے حق میں ہے۔ کیا کبھی سزا سنانے سے پہلے مقتول کے لواحقین سے رائے لی گئ کہ وہ مجرم کو سزائے موت دینا چاہتے ہیں یا پھر عمرقید۔ اسی سال وکلاء تحریک کے دوران کراچی میں جلائے جانے والوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مرنے والوں کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان میں سے کئی اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے بعد اب لواحقین زندگی کی جن تلخیوں سے گزریں گے کیا وہ مقتولین کو سزا ئے موت دینے کیلیے کافی نہیں ہیں۔ کیا مقتول اور اس کے لواحقین کے ساتھ زیادتی نہیں ہے کہ قاتل کو اس سلوک سے مبرا قرار دے دیا جائے جو اس نے قاتل کیساتھ کیا۔
یورپ اور امریکہ سزائے موت کے مخالف ہیں کیونکہ وہ سزائے موت کی سزا کو ظلم سمجھتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ وہ جو سلوک مبینہ دہشت گردوں کیساتھ کر رہے ہیں کیا وہ ظلم نہیں ہے۔ وہ جو تفتیش کے طریقے استعمال کر رہے ہیں کیا وہ ظلم نہیں ہے۔ اگر سزائے موت ظلم ہے تو پھر عمر قید کیا ہے۔ ایک آدمی کو ساری عمر قید کی کوٹھڑی میں بند کر دینا کیا ان کے نزدیک تفریح ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا میں قوانین نہ ہوتے اور ان پر عمل نہ ہو رہا ہوتا تو یہ دنیا مظالم کا اکھاڑہ ہوتی۔ اس دنیا میں اگر تھوڑا سا سکون ہے تو وہ سزا کے قانون کی وجہ سے ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر انہوں نے زناہ کیا تو وہ ساری عمر جیل میں سڑتے رہیں گے اس لیے وہ زناہ نہیں کرتے۔ اسی طرح دھوکہ، فراڈ، قتل، چوری، ڈاکے ان ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں قانون کی عمل داری ہے۔ دوسری طرف ان ممالک میں جرائم پر قابو نہیں پایا جا رہا جہاں قوانین تو سخت بنائے گئے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جارہا۔
اسلام کا مطالعہ اگر کیا جائے تو اسلامی سزاؤں کی بنیادی وجہ بھی معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہے۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ جس جرم کی سزا سخت ہو گی وہ جرم لوگ کرم کریں گے۔ اس لیے اسلام نے اگر جرائم کی کڑی سزائیں رکھی ہیں تو ان کا مطلب یہ نہیں کہ مجرم پرظلم کیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کو سخت سزا دے کر اسے باقی لوگوں کیلیے عبرت بنا دیا جائے تا کہ وہ جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔
ہم سزائے موت کے حق میں ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مجرم نے جو کچھ دوسرے کیساتھ کیا وہی کچھ اس کیساتھ ہونا چاہیے۔ اگر اس نے قتل کیا تو پھر اسے بھی سزائے موت ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مقتول کے لواحقین مجرم کو معاف کرنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے۔ لواحقین سے مراد مقتول کے انتہائی قریبی عزیز یعنی اس کے ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچے جو اس کی موت کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
25 users commented in " سزائے موت کا قانون "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکسی بھی سزا کے مناسب اثر کے لیے ضروری ہے کے انصاف کے تقاضے کلی طور پر پورے کیے جائیں ۔۔ کئی ممالک میں جہاں سزائے موت کا قانون نافذ ہے انصاف کے تقاضے مناسب طور پورے نہ ہونے کے سبب کئی بے گناہ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔۔ پاکستان اور اس جیسے ملکوں میں جہاں عدالتوں کی صورت حال آپ کے سامنے ہے موت کی سزا سرے سے ہونی نہیں چاہیے ۔۔ کیونکہ اسکا ایک خمیازہ ہم بھٹو کی پھانسی کی شکل میں بگھت چکے ہیں۔۔
جو چیزیں اسلام میں طے ہیں ان پہ مسلمانوں کے نزدیک کوئی بحث نہیں۔ اور طے شدہ امور پہ شک یا تحریف کرنا اسلام سے متصادم ہونے کے مترادف ہے۔ لہٰذاہ ایسے امور پہ بہت سوچ سمجھ کر رائے دینی چاہیے – کہ مبادا یومِ قیامت ہم اللہ سبحانہُ تعالٰی کے حضور شرمندہ ہوں – اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے- اور جسطرع اسلام چودہ صدیوں سے آج تک ہر قسم کے حالات اور مسائل کا حل پیش کرتا آیا ہے اسی طرع اسلام رہتی دنیا تک ہر مسئلے کا حل پیش کرے گا کیونکہ یہ آخری دین ہے یہ آخری الہامی مذہب ہے۔ قرآنِ کریم آخری الہامی کتاب جو ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے اور چونکہ اس کے بعد کوئی الہامی کتاب، نا کوئی الہامی مذھب اور نا ہی کوئی پیغمبر آئے گا – اس لئے اسلام تمام عالمِ کائنات کے لئے رہتی دنیا تک رشدو ہدایت کا ذریعہ ہے –
