عیاشي کرنا گھر کے اثاثے بیچ کر
یہ خاندان کی تباہ کاری ہے
اغیار کو قومی ادارے نیلام کرنا
حکومت کیلیے یہی نج کاری ہے
ہم شروع سے ایسی نج کاری کیخلاف رہے ہیں جس کی وجہ سے غیر ہمارے قومی اداروں پر قابض ہو جائیں اور جب چاہے ہمارا حقہ پانی بند کردیں۔ یہی طریقہ یہودیوں نے اختیار کرکے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی شہ رگ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ترکی کے بنک اور میڈیا یہودیوں کے قبضے میں ہیں۔ اسی طرح امریکہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک میں یہودی ان کی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں۔ اب یہی طریقہ اپنا کر شاید وہ پاکستان کی معیشت پر قبضہ کر رہے ہیں۔
سابقہ حکومت نے اپنے جن ذرمبادلہ کے ذخائر کا رعب جمائے رکھا وہ سب اسی نج کاری کا شاخسانہ تھا۔ یعنی اپنی صنعتیں بیچ بیچ کر وہ مصنوعی طور پر جمع کئے گئے ذرمبادلہ کا واویلہ مچاتے رہے۔ جونہی نج کاری کا سرمایہ آنا بند ہوا ہمارے ذرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگے۔ اس نج کاری سے ملک کو جو نقصان ہوا اس کے بدلے نج کاری کرنے والوں نے خوب منافع کمایا اور اپنے گھر بھر لیے۔
موجودہ حکومت جسے لوگ سابقہ حکومت کا تسلسل کہتے ہیں بھی اسی فارمولے پر عمل کرنے والی ہے۔ موجودہ نج کاری وزیر نوید قمر نے آج ان اداروں کے نام گنوائے ہیں جن کی نج کاری اگلے مالی سال میں کی جائے گی۔ ان اداروں میں ہزارہ فاسفیٹ، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، جام شورو پاور کمپنی، فیسکو، پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، کھیوڑہ نمک اور لاکھڑا میں کوئلے کی کانیں شامل ہیں۔ اس کے بعد جن اداروں کو بیچا جائے گا ان میں مفیکو انڈسٹریز، سندھ انجینئرگ لمیٹڈ، کیپکو کا جی ڈی آر، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل اور پاکستان سٹیل مل شامل ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ ان کمپنیوں کی فروخت ميں مزدوروں کو دس فیصد حصہ دیا جائے گا مگر اس کے باوجود نوے فیصد حصے بیرونی کمپنیوں کو بیچ دیے جائیں گے اور جواز وہی پرانا کہ مقامی سرمایہ داروں میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ان اداروں کو خرید سکیں۔ خدا کے بندو کچھ تو خدا کا خوف کرو اور اگر اسی طرح قومی ادارے غیروں کو بیچے جاتے رہے تو ایک دن سارے کا سارا ملک بک جائے گا اور پھر ہم لوگ غلاموں کی زندگی جینے لگیں گے۔
یہ بات تو درست ہے کہ خسارے میں جانے والے ادارے حکومت کو بیچ دینے چاہیئں مگر ان کی فروخت مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کرنا ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس طرح قومی دولت منافع کی شکل میں ملک سے باہر نہیں جائے گی بلکہ ملک کی ترقی کیلیے خرچ ہو گی۔ جو ادارے منافع کما رہے ہیں یا تھوڑی سی کوشش سے منافع بخش ہو سکتے ہیں انہیں تو بالکل نہیں بیچنا چاہیے۔ مثال کے طور پر کھیوڑہ کا نمک اور لاکھڑا کی کوئلے کی کانیں تو سونا ہیں۔ انہیں بیچنے کی کوئی تک سمجھ میں نہیں آتی۔ اسی طرح ہزارہ فاسفیٹ کمپنی، جامشورو پاور پلانٹ بھی منافع بخش ہیں یا ہو سکتے ہیں۔
اب ہو گا یہ کہ وزیر نج کاری اور ان کی ٹيم ان نج کاری کے سودوں سے کمیشن حاصل کرے گی اور وہ اسی میں خوش ہو گی کہ انہیں ان کا حصہ مل گیا مگر اس کے بدلے جو ملک کا نقصان ہو گا اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ اس دفعہ چونکہ جمہوری حکومت ہے اور وہ بھی مخلوط اس لیے ہو سکتا ہے نوید قمر صاحب اکیلے سارا مال ہضم نہ کرسکیں۔ یا تو وہ مال بانٹ کر کھائیں گے یا پھر ان کے پیٹی بند بھائی انہیں مال کھانے نہیں دیں گے۔
