جنگ واقعی ایک ایسا کھیل ہے جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی آدمی جوش میں آکر ایسی جگہ پر ہاتھ ڈال لیتا ہے جہاں سے اس کا ہاتھ پھر سلامت واپس نہیں نکلتا۔
کچھ اسی طرح کی صورتحال کا مسٹر ڈائر کو سامنا کرنا پڑا۔ وہ انتہائی ڈرپوک شخص ہو گا مگر جونہی اس نے نو گیارہ میں ٹون ٹاورز گرتے دیکھے، جھٹ سے آرمی میں کمیشن لے لیا۔ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات ہوئی یعنی بیچارے کو فوری طور پر عراق بھیج دیا گیا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں وہ عراق فتح کرنے والے فوجیوں میں شامل تھا۔ جنگ کے دوران جب ایک عراقی خاندان فائرنگ کے درمیان پھنس گیا تو اس نے خاندان کے ایک بچے کی جان بچا کر تب شہرت حاصل کی جب اس کی فوٹو اخباروں میں چھپی۔ وہ ایک شریف آدمی تھا وہ میڈیا کو یہی کہتا رہا کہ اس نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا بلکہ وہی کچھ کیا جو دوسرے کر رہے تھے۔
پھر وہ جنگ کے بعد گھر لوٹ آیا۔ اس کے بعد دوسرےسابق فوجیوں کی طرح وہ بھی پوسٹٹرامیٹک سٹریس ڈسآرڈر یعنی پی ٹی ایس ڈی کی بیماری کا شکار ہو گیا۔ محاذ جنگ پر جانے سے پہلے ہی اس نے شادی کی تھی۔ پہلے تو اس کی بیوی نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ٹھیک ہو جائے مگر جب وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو گئی تو اس نے الگ رہنا شروع کر دیا۔
پچھلے چار پانچ سالوں میں وہ نفسیاتی مریض بن گیا اور اپنے ڈیپریشن کو کم کرنے کیلیے نشہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ ریسٹورنٹ میں ہمیشہ دیوار کیساتھ لگ کر بیٹھا کرتا کیونکہ اسے ڈر رہتا تھا کہ کوئی عراقی اسے پیچھے سے قتل نہ کردے۔ اسی طرح ایک دفعہ اس نے گھر پر فائرنگ شروع کردی، اسے لگا کہ عراقیوں نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ ہمیشہ گھر جاتے ہوئے ڈرتا تھا اور اسلحے کے بغیر گھر داخل نہیں ہوتا تھا۔
اس کی فیملی کیمطابق وہ انتہائی شریف اور خیال رکھنے والا انسان تھا مگر جنگ سے لوٹنے کے بعد وہ پہلے جیسا ناں رہا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ پھر سے نارمل ہو جائے۔ اس کیلیے وہ ہسپتال بھی داخل رہا مگر جنگ میں جو اس نے دیکھا یا جو اس نے کیا وہ اس گناہ سے پیچھا نہ چھڑا سکا اور اس ہفتے نشہ زیادہ کرنے کی وجہ سے مر گیا۔
ہو سکتا ہے فوج والے آدمی کو فوج میں بھرتی کرتے وقت یہ ضرور معلوم کرتے ہوں کہ بھرتی ہونے والا بہادر ہے اور وہ دشمن کو مارنے سے نہیں ڈرے گا۔ اس کے باوجود بہت سے شریف لوگ فوج میں جوش میں آ کر بھرتی ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری ہوتی، وہ شیر کا شکار کرنے نکل پڑتے ہیں۔ جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو قتل ہوتا دیکھتےہیں تو پھر گھبرا جاتے ہیں۔ ہم تو خود ڈرپوک آدمی ہیں اور مارکٹائی سے دور بھاگتے ہیں۔ پری میڈیکل میں جب مینڈک کی چیر پھاڑ ہوتے دیکھی تو ہم گھبرا گئے اور ارادہ بدل کر انجنیئرنگ کی طرف چلے گئے۔