سزائے موت اسلامی تعزیزات میں سنگین ترین حدود میں سے ایک حد ہے جو ظاہر ہے سنگین ترین جرائم پ ہ ہی لاگو ہوتی ہے – جیسے قتل ، ارتداد ، غداری (ملک وملت سے) وغیرہ کی سنگین ترین سزا موت ہے – کسی بھی مسلمان کی اسلامی حددود پہ دو رائے نہیں ہو سکتیں – یہ سزائیں نا صرف قرآنِ کریم سے ثابت ہیں بلکہ ظالم و قاتل کے لیئے گرد ن زنی کا مطالبہ کیا گیا ہے – ظالم و قاتل کتنے ہی اثرو رسوخ کا مالک اور مظلوم خواہ کتنا ہی بے نوا کیوں نا ہو ۔ ریاست یا نظام پہ فرض ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی کرے اور ظالم کو قرارِواقعی سزا دے اور قتل کی صورت میں یہ سزا قاتل کی گردن زنی ہے –
خیر اندیش
جاوید گوندل ، بآرسیلونا۔اسپین
سزائے موت اسلامی تعزیزات میں سنگین ترین حدود میں سے ایک حد ہے جو ظاہر ہے سنگین ترین جرائم پ ہ ہی لاگو ہوتی ہے – جیسے ۔۔۔۔ ارتداد
kiyya aisa mazhab insaanee kehla sakta hai ju irtidad kee saza qatal deta hai?…yaqeenana aisa mazhab insaanoon kay leeay nahain hai…
mauzoo pay wapis aatay hui…agar sazaoon kee sakhtee kee wajah say jaraim kam hotay tu canada aur scandanavian mulkoon main jaraim amreeka say ziada honay chaheeain kionkay amreeka main abhee bhee qatal kee saza dee jaatee hai…
عمیر صاحب
آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمارے مذہب اور اس کے قوانین کا مزاق نہ اڑائیں۔ چونکہ ہم مسلمان ہیںاور اگر آپ اسلام کا مذاق اڑائیںگے تو اس سے ہماری بھی دل آزاری ہو گی اور دوسرے مسلمان اور اصول پسند قارئین کی بھی۔
اس دفعہ ہم آپ کے تبصرے میں سے اسلام پر تنقید حذف نہیںکر رہے لیکن اگر آپ نے ہماری دل آزاری جاری رکھی تو پھر ہمیںآپ کے تبصرے یا تو حذف کرنے پڑیںگے یا پھر ان کی کانٹ چھانٹکرنی پڑا کرے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی نظام برا نہیںہوتا صرف اس کو معاشرے پر لاگو غلط کیا جاتا ہے۔
رہی بات کینیڈا اور امریکہ میںجرائم کے فرق کی تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور جرائم پر سخت سزا ان میںسے ایک ہے۔ کینیڈا میںآپ الزام سے بری ہونے کیلیے نہ جج خرید سکتے ہیں اور نہ پولیس کو رشوت دے سکتے ہیں۔ یہی ان کی کامیابی ہے۔
راشد صاحب کی بات درست ہے اگر قوانین پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے تو جرائم میںکمی آسکتی ہے اور یہی اصول کینیڈا اور دوسرے سکینڈینیوین ملکوں نے اپنایا ہوا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا مذہب بھی معاشرے میں انصاف کی تاکید کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ موجودہ نام کے مسلمان کٹھ پتلی حکمران اسلام کے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کیلیے اس پر عمل نہیں کر رہے۔
جاوئد گوندل صاحب،
سلام،
ماشآللھ، بہت اجھا لکھا ہے آپنے۔
مرتد کی سزا موت بلکل صحئح ھے۔
Yahee insaniat hai, isko naa mann-naa hewaniat hai. Insan ko aqal kis ney de hai? Bhi aur behn kai darmain jinsee taluq ko kis nai ghalat qarar diaa hai۔?
Beshak Allah nai, Allah kai Qawaneen ko naa mann-na hewaniat hai.
Choree aur zinaa ko jaiz karkey, statistics to kam ho saktee hai,pr jurm jurm hee raheyga.
آللھم آعزالاسلام ولمسلمین۔
afzal sahib aap bray shoq say meray tabsaray hazaf karain lekin yeah batain keh kiyya aap ku nahain pata keah civil liberties kiyya hotee hain aur kiyya app nahain dekhtay keh amreeka main jahan aap roz musalmaan tabligh kar rahay hain aur murtad kar rahay hain lekin na murtad honay waloon kee nakseer phootee na murtad karnay waloon kee. ub yeah bhee batain keah agar aap ka mazhab wu civil liberties doosroon ku provide nahain karta ju aap amreeka main aik aqleeyat kee haisiyat say demand kartay hain tu app ka mazhab primitve idealogy na hua tu kiyya hua?
ub zara mujhay samjha bhee dain keh aik taraf aap ubnay mazhab ku maghrabee system say behtar kehtay hain aur phir murtad kee saza qatal jesee batain bhee kartay hain..yeah mazhaka khaiz do-aamlee aap ku nazar nahain aatee?
