کينيڈا ميں کل قومي انتخابات ہورہے ہيں۔ پچھلے ايک ماہ سے جاري انتخابي مہم اس طرح جاري ہے کہ نہ تو زندگي کے معمولات متاثر ہوۓ اور نہ ہي کوئي قتل ہوا۔ نہ ہي کہيں جلسہ جلوس نظر آيا اور نہ ہي وزيرِاعظم کي آمد پر ٹريفک معطل ہوئي۔ نہ ہي ديواريں اشتہاروں سے سجائي گئيں اور نہ ہي ان پر نعرے لکھے گۓ۔ نہ ہي محلے کے بااثر لوگوں نے دباؤ ڈالا اور نہ ہي ذات برادري نے مل کر کسي پارٹي کے حق ميں ووٹ دينے کا فيصلہ کيا۔
بلکہ اميدواروں نے اپني انتخابي مہم بڑے تحمل اور بردباري سے چلائي اور ان کي مہم سے ايسے لگ رہا تھا کہ وہ باقائد ملازمت پر ہيں اوراتخابي مہم نوکري سمجھ کر چلا رہے ہيں۔ اميدواروں نے گھر گھر جار کر اپنے اشتہار تقصيم کۓ اور اپنے انتخابي منشور کي بات کرکے ووٹ دينے کي درخوست کي۔ جلسے ہوۓ بھي تو اندرونِ خانہ ہوۓ جن ک خبر ٹي وي پر نشر ہوئي اور اخباروں نے بھي شہ سرخيوں سے اس جلسے کي کاروائي کي روداد لکھ دي۔
آج ہي کے ايک اخبار نے اپنے پہلے صفحہ پر حکومتي پارٹي کو ووٹ نہ دينے کي دوسو وجوہات لکھي ہيں۔ نہ يہ اخباربند ہوا اور نہ ہي اس کے اشتہارات پر پابندي عائد کي گئ۔
اب کل ووٹ اس طرح ڈالے جائيں گے کہ نہ تو لوگ کام سے چھٹي کريں گے اور نہ ہي لوگ ان کو گاڑيوں ميں بھيڑ بکريوں کي طرح بھر بھر کر پولنگ اسٹيشن لے کر جائيں گے۔ تقريبأ ہر سکول ميں پولنگ سٹيشن بن چکے ہيں اور ووٹر کو کہاں ووٹ ڈالنا ہے يہ ڈاک کے زريعے پہلے ہي بتايا جا چکا ہے۔ ووٹر پولنگ بوتھ پر جاۓ گا اور اپني ميل ميں ملي معلوماتي پرچي دکھاۓ گا۔ اسے بيلٹ پيپر ديا جاۓ گا اور وہ ووٹ ڈال کر گھر آجاۓ گا۔ رات گۓ نتيجے کا اعلان ٹي وي پر ہوگا اور صبح کے اخبارات اتخابات کے نتائج کي تفصيل جاري کرديں گے۔ پھر ہارنے والي پارٹي جيتنے والوں کو مبارکباد دے گي اور جيتنے والي حکومت بنانے کي تيارياں شروع کردے گي۔ نہ آتشبازي کا مظاہرہ ہوگا اور نہ ہي جلوس نکاليں جائيں گے۔
اب ان ساري باتوں کا موازنہ ہمارے پاکستان کے انتخابات سے کرکے بتايۓ کہ کيا ہم اب بھي پسماندہ معاشرے کا حصہ نہيں ہے۔ مانا کہ مغرب بھي کئي صديوں تک جہالت کے دور ميں رہا مگر اس وقت مواصلاتي نظام اتنا پائيدار نہيں تھا کہ ايک علاقے کي ترقي کے راز دوسرے علاقے ميں اتني جلدي پہنچ سکيں۔ اب تو حال يہ ہے کہ ہم دنيا کے ہرحصے کے حالات سے آگاہ ہيں اور ہر آدمي جانتا ہے کہ کونسا طريقہ اصلاح کا ہے اور کونسا بگاڑ کا۔ مگر ابھي ہمارے لوگوں ميں اتني ہمت پيدا نہيں ہوسکي کہ وہ اچھے برے کي تميز ہونے کے باوجود اچھائي کي کھل کر حمائت کرسکيں۔
مايوس ہونے کي ضرورت نہيں ہے کيونکہ جس طرح پچھلے دس سال ميں تيزي سے وقت نے کروٹ لي ہے اس سے يہي ثابت ہوتا ہے کہ ڈکٹيٹروں کے دن اب گنے جاچکے ہيں۔ مزيد دس بيس سال کي بات ہے پھر يہي ديہاتي لوگ دھوتياں اٹھا کر کرپٹ سياستدانوں کي ايسے دھوتياں اتاريں گے کہ ان کو عزت بچانے کيلۓ يورپ بھي پناہ نہيں دے گا۔
No user commented in " جديد دنيا اور انتخابات "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply