اس ملک میں جس طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح کے بیانات سیاستدان دے رہے ہیں ان سے یہی لگتا ہے کہ پاکسان آج ٹوٹا کہ کل۔ کوئی قومیتوں کو ہوا دے رہا ہے تو کوئی علاقائی خود مختاری کی بات کر رہا ہے۔ اس وقت ملک میں ہنگامی بنیادوں پر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ ہے عوام کو متحد کرنے اور ان کی مایوسی کو امید میں بدلنے کی۔ ابھی تک اس طرف کوئی کوشش کسی بھی قومی سیاستدان کی طرف سے نظر نہیں آئی۔
جب سے کابینہ میں توسیع کی خبریں آنا شروع ہوئی ہیں اور اکثریتی پارٹی نے اپنے اتحادیوں کیساتھ مشورے شروع کیے ہیں ہم نے بھی سوچا کہ حکومت کو وزارتِ اتحاد بنانے کا مشورہ دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ اس وزارت کی بنیاد رکھے اور اس کی وزارت ایک نیوٹرل شخص کو سونپ دے جس کا کام تمام سیاسی اور علاقائی پارٹیوں سے مذاکرات کرکے ملک میں اتحاد قائم کرنا اور اسے ٹوٹنے سے بچانا ہو۔ یہ وقت ہے کہ بلوچستان اور سرحد کی شکایات کو اولیت دی جائے، اندرون سندھ کے عوام کے مسائل کا حل نکالا جائے اور پنجاب کیخلاف جو محاذ دوسرے صوبوں کی علاقائی پارٹیاں بنا رہی ہیں ان کو سمجھایا جائے۔
نو گیارہ کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر خصوصی توجہ دی اور اس سے نپٹنے کیلیے الگ الگ محکمے بنا دیے گئے۔ برطانیہ نے تو دہشت گردی کی وزارت قائم کر رکھی ہے۔ کیا ہم لوگ اپنے ملک کو سب سے بڑے خطرے کے تدارک کیلیے اسی طرح کی وزارت قائم نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت واقعی ملک کیساتھ مخلص ہے اور بیرونی جمہوری طاقتوں کی غلام نہیں ہے تو پھر اسے ملک کو درپیش اس خطرے کو ضرور ذہن میں رکھ کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ ملک ٹوٹنے کے بعد باہر بھاگ جائیں گے مگر وہ یاد رکھیں وہ اپنا سارا خاندان ساتھ نہیں لے جاسکیں گے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ اگر بے حس ہوئے تو پھر اپنے رشتہ داروں کو رسوا ہونے کیلیے پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
خدارا دبئی اور لندن کے چکر لگانا چھوڑیے اور ملک میں بیٹھ کر اسے قائم رکھنے کیلیے کچھ کیجیے۔ ہمیں تو لگتا ہے اس وقت ملک کے حکمران ملک کو متحد رکھنے میں بالکل مخلص نہیں ہیں اور مشرقی پاکستان کو علٰیحدہ کرنے والوں کیطرح وہ بھی ملک کے چار ٹکڑے کرکے الگ الگ حکمران بننے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔
5 users commented in " وزارتِ اتحاد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجناب ہماری قوم کچھ کرنے کو تیار ہے ، مگر نہیں کرتی ، کیا آپ اس کی وجہ جانتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں سیاستدانوں پر اعتماد نہیں ہے ۔ یہ جو پرانے کھلاڑی ہیں ، یہ آزمائے ہوئے ہیں ۔ اور جو نئے ہیں، انہیں آگے آنے کا موقع نہیں مل رہا ۔
رہنما کے بغیر انقلاب کا مطلب ہے انارکی اور فسادات ۔ جب تک کوئی اچھا رہنما نہیں ہوگا ، انقلاب نہیں آ سکے گا ۔
تو جناب بات یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے اچھے رہنما کی ضرورت ہے جو ایمانداری کے ساتھ کام کرے ۔
ھوم ورک۔
ہم سے زیادہ اس بات کی ہمارے آقاوں کو فکر ہے۔
بظاہر پر امن حالات میں ہمارے آقا کھلاڑیوں کی سکریننگ کر رہے ہوتے ہیں۔
جہان تک اتحاد کی بات ہے تہ کسی معجزے کا انتظار ہے۔
اس سکریننگ کو ( انٹرویو)ملاقات کا نام دیا جاتا ہے۔
Rhnuma kee talash…
yai to Inspector Jamshed kai novel kaa naam lagta hai.
Magar haqeqatan aisa hee hai. Ahl-e-Maghrib bhee jantey hain aur dartey hain kah kaheen waqaee koee Qaum kaa dard rakhney wala rahnuma naa mil jaey.
Isee liey naey aney waley khilarion kee screening hotee rahtee hai.
Waisey aik chotee see koshish hamain zaroor karnee chahiey kah tahajjud main uthain aur apney liey aur apnee Qaum ka liey doain maggain.
یہ تو اس صورت میں قائم ہو جب کوئی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہو۔۔ ہماری قوم کا رویہ تو یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم بنا تو وفاق ٹوٹے گا۔۔ نہ بنا تو وفاق ٹوٹے گا۔۔ اس صورت میں اتحاد کیونکر قائم رہ سکے گا ؟ صوبائیت اور قومیت تو کئی سیاسی جماعتوں کی اساس ہے۔۔ ایسی وزارت اتحاد کو صورت میں تو انکا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا 🙂 لیکن آپ کی بات سولہ آنے درست ہے کے اب بھی مسائل کا ادراک کرکے ان کے حل پر توجہ نہ دی گئی تو ساری وزارتوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی
اسسلام علیکم،
شھباز شریف صاحب نے بلوچستان کا دورہ کیا ہے اور بگٹی کے بیٹے سے ملاقات کی۔
مجھے تو خوشی ھوئی۔
آللہ کرے ہمارے ملک سے عصبیت کی جڑیں ختم ھو جائیں۔ آمین۔
Leave A Reply