مرتد کی سزا موت بلکل صحئح ھے۔
bilkul tekh …isee leeay arz kiyya hai keh yeah mazhab insanoon kay leeay nahain…
doosree baat ju is say sabat hotee hai keh jab tak is idealogy ku khatam nahain kiyya jata ju insaan kay bunyadee huqooq bashamool mazhabhee azadee aur mazhab kee tabdeelee kay haq kay par hamla karatee hai, us waqt tak dunyaa main chain nahaian aa sakta.
tu phir Bush sahib tekh hee kehtay hain key inkee jang dehshatgardoon kay khilaaf hai kioonkay kisee shaks ku apnee mazhabee azadee kay haq
ku istemaal karanay pay qatal kara dena dehshatgardee hee hai
ub hona yeah chaheey keh magharbee mumaalak aur India, china wagera main musalmanoon kee conversion pay pabandee laga denee chaheey aur agar koi musalmaan hu tu us ko bhee qatal kiyya jaaay aur us muslim convert ku tabligh karnay walay ku bhee saza dee ja. phir dekhay gain afzal sahib yahan post main is amal kee kitnee taaeed kartay hain.
munaafqat kee had hai
isee leeay dunyaa ap ku pasand nahain kartee…apnay leeay tu mukamal haqqoq maangtay hain aur doosroon ku koi haqooq denay pay tiyyar nahain…herut hai keah is taraqee yaafta aur media kay door main bhee aap samajhtay hain keah you can get away with this double standard..
afzal sahib yeah baat appkee personal values pay bhee reflect hotee hai..agar aap yaqeen rakhtay hain keah murtad ku qatal karna chaheeay tu aap dehshatgard hain aur amreeka main rehnay aur iskee civil liberties say faida uthaanay ka haq nahain rakhtay…agar aap is pay yaqeen nahain rakhtay tu yeah mazhab chore kar koi pur-aman mazhab jesay bhudh mazhab kiyyoon nahain apna letay?
kiyya aisa mazhab insaanee kehla sakta hai ju irtidad kee saza qatal deta hai?…
Umair
آپ کے یہ الفاظ ُ کیا ایسا مذہب انسانی ہوسکتا ہے جو ارتداد کی سزا قتل دیتاہے؟،
آپ نام کچھ بھی رکھ لیں عمر، عمیر، یا زید بکر ۔ کیونکہ آپ نے دوسرے الفاظ میں اسلام کو معاذاللہ ُغیر انسانی مذ ھب ، کہہ کر جہاں ھماری اور باقی مسلمان قارئین اکرام کی توھین برائےذاتی تسکین کی ہے۔ وہیں آپ کے اصل مقاصد کی نشاندھی ہوتی ہے ۔ ایک مسلمان جسکا ذہن خواہ کتنا ہی پراگندہ اور کینفیوز ہی کیوں نا ہوں وہ ایسی رائے سرَعام دینے سے اجتناب کرتا ہے – المختصر یہ طرزَ تکلم کم از کم ایک مسلمان کا نہیں ہو سکتا۔
اسلام میں ارتداد کی سزا قتل اس لئے بھی ھے کہ ارتداد سے فتنہ پھیلنے اور فسادِ خلقِ خدا کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئیے اسلام فتنہ کو جڑ ہی سے کاٹنے کا حکم دیتا ہے تاکہ طالع آزماؤں ( بد قسمتی سے جو ھمیشہ پائے جاتے ہیں) کی حوصلہ شکنی ہو سکے ۔ اسلام منافقت کے سخت خلاف ہے اور ہر بارے میں اسلام کے واضح احکامات ہیں ۔
ایک عرصے سے کچھ مخصوص غیر اسلامی مذاھب اور این جی اوز اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اسلام اور اسلامی شعائر کے بارے میں شکوک شبہات کو ایک مہم کے تحت سوچے سمجھے منصوبے کیساتھ آگے بڑہا رہے ہیں جسکے دو بڑے مقاصد درج ذیل ھیں۔
اؤل ۔اسلام اور مسلمانوں کو جہاں اور جس حد تک ہو سکے بدنام کیا جاسکے تاکہ اسلام کےعین دین فطرت ہونے کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہوتے لوگ اسلام کے بارے میں جستجو کرنا چھوڑ دیں ۔ اور دنیا میں خاصکر غیر اسلامی معاشروں میں اسلام کے نور کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔
دوئم۔ غیر حقیقی قسم کے شکوک وشبہات اور سیاق و سباق سے ہٹ کر اسلام کے خلاف مخصوص موضوعات جو اسلام کے بارے میں بوجوہ کم علم رکھنے والے مسلمان نوجوانوں کے علم میں نہیں ہوتے۔ کے ذرئیعے نوجوانانِ اسلام کو اپنے مسلمان ہونے پہ فخر کرنے کی بجائے الٹا نوجوانوں کو اپنے مذھب اسلام سے اور مسلمان ہونے پہ انکی کم علمی کی وجہ سے معذرت خواہانہ رویہ اپنانے پہ مجبور کیا جائے ۔ جسمیں پاکستان سے قادیانی جنہیں عرفِ عام میں مرزائی اور احمدی بھی کہا جاتا ہے ۔ پیش پیش ہیں ۔لہٰذاہ عمیر صاحب آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہم مسلمان اس مکروہ کھیل کو بخوبی سمجھتے ہیں اور انشاء اللہ اسکے ازالے کے لئیے اسلام کا سچا دین ہونا ہی ھمارے لئے کافی ہے