امریکی میڈیا کے مطابق فوجیوں کی بہت بڑی تعدار عراق سے لوٹنے کے بعد پی ٹی ایس ڈی کی بیماری کا شکار ہے اور اکثریت آرمی کے محکمے کی بے حسی کا بھی گلہ کرتی ہے۔ جنگ میں تو انہوں نے اپنی قوم کی خدمت کی مگر اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
ان جیسی بہت ساری تباہ کن حقیقتوں کے باوجود عالمی طاقتیں جنگ سے گریز نہیں کرتیں اور وہ اپنے ہی آدمیوں کو اس کی بھینٹ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اس ظلم اور زیادتی کے خالق کا بھی بہت بڑا دل ہوتا ہو گا وگرنہ درد دل رکھنے والا انسان کبھی دوسروں کو موت کے منہ میں نہیں بھیجتا۔
یہ حالت تو ان لوگوں کی ہے جو جنگ جیتنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے ملک کو جنگی میدان بنا دیا گیا اور جو بے گھر ہو گئے۔ جن کے خاندان کے خاندان تباہ کر دیے گیے اور اب وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر ہیں۔ کیا ان لوگوں کی آہیں بے اثر جائیں گی، کیا ان کا خدا ان کو اسی طرح سسک سسک کر مرتے دیکھتا رہے گا، کیا وہ ایسے ہی بےیارومددگار بھٹکتے رہیں گے، اور کیا ظالم اسی طرح ظلم کرتے رہیں گے۔ نہیں کبھی نہیں ایک ناں ایک دن مظلوم اکٹھے ہوں گے اور وہ ظالموں سے ان کے مظالم کا حساب ضرور لیں گے۔ اب وہ یوم حساب کب آئے گا یہ مظلموں پر منحصر ہے وہ کب متحد ہوتے ہیں۔
8 users commented in " جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجنگ اور لڑائی اچھی چیز نہیں ۔ ہم جنگ کرنے سے ڈرتے نہیں ؛ وقت آنے پر کیا بھی ہے اور کر بھی سکتے ہیں لیکن جنگ نہ کسی مسئلے کا حل ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے ۔ بلکہ قران کے الفاظ میں جنگوں میں قوموں کے عزت رکھنے والے لوگ بے عزت ہوجاتے ہیں ۔ معاش تباہ ہوجاتا ہے اور قوم بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ؛ اسلئے ہم جنگوں کے خلاف ہیں اور آپ کو اسی تناظر میں جنگ کے خلاف لکھنا چاہیئے تھا ۔ اپ کے مضمون اور ٹائیٹل میں تضاد سا محسوس ہوا ۔ کہیں میں غلط تو نہیں ۔ حساس دل رکھنے والا آدمی کیا زنانی ہوتا ہے؟؟
وقار کے تبصرے سے اتفاق کروں گا۔
پوسٹٹرامیٹک سٹریس ڈسآرڈر
وقار اور زیک
غلط فہمی پر معذرت۔ دراصل ہم نے پوسٹ کا عنوان ایک محاورے کے طور پر استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہماری نظر میںیہ ہے کہ عورت چونکہ حساس، درددل رکھنے والی اور ڈرپوک ہوتی ہے اسلیے جنگ ایسی خصوصیت والے لوگوں کا کام نہیںہے۔ جنگ ان لوگوںکا کام ہے جو انتہائی سخت دل اور بے رحم ہوتے ہیں۔
بیماری کے نام کی درستگی کا شکریہ
