آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پتہ چل گیا ہے اور انہیں ٹائمز آن لائن بوسٹن گلوب اور ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق امریکہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے جولائی کی اٹھارہ تاریخ کو امریکی فوجیوں پر انہی کی رائفل سے گولیاں چلائیں اور جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہو گئیں۔ خبر کے مطابق انہیں تین ہفتے قبل افغانستان میں بم بنانے اور امریکی نقشہ جات کے مواد کیساتھ افغانی سرکاری بلڈنگ کے سامنے سے غزنی پولیس نے گرفتار کیا۔ آج انہیں نیویارک کی عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جہاں ان پر قتل کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ پتہ نہیں ان کی گرفتاری کا انعام پچاس لاکھ ڈالر کسے ملے گا؟

امریکی اخبار بوسٹن گلوب کے مطابق تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے دوسری شادی ایک موسٹ وانٹڈ عربی سے کر لی تھی اور وہ  خالد شیخ محمد کو بھی جانتی تھیں۔

شکر یہ ہے کہ میڈیا، ایک نو مسلم برطانوي عورت اور انسانی حقوق کی تنظیم کے واویلہ مچانے پر ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کا معمہ تو حل ہوا۔ اب اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہوش و حواس میں ہوئیں تو قانونی لڑائی لڑ سکیں گی۔ ویسے ان کا خاندان انہی کی طرح کافی پڑھا لکھا اور مالدار ہے امید ہے وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی پوری کوشش کرے گا۔

ہسٹری کامنز ڈاٹ اورگ پر ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں کافی ساری معلومات ایک جگہ اکٹھی پڑھی جا سکتی ہیں اور یہ معلومات اپ ٹو ڈیٹ بھی ہیں۔

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پچھلے پانچ سال کہاں رہیں؟ کیا کراچی سے اچانک غایب ہونے کے بعد وہ افغانستان جہاد کرنے چلی گئیں یا انہیں خفیہ ایجنسیوں نے اٹھانے اور نظربند رکھنے کے بعد اب امریکہ کے حوالے کیا ہے؟ افغان حکومت کی جاری کردہ تصویر میں ایک بچہ ڈاکٹر عافیہ کیساتھ ہے مگر ان کے دوسرے دو بچے کہاں ہیں؟

ایک اردو کے کالم نگار نے بڑی اچھی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں برطانوی عورت اجڈ اور جاہل طالبان کی تحویل میں چند روز رہیں اور ان کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو گئی مگر دوسری طرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کے قبضے میں ہے اور ذہنی اور جسمانی طور پر ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔

افغانی، امریکی اور ڈاکٹر عافیہ کے خاندان کے متضاد بیانات پڑھنے کے بعد ہم تو مخمصے میں پڑ گئے ہیں اور ہمیں بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ ان میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟

نوٹ

ڈاکٹر عافیہ پر جنگ کے کالم نگار عرفان صدیقی، اشتیاق بیگ اور ڈاکٹر لیاقت حسین کے دل ہلا دینے والے کالم یہاں ، یہاں اور یہاں پڑھئے جو جنگ میں چھپے۔