کوئي پچيس تيس سال قبل نہيںبلکہ اجمل صاحب کے بقول اس سے بھي بہت پہلے تبليغي جماعت نے باقاعدگي سے اپني تحريک شروع کي اورلاہور ميں سالانہ اجتماع منعقد کرنا شروع کيا۔ لاہور ميں جب جگہ کم پڑنے لگي تو سالانہ اجتماع راۓونڈ ميں ہونے لگا۔ اس عرصہ ميں اس جماعت کي مستقل مزاج کوششوں سے اس کا حلقہ بہت وسيع ہو چکا ہے اور اس کا ووٹ بنک اب اگر کروڑوں ميں نہيں تو لاکھوں ميں ضرور ہے۔ اس امر کا اندازہ اس سال کے تبليغي اجتماع سے ہو سکتا ہے جو آج ختم ہوا۔ اس اجتماع ميں پندرہ لاکھ سے زيادہ لوگوں نے شرکت کي۔ تبليغي جماعت کا ايک وصف يہ بھي ہے کہ اس کے کوئي سياسي مقاصد نيں ہيں اور نہ اس نے باقاعدگي سے دوسري سياسي جماعتوں کي طرح انتخابات ميں کبھي حصّہ ليا ہے۔ اس جماعت کا موٹو يہ ہے کہ کسي بھي مہم پر روانگي سے پہلے اپنے آپ کو اس کيلۓ تيار کرو۔ اسي لۓ تبليغ والوں نے عملي طور پر عوام کي رہنمائي کے کاموں ميں حصّہ لينا شروع نہيں کيا اور ابھي تک وہ مسلمانوں کو اس کيلۓ تيار کررہے ہيں۔
ان ساري خوبيوں کا سياستدان بھي فائدہ اٹھانے سے نہيں چوکے اور وہ ہر سالانہ اجمتماع کي دعا ميں شرکت کيلۓ ضرور جاتے ہيں۔ يہ وہ سياسدان ہيں جن کا تبليغ کے مشن سے دور کابھي تعلق نہيں۔ يہ سياستدان نہ ہي کبھي تبليغ کيلۓ وقت نکالتے ہيں اور نہ ہي کبھي ان کے سہ روزہ دوروں پر ان کے ساتھ گۓہيں۔ حالانکہ وہ تبليغ کيلۓ سہ روزہ دوروں پر جاکر اسلام کي زيداہ خدمت کرسکتے ہيں اور ان کي شرکت دوسرے مسلمانوں کو بھي تبليغي جماعت ميں شامل ہونے کي طرف راغب کرسکتي ہے۔ مگر چکونکہ ان سياستدانوں کو صرف سياست سے مطلب ہوتا ہے اور ان کا دين سے دور کا بھي واسطہ نہيں ہوتا اسلۓ وہ تبليغ والوں کا ووٹ بنک حاصل کرنے کيلۓ ان کے سالانہ اجتماع ميں شرکت کرتے ہیں۔
اس سال بھي تينوں صوبوں کے وزرا اعلي سميت کئ وزرا اور سرکاري حکام نے اس تمليغي اجتماع کي آخري دن کي دعا ميں شرکت کي اور بہت سارا سياسي ثواب لوٹ کر گھر لوٹے۔ بہت کم سياستدان آپ نے ديکھے ہوں گے جو تبليغ والوں سے متاثر ہو کر ان کي جماعت کے ممبر بنے ہوں اور انہوں نے سرکاري طور پر جماعت کي سرپرستي کي ہو۔ يہ وہي ساستدان تھے جو رمضان کي ستائيسويں کو خانہ کعبہ عمرہ کيلۓ جاتے ہيں اور پھر نوافل بھي ادا کرتے ہيں۔ يہ وہي سياستدان ہيں جن کا اسلام صرف ساست کي حد تک ہے اور ان کو شائد کلمہ طيّبہ بھي پوري طرح پڑھنا نہيں آتا ہوگا مگر يہ لوگ عمرہ بھي کرتے ہيں، عيد کي نمازيں بھي پڑھتے ہيں اور تبليغي اجمتاع اور عرسوں ميں شرکت بھي کرتے ہيں۔ يہ لوگ اگر نہيں کرتے تو حج نہيں کرتے کيونکہ اس ميں محنت زيادہ ہے اور سياسي فائدہ کم۔ يہي وہ منافق ہيں جن کے قول اور فعل ميں تضاد ہے اور انہي کي وجہ سے مسلم امہ آج ذليل ہورہي ہے۔
ميري تبليغي جماعت کي قيادت سے درخواست ہے کہ وہ ان منافقوں کيلۓ بھي وقت نکالے اور ان کو بھي سہ روزہ دوروں پر لے کر جاۓ۔ ان کو بھي نماز کا پابند بناۓ اور اسلام کے سارے ارکان کي اہميت سے آگاہ کراۓ۔ شائد اسي طرح تبليغي جماعت سياست سے باہر رہ کر ملک کي خدمت کرسکے۔
3 users commented in " تبليغي اجتماع اور سياستدان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ ہمیشہ کافی تحقیق کے بعد حقائق لکھتے ہیں مگر اس بار گڑبڑ ہو گئی ہے ۔ تبلیغی جماعت کا میں کبھی رکن نہیں رہا ۔ میرا پہلا تعارف ان لوگوں سے 1957 میں ہوا تھا ۔ ان کا سالانہ اجتماع پچیس تیس سال نہیں بہت پہلے شروع ہوا ۔ پہلے سالانہ اجتماع لاہور میں ہوا کرتا تھا شہر سے باہر ۔
اجمل صاحب
غلطي کي درستگي کا شکريہ۔ آئيندہ احتياط کريں گے۔
تبلیغی اجتماع سے مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب میں صرف سات برس کا تھا اور اپنے والد کے ساتھ ہمارے شہر بنگلور میں منعقد تین روزہ تبلیغی اجتماع میں شریک ہوا یہاں دنیا بھر سے لاکھوں لوگ آئے ہوئے تھے پھر والد صاحب سے بچھڑ گیا اور دوسرے دن انہیں ملا ـ مگر اسوقت رو رو کر جو میری کیفیت ہوئی تھی آج بھی مجھے یاد ہے ـ
Leave A Reply