وقار علی روغانی صاحب نے لکھا ہے ۔ُ ُ جنگ اور لڑائی اچھی چیز نہیں ۔۔۔۔ بلکہ قران کے الفاظ میں جنگوں میں قوموں کے عزت رکھنے والے لوگ بے عزت ہوجاتے ہیں ۔ معاش تباہ ہوجاتا ہے اور قوم بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ؛ اسلئے ہم جنگوں کے خلاف ہیں اور آپ کو اسی تناظر میں جنگ کے خلاف لکھنا ہم جنگوں کے خلاف ہیں اور آپ کو اسی تناظر میں جنگ کے خلاف لکھنا چاہیئے تھا،،
آپنے دو موضوع اکھٹے کردیے ہیں اؤٌٌٌل ۔: جنگ کے خلاف لکھنے کی ترغیب( غالباََ آپ کی جنگ سے مراد افغانستان اور عراق پہ امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ ہے) ۔ اگر آپ یہی کہنا چاہتے ہیں تو یہ احسن سوچ ہے۔ ایسی جنگ کی مذمت کی جانی چاھیے ۔ اور ہم بھی اس جنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
دوئم ۔: قرآنِ کریم سے جنگ کے خلاف آپکا حوالہ ہے۔ جسمیں آپ سیاق و سباق سے ہٹ گئےہیں۔قرآنَ کریم یا اسلام نے یہ نہیں کہا کہ آپ پہ حملہ کر دیا جائے جیسا کہ امریکہ نے افغانستان اور عراق پہ کر رکھا ہے اور آپ ُ ُ بے عزت ہوجانے ۔ معاش تباہ ہوجانے اور قوم کے بھیک مانگنے ۔۔۔،، وغیرہ کے اندیشہِ ھائے دور است کی وجہ سے اپنا دفاع نا کریں ۔ مقدور بھر جواب بھی نا دیں ۔بلکہ اسلام میں تو آگے بڑھ کر دشمن کے دانت کھٹے کرنے کا حکم ہے ۔نیز اسلام نے زمانہ امن میں اپنی افواج اور سازو سامان کو تیار رکھنے اور ان کی نمائش وغیرہ کرتے رہنے کا حکم دیا تاکہ دشمن پہ رعب داب قائم رہے اور دشمن شرارت سے باز رہے ۔
جہاں تک موضوع ُجنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دی، کا تعلق ہے تو میری ذاتی رائے میں جنگیں جیتنے کے لئیے صرف بہادری کے علاوہ معقول تریبت، مناسب ھتیار وغیرہ۔ جو بلاشبہ ہر لحاظ سے امریکہ کے پاس ہیں۔ کے ساتھ ایک اہم عنصر ُمردانگی، بھی ہے ۔(یہاں مردانگی سے مراد جسمانی طور پہ مرد ہونا نہیں) اور مردانگی یہ نہیں ہوتی کہ دنیا کا ترقی ترین یافتہ ملک دنیا کے غریب ترین اور پسماندہ ترین ملک کے خلاف بغیر کسی اخلاقی جواز کے صف آراء ہو جائے ۔ایسے ملک کے سپاہی لوگ ہر قسم کے اخلاقی جواز سے عاری ہونے کی وجہ سے جلد یا بدیر لازمی طور پہ ضمیر پہ بوجھ محسوس کرتے ہیں اور ُضمیر کا بوجھ، جسکا کوئی مداوا نہیں ، ذہنی بیماریاں تو کُجا خود کشی تک مجبور کر دیتاہے۔
میری ذاتی رائے میں اخلاقی جواز ہی مردانگی ( ذاتی یا قومی) پیدا کرتاہے کہ کمزور سے کمزور قومیں طاقتور سے طاقتور قوموں کا مقابلہ کرنے کے لئیے سر بہ آمادہ ھوجاتی ہیں اور نصرت و کامرانی کے شادیانے بجاتی ہیں ۔ تاریخ ایسے واقعوں۔ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ کی اپنے سے ھزاروں گنا کمزور افغانستان اور عراق پہ چڑھائی کرنا اور انکی اینٹ سے اینٹ بجا دینا مرادنگی نہیں- کمزوروں پہ چڑھائی مردوں کا شیوہ نہیں ۔ شاید اس لئیے بھی ُجنگ کھیڈ نئیں زنانیاں دی، کہا گیا ہے۔
خیر اندیش
جاویدگوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
زیک ساتھ دینے کا شکریہ ۔ ہاہا
گوندل صاحب ۔ میرے جس جملے میں آپ کے ‘اندیشہ ہائے دور و دراز‘ کا جواب تھا وہ آپ نے نقل کرتے وقت حذف کردیا !