دیکھنے میں یہ آرہا ہے کے بحث کے اصل موضوع یعنی سزائے موت کے قانون کے مثبت اور منفی پہلوؤ کی نشاندہی کے بجائے رخ کسی اور طرف ہی ہے ۔ فیشن کے طور پر اسلام کو جانے بنا برا بھلا کہنا آج کل کافی محبوب مشغلہ ہے جس کا مقصد ہی اصل موضوع سے توجہ ہٹانا ہے۔ اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لیے پہلے معاشرے کا اسلامی ہونا بھی ضروری ہے۔۔ یہاں توجہ طلب پہلو سزائے موت کے قانون کی موجودہ شکل، اسکا استعمال اور قانونی تقاضے ہیں۔۔ یہاں مذاہب میں موت کے قانون کا مسئلہ زیر بحث ہی نہیں۔۔
ایک عرصے سے کچھ مخصوص غیر اسلامی مذاھب اور این جی اوز اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اسلام اور اسلامی شعائر کے بارے میں شکوک شبہات کو ایک مہم کے تحت سوچے سمجھے منصوبے کیساتھ آگے بڑہا رہے ہیں جسکے دو بڑے مقاصد درج ذیل ھیں۔
kisee ku aapkay mazhab ku badnaam karnay kee zaroorat nahain..aap khud yeah kaam behtareen tareeqay say kar rahay hain…in dark ages kay beliefs kay saath dunyaa main kio bhee aap kay mazhab ku pasand karta hu tu barah-e-meharbanee mujhay bata deejeeay ga
yanee saree dunyaa pagal hai ju mazhabhee azadee ku tasleem kartee hai aur aap jesay pismaanda nazriyyat kay log tekh hain…is kisam kee samajh pay afsoos hee kiyya ja sakta hai…jis din spain main aapkay mazhab pay pabandee lagay gee, aapko mazhabee azadee kee ehmiyyat ka pata lag jai ga.
lekin jis shaks ku danday kha kay aqal aai wu insaan kiyya hua aur ju apnay mazhab kee wajah say ghair insaanee nazriyyat ka parchaar karay wu mazhab insasnoon kay leeay kis tara hua?
جسکے دو بڑے مقاصد درج ذیل ھیں۔
maqsad siraf yeah hai keh aap logon ku bhee aqal aajai aur aap bhee civilised tareeqay apnain taqay dunyaa main conflict ku kam kiyya ja sakay lekin aap farmaatay hain keah aap jis ku chaahain qatal kardain…yeah tu dunyaa kee iksariyyat ju musalmaan nahain hai ku qabool nahain hoga…mazhab aapka aur marain dossray, kiyyon? is ka matlab hai keah aap kay in ishtiaal angaiz aqaaid kee bina pay conflict abhee jaaree rahay ga
aur kam say kam is maamlay main qasoor sarasar aapkay mazhabhee aqaid ka hai ju doosoroon ku wu haqooq denay pay tiyyar nahian ju haqooq wu dooosron say demand kartay hain.
goood luck with these double standards, no one likes hypocrites.
اسلامی سزاؤں کے نفاذ کے لیے پہلے معاشرے کا اسلامی ہونا بھی ضروری ہے۔
baat yeah nahan balkay yeah keah yeah islami saza ‘murtad kee saza qatal’ hai hee galt aur na-insaafee pay mabnee. jab koi aapko tableegh karanay aur degar mazahab say irtedddad karaanay pay koi saza nahain deta balkay iskee khulee azadee hai aur isay aapka bunyadee haq tasleem kiyya jaata hai, kuja yeah keah aapkay qatal karay tu phir aap kis tara logon ku is bunyadee mazhabee haq kay istimaal karnay pay koi saza day saktay hain? saabat hua keah aap ka mazhab na-insaafee ka hukum deta hai…masla yeah hai keah baqi dunyaa tadaad main bhee app say ziada hai aur taaqat main bheee.. aap kis tara is yaktarfa aqeeday ku implement kar sakain gay…mujhay kuch idea nahain…
ھماری اور باقی مسلمان قارئین اکرام کی توھین
aur aap ju dosroon kay qatal kay fatway jaree kar rahay hain…tu in logon kee tuheen ka kiyya bana?
lagta hay sab kee tuheen aur un ku qatal karnay ka license siraf aap kay pass hee hai…
اسلام میں ارتداد کی سزا قتل اس لئے بھی ھے کہ ارتداد سے فتنہ پھیلنے اور فسادِ خلقِ خدا کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئیے اسلام فتنہ کو جڑ ہی سے کاٹنے کا حکم دیتا ہے
yanee spain main aapku tabligh karnay aur logon ku degar mazahab say islam kee taraf laanay pay, fitna ka ilzaam laga kay qatal kar diyya jai tu tekh hai?