ہمیں امید ہے اس دفعہ نج کاری کے سارے سودے اسمبلی میں بحث کیلیے پیش کیے جائیں گے جہاں اراکین چیک کریں گے کہ سودے واقعی ملکی مفاد میں ہیں اور ادارے کوڑیوں کے بھاؤ تو نہیں بیچے جا رہے۔ ان نج کاری کے سودوں کی اسمبلی میں منظوری کے دوران سیاسی جماعتوں کی سیاسی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔ ایم کیو ایم سے تو ہمیں اسلیے مزاحمت کی امید نہیں ہے کیونکہ اس نے پچھلی حکومت کی نج کاریوں پر بھی اپنی آنکھیں بند کئے رکھی تھیں۔ اس دفعہ امتحان اگر ہے تو وہ اے این پی اور مسلم لیگ ن کا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جماعتیں کس طرح نج کاری کو شفاف بنا کر ملک کی خدمت کرتی ہیں۔
4 users commented in " نج کاری یا تباہ کاری "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنج کاری بذات خود بری چیز نہیں لیکن جس طرح پاکستان میں دوسری اچھی چیزوں کا اطلاق ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے اسی طرح نج کاری بھی۔۔ حکومتوں کا کام بزنس کرنا نہیں ہوتا ۔۔ ہم پہلے ہی انکارپوریٹید فوج بنا کر بیٹھے ہیں۔۔ اور تھوڑی بہت صنعتی ترقی جو ہوئی وہ بھی اس “قومیانے“ نے تباہ کردی۔۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بزنس ہونے سے اول تو میرٹ کو فروغ ملتا ہے ۔۔ دوسرا ادارہ بھی منافع بخش ملتا ہے ۔۔ جبکہ حکومتی تحویل میں ہونے سے نہ صرف یہ کے جیالے کھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔ بلکہ نقصان میں بھی جاتا ہے۔۔ جیسے ریلوے جیسے ادارے کا خسارے میں جانا اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقع ہے جہاں ملک کی کثیر سفر کے لیے ریلوے کی محتاج ہے ۔۔
یہودیوں کو انکی کارکردگی کے لیے مجرم قرار دینے کے بجائے تحسین کی جانی چاہیے ۔۔ کیونکہ اگر واقعی وہ تمام دنیا پر قابض ہیں تو قابل تقلید مثال ہے کے کیسے تھوڑے عرصے میں ہولو کاسٹ کے بعد انہوں نے دنیا پر قبضہ کرلیا ۔۔
راشد صاحب
ہم نے بھی نجکاری کی مخالفت نہیںکی بلکہ نجکاری کے پردے میں اپنے اداروں کو غیروں کے ہاتھوں بیچنے کی مخالفت کی ہے۔ سابقہ حکومت کی نجکاریوں سے اب سرمائے کا بہت بڑا حصہ منافع کی شکل میں بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے اور یہی ہمارے لیے تکلیف دہ ہے۔
افضل صاحب بالکل بجا۔۔ بس یہی مسئلہ ہے کے طریق کار جو اپنایا جاتا ہے پاکستان میں کسی بھی چیز کے لیے وہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے ۔۔ کیا جمہوریت، کیا سیاست اور کیا مذہب۔
ُ ُہمیں امید ہے اس دفعہ نج کاری کے سارے سودے اسمبلی میں بحث کیلیے پیش کیے جائیں گے جہاں اراکین چیک کریں گے کہ سودے واقعی ملکی مفاد میں ہیں اور ادارے کوڑیوں کے بھاؤ تو نہیں بیچے جا رہے۔،،
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
آپ بھی بہت سادہ ہیں اراکین؟ ۔ اور انہی کے جو مبینہ بندر بانٹ کریں گے؟؟ ۔ میں پہلےعرض کر چکا ہوں ُ ُ نظام کوئی بھی ہو اسے چلانے کے لئیے دیانتداری بنیادی اور اہم شرط ہے ۔بے ایمان آدمی مسجد میں بھی ہیراپھیری کی کوئی صورت نکال لیتا ہے ۔ جبکہ نیک آدمی شراب خانے سے بھی عابد اور پارسار برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ (ایلٹ کلاس) انتہائی کم ظرف ہے اور بدیانت ہے ۔،، انکا بس چلے تو ملک کو اُٹھا کر امریکہ کے کسی چوراہے پہ شام تک بیچ کر اونے پونے دام کھرے کر لیں- مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملک کو اٹھا کر لا جایا نہیں جاسکتا ۔ خیر سے ہمارے ہاں ایک سے ایک بڑھ کا چاپلوس اور خوشامدی پایا جاتا ہے وہ وزیرِ موصوف نوید قمر اور پورے موجودہ سیٹ اپ کی قصیدہ خوانی میں وہ تان اُٹھائیں گے کہ اسکی ہر ہر لے پہ لہک لہک کر نجکاری کے فوائد بیان کیے جائیں گے ۔ قوم کو چاند پہ لے جانے کے دعوے ہونگے ۔ جسطرع آجکل موجودہ حکومت جلد ہی ملک سے غریبی ختم کر نے کے دعوے کرتی نظر آتی ہے بعین اسی طرع نجکاری اور اس سے ملک کو حاصل ہونے والے سرمائے کےگیت گائے جائیں گے ۔ اور ھمیں خبر تک نہیں ھو گی کہ ملک کب بک گیا ۔ کب اسکا سودا ہوا ۔جسطرع پتہ نہیں کونسے سن دو ھزار کتنے تک ملک کے ھر گھر ھر گاؤں کو بجلی سے روشن کرنے کے دعوے کیے گئے ۔ یاد ہے کسی کو اپنا شکست عزیز سوری شوکت عزیز؟
Leave A Reply