میں ہر مسلط کئے گئے جنگ کے خلاف ہوں اور اس کی مذمت کرتا ہوں چاہے وہ امریکہ کی طرف سے ہو یا کسی مسلمان کی طرف سے ۔
سیاق و سباق سے میں نہیں ہٹا ۔ میں قرآن کے جس آیت کا مفہوم بیان کیا ہے ۔ اس کا سیاق و سباق میں جنگ کا ذکر نہیں بلکہ وہ سورہ النمل کی آیت ہے ۔ جس میں ملکہ بلقیس اپنے درباریوں سے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بھیجئے گئے خط پر مشورہ کررہی ہوتی ہیں ۔ اس وقت وہ یہ الفاظ کہتی ہیں ۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے ۔
سیاق و سباق سے متعلق آپ کی بات بڑی خوبصورت اور قابل توجہ ہے ۔ ۔ آج کل لوگ جہاد کے لئے جن آیات سے استنباط کرتے ہیں اور دلائل لاتے ہیں وہ سارے کے سارے سیاق و سباق سے ہٹے اور بعض اوقات متضاد ہوتے ہیں ۔ ۔ ان میں اکثر آیات اس وقت کے مشرکین مکہ کے ساتھ خاص تھے اور یہ لوگ اسے آج کے حالات پر چسپاں کرنے کی غلطی کررہے ہیں ۔
موضوع سے متعلق آپ کے ارشادات سے متفق ہوں ۔
محترم! وقار علی روغانی صاحب!
آپکے اؤلاََ تبصرے میں۔ قرآن ِ کریم کے حوالے بارے۔ سیاق و سباق سے متعلق۔ مدعامحض اتنا سا ہے۔ کہ جو بہن بھائی سرسری طور پہ پڑہیں تو وہ ذہنی طور پہ الجھے نہیں۔ کہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ وجدل ہر صورت میں منع ہے اور جیسا کہ آپ نے سورہ النمل سے ۔ ۔ ۔ بے عزت ہوجانے ۔ معاش تباہ ہوجانے اور قوموں کے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجانے کا حوالہ دیاہے شاید اسکی وجوہات بھی قرآنِ کریم نے بیان فرمائی ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں اور قرآنِ کریم نے جہاد اور جنگ کے بارے میں واضح احکامات دیے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک مسلمان باعمل ،صالح اور اپنے حقوق کی خاطرجنگ و جہاد میں حصہ لیتے رہے تب تک دنیا میں انکی عزت تھی ۔
آپکے قرآنی حوالے کے سیاق و سباق کے ضمن میں گذارش ہے کہ ہد ہد نامی پرندہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کوملکہ بلقیس یعنی ملکہ شہرِسبا کے بارے میں آکراطلاع دیتا ہے قرآنِ کریم میں ارشاد ہے ُ ُاور دیکھا ہے میں نے اس کو۔ اور اس کی قوم کو۔ کہ وہ سجدہ کرتے ہیں سورج کو اللہ کی بجائے۔ اور خوشنما بنادیے ہیں انکے لئیے شیطان نے انکےاعمال۔ اس طرع روک دیا ہے انھیں سیدھے راستے سے۔ لہٰذاہ اب وہ راہ نہیں پاتے‘‘ سورۃ النمل آیت نمبر 24 ۔ یعنی ہد ہد نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اطلاع دی کہ ملکہ سبا کی قوم سورج کو سجدہ کرتے ہیں اورشیطان نے ان کے اعمال کو اسطرع سے خوشنما بنا رکھا ہے کہ انھیں سیدھے رستے کی جستجو ھی نہیں رہ لہٰذاہ انھیں سیدھا رستہ نہیں مل پا رھا۔ جس کے جواب میں سیدنا سلیمان علیہ السلام مکہ سبا کو ایک عدد خط بیجھتے ہیں جسممیں لکھا ہوتا ہے۔ ارشادِ قرآنِ کریم ُ ُکہ نا سرکشی کرو تم میرے مقابلے میں اور حاضر ہو جاؤ میرے پاس فرمانبرادر بن کر‘‘ سورۃ النمل آیت نمبر 31 تب ملکہ بلقیس اپنے درباری امراء سے مشاورت کرتی ہے اور جب اسکے درباری اسے کہتے ہیں کہ ہم طاقتور اور سخت جنگو ہیں اور ملکہ انہیں جنگ پہ آمادہ دیکھ کر جنگ سے باز رہنے کےلئیے جنگ کے نقصان گنواتے ہوئے دلیل دیتی ہے رشادِ قرآنِ کریم ُ ُملکہ کہنے لگی بلاشبہ بادشاہ جب داخل ہوتے ہیں کسی بستی میں تو اجاڑ دیتے ہیں اسے اور کر دیتے ہیں وہاں کے عزت داروں کو ذلیل اور ایسا ہی یہ بھی کریں گے‘‘ سورۃ النمل آیت نمبر 34
She said, ‘undoubtedly, when the kings enter any town ruin it and disgrace its honorable inhabitants, and thus they do
اس پتہ چلتا ہے کہ جب ملکہ بلقیس کے درباریوں نے اپنے طاقتور اور جنگو ہونے کا زعم دکھایا تو ملکہ بلقیس نے ایک دلیل کے طور پہ یہ الفاظ اپنے درباریوں کو کہے تھے کہ جب بادشاہ کسی شہر کو فتح کرتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور شرفاء کو ذلیل کر دیتے ہیں اور سیدنا سلیمان علیہ السلام بھی یوں ہی کرینگے ۔ جبکہ یہ واقعہ اسلام کے ظہور سے ھزاروں سال قبل پیش آیا۔
اس تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب جنگ مسلط کر دی جائے یا ظلم حد سے بڑھ جائے تو اسکے خلاف جنگ یا جہاد نہیں کرنا چاھیے؟۔ اور اس پورے پس منظر میں جہاد سے روکنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ۔ یہ سب جملہ تفضیلات لکھنے کا صرف ایک مطلب ہے کہ نوجوان ذھن الجھے یا بھٹکے نہیں اور انھیں آپکی دیے ہوئے حوالے کے بارے میں تمام پس منظر معلوم ہو۔ میرا مقصد کسی بھی صورت میں آپکی علمیت و قابلیت کو چیلنج کرنا نہیں اور نا ہی بحث برائے بحث مقالمہ کرنا ہے۔
آپکا یہ ارشادِ گرامی ُ ُ۔۔۔۔ ۔ آج کل لوگ جہاد کے لئے جن آیات سے استنباط کرتے ہیں اور دلائل لاتے ہیں وہ سارے کے سارے سیاق و سباق سے ہٹے اور بعض اوقات متضاد ہوتے ہیں ۔ ۔ ان میں اکثر آیات اس وقت کے مشرکین مکہ کے ساتھ خاص تھے اور یہ لوگ اسے آج کے حالات پر چسپاں کرنے کی غلطی کررہے ہیں ۔‘‘ اس بارے عرض ہے۔ بیشک دشمن سے لڑ کر جہاد کرنا افضل جہاد ہے ۔ جو اسلام میں جہاد سے انکار کرے وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے ۔ مگر جہاد کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور یہ فیصلہ بھی کہ یہ کن صورتوں میں ناگزیر اور فرض لازم ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ (فتوایٰ) کون دیتا ہے یہ کن پہ فرض لازم ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر جہاد میں اپنے سے کمزوروں ، بچوں ، خواتین ؛ بوڑھوں ، پناہ میں آئے ہوئے غیر مسلموں، قیدیوں، فصلوں، باغات، آبادیوں وغیرہ جسکی لمبی فہرست ہے کے بارے سلوک کا خیال رکھا جائے وغیرہ۔۔