ju assool aap doosroon pay laga rahay hain wu app pay bhee lgana chaheeay
tekh hai na?
yeah tu dunyaa kee iksariyyat ju musalmaan nahain hai ku qabool nahain hoga…mazhab aapka aur marain dossray,؟
ُُ ُیہ تو دنیا کی اکثریت جو مسلمان نہیں ہے کو قبول نہیں ھوگا ۔۔ مذھب آپکا اور مریں دوسرے“
آپ کے مندرجہ بالا الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ارتداد کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ۔ آپکے ُ اشادات، سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی اسلام کے بارے میں معلومات انتہائی واجبی سی اور بدقسمتی سے بغض پہ مبنی ہیں ۔ اے ھے – آخر پکڑے گئے
آپ کے مندرجہ بالا الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ارتداد کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ۔ آپکے ُ اشادات، سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی اسلام کے بارے میں معلومات انتہائی واجبی سی
tu aap bata deejeeay, masla kiyya hai samjhaanay main, lekin agar aap aisa asool lekar aai ju upnay leeay kuch aur doosroon kay leeay kuch jesa keah app kee aoopar kee guftagoo say zahir hai tu yeah dunyaa ku kabool nahain.
aur yeah aik bachgaana zid say ziada kuch nahain keah dunyaa kee 5 billion abaadee aap kay yaktarfa asooloon ku tasleem karay,…ya tu sab logoon ku tabligh karnay ka haq hai ya kisee ku nahain…kiyoon kay sab log barabar hain aur aik level playing field kay barabar haq rakhtay hain
آپ تو کل کو کہیں گے برابری کے اصولوں کی بنیاد پہ مسلمان باقی دنیا کو حج وغیرہ میں بھی شامل کریں اور آپ کی سو کال امریکن سول سوسائٹی کے نظریہِ آزادی کے پیش نظر باقی دنیا کو ھم جنس پرستی وغیرہ میں بھی شامل ھونا چاہیے –
آپکی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسپین میں عیسائیت کے علاوہ اسلام بھی تسلیم شدہ مذھب ہے ہمارے جاننے والوں کی اکثریت غیر مسلموں کی ہے نا ہمیں ان پہ کوئی اعتراض ہے اور نا انھیں ہمارے مسلمان ہونے پہ کوئی اعتراض ہے ۔ بلکہ ھمارے تعلقات و مراسم کافی اچھے ہیں ۔ اور ہم ایک دوسرے کے عقائد کی عزت اور احترام کرتے ہیں اور لگ بھگ یہی صورتحال باقی مسلمان لوگوں کی بلکہ مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کی اکثریت کی ہے ۔طرفِ تماشہ ہے آپ کو کچھ علم نہیں اور آپ سب مسلمانوں کو امریکہ اور باقی ساری دنیا کی ُ تڑی، لگاتے پھر رہے ہیں ۔آپ نے ارتداد کے بارے میں سنی سنائی باتوں کو اسلام میں مرتد اور ارتداد کے بارے میں کل علم سمجھا ہے – جبکہ غیر مسلم ممالک اور انکے عوام بھی اسلام میں ارتداد کی سزا کے پیچھے فلسفے کوبخوبی سمجھتے ہیں اور انھیں کو ئی اعتراض نہیں کیونکہ اسلام میں تعزیزات کا پیچھے تعصب نہیں بلکہ معاشرے اور عوام کے بہتری مقصود ہے ۔ اس لئیے آپ جیسے متعصب اور بغض پر مبنی تاویلات گھڑنے والے لوگوں کو چھوڑ کر اسلام کے بارے میں علم رکھنے والے باقی غیر مسلم لوگوں کو اسلامی تعزیزات بشمول مرتد کی سزا کوئی اعتراض اور تکلیف نہیں ۔اور نا ہی مسلمان آپکے ارشادات سے متاثر ہونے والے ہیں اسلئیے آپ ناحق زحمت اُٹھا رہے ہیں اور اپنے اور ہمارے وقت کا ضیاع کر رہے ہیں ۔
tu aap bata deejeeay, masla kiyya hai samjhaanay main
