جيسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ايڈز کا مرض زيادہ تر تين طريقوں سے پھيلتا ہے۔ يہ تين طريقے يہ ہيں۔ جنسي بے راہ روي، انتقالِ خون اور نشہ لينے والي سوئياں۔ جب يہ کہا جا تا ہے کہ پاکستان ميں بھي يہ مرض تيزي سے پھيل رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستاني مسلمان بھي ان خبيث عادتوں کا شکار ہيں۔ کہتے ہيں کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں ميں يہ مرض ديہاتوں کي نسبت زيادہ پھيل رہا ہے کيونکہ شہروں ميں جنس پرستي اور منشيات کا استعمال زيادہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کي رپورٹ ميں کراچي کي مثال دي گئ ہے کہ وہاں کي سيکس ورکرز کو ايڈز سے بچنے کے طريقوں کا بہت کم پتہ ہے۔
کتنے شرم کي بات ہے کہ ہم مسلمان ان غليظ دھندوں ميں پڑے ہوۓ ہيں اور اپنے ہي بہن بھائيوں کو اس موضي مرض کا شکار بنا رہے ہیں۔
ہماري حکومت بھي اس معاملے ميں خاموش ہے اور نام نہاد اين جي اوز بھي کچھ نہيں کر رہيں۔
حکومت کو چاہۓ کہ اس سے قبل کہ مرض سارے ملک ميں پھيل جاۓ اس کو کنٹرول کرنے کي طرف توجہ دے۔
مزہبي رہنماؤں کا بھي فرض ہے کہ وہ صرف باتوں سے نہيں بلکہ عملي طور پر بھي ايڈز کے بارے ميں راۓ عامہ کو آگاہ کريں۔
مقامي حکومتوں کا بھي فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے ميں ايڈز کے خلاف مہم کا آغاز کريں اور لوگوں کو بتائيں کہ ايڈز کتنا موضي مرض ہے اور اس کي روک تھام کيسے ہو سکتي ہے۔
بھٹو دور ميں جب آبادي کنٹرول کرنے کيلۓ منصوبہ بندي کا آغاز ہوا تھا تو يہ محکمہ ہر علاقے ميں جاتا تھا اور عوام کو فلم دکھا کر آبادي کنٹرول کرنے کي تعليم ديتا تھا اور کنڈوم بھي مفت تقسيم کرتا تھا۔ اب بھي حکومت اسي طرح کا محکمہ بنا کر ايڈز کے خلاف ملکي سطح پر اس طرح کي مہم چلا سکتي ہے۔
کراچي ميں ايم کيو ايم کي مقامي حکومت بني ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ ايڈز کي روک تھام کيلۓ سنجيدہ اقدامات کرے۔ جب کراچي ميں ايم کيو ايم کي حکمتِ عملي ايڈز کے خلاف کامياب ہونے لگے تو پھر اس کو ملکي سطح پر چلايا جاۓ۔
4 users commented in " ايڈز اور پاکستان ميں؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackانسان قرآن شریف کا بغور مطالعہ کرے تو پتہ چلتا ہے کہ انسان جب دین پر عمل چھوڑ دیتا ہے تو اپنی پریشانیوں اور پھر اپنی تباہی کا سامان بھی خود ہی کرتا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے اچھا اور برا اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہمیں بتا دیا ۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ کھلی آنکھوں سے زہر نہ کھائیں ۔ احباب مجھے کہتے رہتے ہیں کہ تمہیں کیا معلوم یہاں اسلام آباد میں کیا کچھ ہوتا ہے ۔ نہ میں نے کبھی پوچھا نہ انہوں نے بتانا مناسب سمجھا ۔ صحیح ہے جس گاؤں جانا نہیں اس کا راستہ کیوں پوچھنا ۔ اللہ اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ مجھے تو یہی لگتا ہے کہ سب بہت نیک ہیں اور میں پیچھے رہ گیا ہوں ۔
جناب آپ نے لکھا ہے کہ پاکستانی مسلمان بھی یہ کام کر رہے ہیں ۔ اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ پاکستانیوں کو بہت شریف سمجھتے ہیں ۔ انکل جی یہاں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان کاموں میں نہیں پڑے ۔ اکثر لوگ عورتوں کے ساتھ زنا کرتے ہیں اور جو باقی بچ جاتے ہیں وہ لڑکوں کو پکڑ لیتے ہیں ۔ ۔ ہم مسلمان اتنے شریف ہوتے تو آج یوں نہ رُل رہے ہوتے ۔
اب یہاں کے ڈاکٹر حضرات روز روز اخبارات میں کالم لکھ کر شاید یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایڈس سے بھی زیادہ خطرناک بیماری برڈ فلو ہے جس سے انسان حیرت انگیز طور پر بہت جلد مر جاتا ہے جبکہ ایڈس میں مبتلا انسان چند مہینے یا پھر چند سالوں تک تڑپ تڑپ کر بالآخر مر ہی جاتا ہے ـ اب تو یہ معلوم کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ ایڈس کہاں نہیں ہے؟ ڈھونڈو تو دنیا کی ہر ایک ریاست میں سینکڑوں ایڈس کے مریض پائے جاتے ہیں ـ ایڈس پر کچھ بھی لکھنا بہت آسان ہے مگر اِس خطرناک بیماری کو روکنا شاید ہی ممکن ہو؟ پھر بھی ہمیں یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ اپنے خاندان والوں کے علاوہ دوستوں کو بھی اِس خطرناک بیماری سے بچائیں ـ
حقیقت یہ ہے کے علامہ اقبال اور قائد اعظم نے صاف طور پر کہ دیا تھا کے پاکستان میں تعلیم مذہبی بنیادوں پر ہونی چاھیے، جب لوگوں کو مذہب کا ھی پتہ نہیں تو کیا ایڈز اور کیا جنسیت۔۔۔
ہم اسلام کہ دقیہ نوسی خیال کرتے ہیں جبکے سب سے زیاداہ روشن خیال یہی مذھب ہے۔۔
بھارتی فلمیں، جو کے اب ہم جنس پرستی کے موضوع کو بھی عام کر رہی ہیں۔ اب ہمارے سینماؤں میں لگا کریں گی۔۔ تو اور بہت کچھ آئے گا
Leave A Reply