عین ممکن ہے کہ میری یہ رائے غلط ہو مگر میری ذاتی رائے میں جس قوم کی 80 فیصد آبادی ان پڑھ ، 56 فیصد آبادی غربت یا غربت کی آخری حدوں سے نیچے بھوک برداشت کرنے پہ مجبور ہو جہاں ہر دن دہاڑے قتل و غارت ۔ اغواء برائے تاوان ۔ زنا بالجبر ھوتے ہوں ۔ جہاں امنِ عامہ کا یہ عالم ہو کہ سرِشام ملک کی ساری آبادی قلعہ بند ہو کر اپنے گھروں بند ہوجانے پہ مجبور ہو ۔ جہاں بستیوں کی بستیاں ، شہروں کے شہر اندھیروں میں ڈوبے رہیں اور بقول بی بی سی ُ ُدنیا میں اس وقت دو سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم از کم دس گنا چھوٹا ہے لیکن جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے تین گنا بڑا ہے۔
یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے، خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے، پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں، کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں اور مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ اسکی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم افریقہ کی پیداوار سے زائد اور برِ اعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ہے۔ یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے پچپنویں نمبر پر ہے۔ کوئلے کے زخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے زخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں اول نمبر پر ہے۔ اسکے گیس کے زخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔
پھر بھی اس ملک کی تہتر فیصد آبادی کی آمدنی دو ڈالر روزانہ سے کم ہے۔ دن کا آدھا وقت یہ ملک بجلی سے محروم رہتا ہے۔ آٹے کے لیے قطاریں لگتی ہیں اور خودکشی کی وجوہات میں اب غربت اور بھوک بھی شامل ہوگئی ہے۔‘‘۔جہاں ڈاکخانے کے ڈاکیے سے لیکر ملک کے صدر تک کی ُخدمت‘ کیے بغیر آپ کے جائز ترین اور انتھائی ناگزیر امور و مسائل حل نہیں ہوتے۔ جہاں غربت اور افلاس کے ھاتوں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئیے روٹی کے ھر ھر لقمے سے کسی نا کسی حوالے سے رزقِ حرام کی بُو آتی ہو اور وہاں کون دشمن سے لڑنے جہادِ اکبر کو جائے؟ اور کن بنیادوں پہ ؟ کیا ہم اچھے مسلمان ہیں اس وجہ سے؟۔ تو میں سمجھتا ہوں اس ملک کے لوگوں کو تو ہر قدم۔ ھر دن۔ ھر جگہ جہاد درپیش ہے ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ھم اور ھمارے دینی رہنما روزمرہ کے ان چھوٹے جہادوں کے بارے میں کوئی لائحمہ عمل واضح کریں اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئیے قوم کی رہنمائی کریں کہ اتنے بڑے سنگین بحرانوں سے نمٹنے کے لئیے کسظرع جہادی بنیادوں پہ مل جل کر کام کیا جاسکتا ہے ۔ کہ بھوک اور کفر میں بہت باریک فرق ہے۔
بہر حال یہ میری ذاتی رائے ہیں جو غلطی پہ بھی مبنی ہو سکتی ہے ۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآسیلونا ، اسپین
محترم
میں آپ کے رائے سے سوفیصد متفق ہوں ۔
بہت بہت شکریہ ۔ اللہ سبحان و تعالٰی آپکو جزائے خیر دے اور آپکے علم میں اضافہ فرمائے۔
Leave A Reply