عمیر صاحب اسلام الہامی حقیقت ہے ۔ اسلام عالمگیر مذہب ہے اور میں الحمداللہ مسلمان ھوں اور مجھے اپنے مسلمان کہلوانے پہ فخر ہے اسی طرع اگر آپ اسلام میں ارتداد کے فتنے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی حقیقت واضح کریں کہ آپ کون ہیں؟ آپکا مذھب کونسا ہے؟ اور کیا آپکو بھی آپ کے مذھب پہ فخر ہے؟اور آپ مرتد مردود اور ارتداد کی سزا کے بارے میں برائے علم نا کہ برائے تعصب جاننا چاہ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر آپکو اپنے مذھب پہ فخر ہوتا تو آپ برسرِ عام اسکا اعتراف کرتے اور عمیر کے پردے کے پیچھے چھپ کر پتھر پھینک کر ھاتھ مت چھپاتے ۔ اسکا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے مذھب پہ یقین نہیں جبکہ مسلمانوں کو اپنے مذھب پہ یقین ہے اور انھیں کسی دوسرے مذھب کے پردے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں ۔۔ کہ ھمارے مذھب میں اسے سازش اور کھل کر سامنے نا آنے والے کو منافق کہتے ہیں ۔اور منافقوں سے معاملات کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ۔اسلئیے اب آپ سے مکالمہ اسوقت تک نہیں ھوگا جب تک آپ اپنی حقیقت بیان نہیں کرتے
جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔اسپین
جاوید گوندل بھای،
انھین کچھ سمجھ نھئن ایگا۔
انھین کھتے ھئی کالے انگریز۔
قصور انکا بھی نھین ھے۔
مان باپ نے توجھ ھی نھ دے، اب اس اھساس کمتری کا کیا کرین، کےسے توجھ حاصل کرےن؟
fida کا تبصرہ25th June, 2008 میں جاوئد گوندل صاحب،
سلام،
ماشآللھ، بہت اجھا لکھا ہے آپنے۔
آریف کا تبصرہ25th June, 2008 میں جاوید گوندل بھای،
انھین کچھ سمجھ نھئن ایگا۔
انھین کھتے ھئی کالے انگریز۔
قصور انکا بھی نھین ھے۔
مان باپ نے توجھ ھی نھ دے، اب اس اھساس کمتری کا کیا کرین، کےسے توجھ حاصل کرےن؟
میں فدا بھائی اور آر ایف بھائی دونوں اور باقی سب کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مری حقیر سی کوشش پہ توجہ دی ۔
اللہ آپکو خوش رکھے ۔
یہاں امریکہ ، کنیڈا اور سکینڈے نیوبن ممالک کا موازنہ کیا گیا ہے اور امریکہ میں سزائے موت ہونے کے باوجود جرائم کی شرح بلند اور دیگر ممالک سزائے موت نا ہونے کے باوجود نسبتََا کم بتائی گئی ہے ۔ جبکہ میری ذاتی رائے میں اسمیں سزائے موت ہونے یا نا ھونے کی بجائے کچھ دوسرے اور انتہائی اہم عوامل کا ھاتھ ہے -امریکہ بہت بڑا ملک ہے اورامریکہ کی ترقی کی بنیاد کمزورں کے استحصال پہ کھڑی کی گئی ہے ۔ جسمیں ریڈ انڈینز کا قتلِ عام ۔افریقن لوگوں کو غلام بنانا۔ اندھا سرمایہ دار نظام وغیرہ نے قسم قسم کے احساسِ محرومی میں مبتلا محروم طبقے کو پیدا کیا ہے اسمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کے محروم پائے جاتے ہیں۔ جو کبھی بھی کسی وقت بھی اپنی محرومی کا ادھار چکانے پہ تیار ہو جاتے ہیں ۔ دوسری بڑی وجہ مقدمات کا کئی کئی سال چلتے رہنا اور عامتہ الناس کو موت کی سزا پہ اصل جرم اور جرم کی سنگینی بھول چکی ہوتی ہے اور اس سے عبرت کا سامان نہیں بنتا۔ایک تیسری بڑی وجہ امریکہ میں نظام انصاف کی بنیاد اخلاقی کی بجائے مادی ہونا بھی شامل ہے جیسا کہ مثال کی طور پہ اسلام میں تعزیزات کی بنیاد نیکی اور بدی، شر اور شرافت ، حق اور باطل، جائز اور نا جائز پہ رکھی گئی ہے ۔ جبکہ امریکہ بقدرِ ضرورت قانون میں تبدیلی کر لی جاتی ہے جسطرع جوئے خانے اور ہم جنسی کو فطری تقاضوں کے خلاف نا صرف جائز تسلیم کرنا بلکہ ممکنہ حد تک آزادی بھی مہیا کرنا ہے – اخلاقی بے ہودگی کی ترغیب و تحریص اور اسکے لئیے ہر قسم کے مراکز قائم کرنے کی اجازت ۔اسکی پبلسٹی اور نتیجے میں کمائے گئے اندھے سرمایے کا مکمل تحفظ اور صاحبِ سرمایہ کو عزت مآب سلوک ۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کی اجازت اور مقررہ ٹیکس ادا کر کے کیا جائے -اس صورت میں جائز ہے ورنہ ناجائز ۔ عجب منطق ہے یعنی اگر کسی کے خلاف جوآ کھیلنے اور کھیلانے کے خلاف ریاست حرکت میں آتی ہے تو اجازت ہونے نا ہونے کی وجہ سے کہ اجازت کی بنیاد ٹیکس وغیرہ پہ ہے یعنی جواء کھیلنے کھیلانے سے روکنے کے لیے ریاست کے قانونی اداروں کے حرکت میں آنے کی وجہ نیکی و بدی قطعاََ نہیں ۔ تو عام آدمی سے محض اخلاقی قوت یا قوتِ ایمانی کے بل بوتے پہ کس طرع توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ موقع ملنے پہ جرائم سے باز رہے؟ ۔اسکے علاوہ بھی کئی وجوھات ہیں بہر حال ہر صورت میں یہ میری ذاتی رائے ہے۔
واپس اصل موضوع پہ لوٹتے ہوئے مجھے یہ کہنا ہے کہ اسلام میں سخت سزاؤں کے لاگو کرنے کا تصور جرائم کی انتہائی حالتوں پہ ہے مثلاََ زنا کے لئیے انتہائی سزا کے لئیے چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے جنہوں نے زنا ہوتے دیکھا ہو اور گواہان بھی مستند لوگ ہوں ظاہر ہے کسی پہ ناجائز تہمت لگانا بھی جرم ہے اور کسی کو اسطرع نا جائز طور پہ سزا دلوانا انتہائی سنگدلی ہے اور بیک وقت چار گواہوں کا جھوٹ بولنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اور پھر قاضی کسی نتیجے پہ پہنچنے کے لئیے اپنی فہم و فراست سے بھی کام لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے باوجود بھی اگر زنا ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ زانی نے کم ازکم چار لوگوں کو اپنے جرم کی شہادت مہیا کی تو اسطرع زانی نا صرف شرعی مجرم ٹہرا بلکہ اس کے اس عمل پہ اگر قرارِواقعی سزا نا دی جائے تو فسادِ خلقِ خدا کا اندیشہ ہوتا ہے اور زنا جیسے عمل کی ترغیب ملتی ہے اسلیے اس کے عبرتناک سزا تجویز کی گئی ہے ۔ اسی طرع دوسری سزاؤں کا معاملہ ہے ۔ اسلامی فلاحی ریاست میں سزاکا بنیادی فلسفہ انصاف اور عبرت پہ مبنی ہے تا کہ مظلوم کو انصاف ملے اور جرائم کی روک تھام ہو ۔ اور اس لئیے بھی اسلام میں فوری انصاف کا حکم ہے اور اسمیں کمزور یا طاقتور ، عربی یا عجمی ، مسلم یا غیر مسلم کی تمیز نہیں سب کو انصاف مہیا کرنے کے لئیے برابر کا حکم ہے-
مغرب سے متاثر کچھ احباب قتل کے بدلے گردن زنی کو درست تصور نہیں کرتے ان سے گذارش ہے کہ وہ کبھی مقتول کے مظلوم لواحقین کی اس بارے میں رائے بھی جاننے کی کوشش کریں کہ انکی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ مقتول کے قتل پہ سب سے پہلے متاثرین میں مقتول کے لواحقین شامل ہیں اور یہ تو کوئی انصاف نہیں کہ متاثر فریق کو سنا ھی نا جائے ۔ اسکے باوجود قتل جیسے سنگین جرم پہ بھی اسلام مقتول کے وارثوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ قاتل سے خون بہا کے بدلے قاتل کو معاف کردیں ۔یا کسی بھی صورت معاف نا کرین تو یہ انکی مرضی ہے اسلام بہر حال معاف کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام میں فوری انصاف کا تقاضے کے پیشِ نظر انصاف ہوتا ھوا نظر آنا بھی ہے کہ عوام عبرت اور انصاف کے ساتھ ساتھ ریاست کہ نظامِ انصاف پہ یقین رکھیں اور ظلم کا بدلہ خود چکانے سے گریز کریں کہ اس سے فتنہ بڑھنے کا امکان رہتا ہے اور ریاست کے استحکام اور رٹ پہ حرف آتا ہے۔
قتل کی صورت میں مقتول کے وارث اگر قاتل کو معاف کرنے پہ تیار نا ہوں تو قاتل کو فوری سزا دے دی جاتی ہے تا کہ مقتول کے لواحقین کو صبر آجائےاور انتقام در انتقام کی سماجی لعنت کا سدِباب ہو سکے – اور قاتل کے لواحقین ماں باپ اور خاصکر بیوی بچے بھی سال دو سال رو دھو کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکیں کہ لمبے مقدمات اور بعد از بسیار عمر قید وغیرہ کیصورت میں جہاں قاتل تو بھگتا ہی ہے ۔ وہیں قاتل کے لواحقین بھی مقدمات کے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ خاوند اور باپ کے ہوتے ھوئے بھی انکا باپ یا خاوند نہیں ہوتا اور قاتل کی بیوی اور بچے ہونے کی چھاپ ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ بیوی دوسری شادی نہیں کر سکتی – اور بچوں کو نئے نام سے نئی زندگی نہیں ملتی جو مذید سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے- ہو سکتا ہے کہ کچھ احباب کو میری یہ بات بہت گراں گزرے مگر اسلام انسانی فطرت کو سمجھتا ہے اور اسکے مطابق فیصلہ دیتا ہے خواہ آپ کو یا مجھے اچھا یا برا لگے –
جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔اسپین
جاوید صاحب آپ کو تبصرہ کے بجائے خود بلاگ لکھنا چاہیے۔۔ لیکن یہ چار مستند گواہوں کی بات میری سمجھ سے بالا تر ہے ۔۔ چار مستند گواہوں کی موجودگی میں زناء سمجھ میں نہ آنے والی منطق ہے ۔۔ چار مستند گواہ زنا ہوتے کیا دیکھتے رہیں گے ؟
راشد کامران صاحب!
آپ نے ایک اہم بات یاد دلائی ہے- کامران صاحب مستند گواہوں سے مراد مستند طور پہ شرفاء میں سے گواہ جو بجائے خود شرعی عیوب سے پاک ہوں – جن کی گواہی پہ یقین کیا جاسکتاہو۔ ایک بات نوٹ کی ہو گی کہ دنیا بھر کے تقریباََ عدالتی نظاموں میں گواہ کے معیار کے لئیے کچھ نا کچھ شرائط ہوتی کہ گواہ غلط بیانی نا کرتا ہو یا دروغ گو وغیرہ نا ہو یا اسکی دماغی صحت درست یااسکی مدعا علیہ سے ذاتی پرکاش نا ہو ۔ وغیرہ وغیرہ۔
اور جیسا کہ آپ نے سب سے پہلے شروع میں رائے دیتے ہوئے لکھا ہے ُُ ُ کسی بھی سزا کے مناسب اثر کے لیے ضروری ہے کے انصاف کے تقاضے کلی طور پر پورے کیے جائیں ۔۔ کئی ممالک میں جہاں سزائے موت کا قانون نافذ ہے انصاف کے تقاضے مناسب طور پورے نہ ہونے کے سبب کئی بے گناہ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔۔ ،، اس لئیے بے گناہ لوگوں کو یا زنا کا ارتکاب کئیے بغیر کسی کو زنا کی سنگین ترین سزا نا دلوانے کے لئیے چار گواہوں کی شرط ہے کہ وہ گواہی دیں کہ انہوں نے زنا ہوتے دیکھا اور پھر قاضی کا بھی اپنا ایک رول ہے ۔ اور یہ ان صورتوں میں جب کسی پہ زنا کی تہمت دھر دی جائے جیسا کہ عموماََ بد قسمتی جاہل معاشروں میں ہوتا ہے تب گواہوں کی شرط ہے ۔ زنا کے بارے میں یہ کہ جب تک اس کا ارتکاب نا ہو اس کی سزا نہیں دی جاسکتی صرف کسی کو اکھٹےدیکھ لینے یا ملتی ملاتے دیکھ لینے وغیرہ کا مطلب زنا نہیں ہے ایسی صورت میں تعزیزات میں نرمی ہے ۔ جسطرع چوری وغیرہ پہ انتہائی حد کے لئیے بھی کچھ شرائط کہ سامانِ مسروقہ کھانے پینے کے لئیے نا ہو ۔ جانورں کے لئیے چارہ وغیر نا ھو ۔ جلانے کےلئے استعمال ہونے والے درخت وغیرہ نا ھوں مقصد انتہائی اہم بنیادی ضروریات سے متعلقہ اشیاء نا ھوں ۔ اور سامانِ مسروقہ تالے میں ہو یا پھر اس پہ کسی طرع کی نگرانی ہو ۔ یا واضح ہو کہ کسی کی ملکیت ہے ۔ رستے میں گرا پڑا نا ھو وغیرہ وغیرہ ایسی صورتوں پہ حد جاری نہیں ہوتی اور کچھ سزا نہیں اور کچھ صورتوں میں نسبتاََ بہت ھی کم نوعیت کی سزائیں ہیں۔ اوراس لئیے زانی پہ حد جاری کرنے کے لئیے چار گواہوں کی مصدقہ شہادت کی منطق لازم ہے ۔اب یہ الگ بحث کہ بد دیانت ریاستی اعمال اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مفادات کی خاطر بے گناہ مخالفین پہ کوئی بھی جرم عائد کر کے حد جاری کردیں ۔ اس میں حدود تعزیزات کا قصور نہیں بلکہ نظام( سسٹم) کی خرابی کا قصور ہے اور اسلام سے بغض رکھنے والے لوگ ایسا موقع ھاتھ سے نہیں جانے دیتے اور تنقید برائے تنقید کیے چلے جاتے ہیں-
نوٹ۔: ہر صورت میں یہ میری ذاتی معلومات ہیں۔ میں نا تو دینی علوم کا عالم ۔ نا دینی اسکالر ہوں ۔اس لئیے ضروری ہے کہ غلطی اور اصلاح کی گنجائش پہ کسی مستند ادارے یا دینی عالم سے رائے لی جائے۔
آپ نے بلاگ لکھنے کی بات بھی خوب کہی ۔ ماشاءاللہ اردو میں بہت سے لوگ آپ کی طرع یہ ذمہ داری بہ احسن طریقے سے نباہ رہے ہیں۔ کبھی کبھار آپ کے بلاگ کی سیر کر لیتا ہوں۔ بلاگ لکھنا ایک خاطر خواہ ذمہ داری ہے ۔ جس کے لئیے میں اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اپنے آپ کو اھل نہیں پاتا۔ البتہ مجھے شاعری میں دلچسپی ہے –
Leave A Reply