فاٹا یا قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کیخلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ میں دو کی بجائے تین فریق شامل ہیں۔ دو فریق شدت پسند اور ہماری فوج ہے اور تیسرا فریق نیٹو نہیں بلکہ امریکی فوج ہے۔ ہم فوج کی قبائلی علاقوں میں کاروائیوں پر بھی خوش نہیں ہیں، مگر ہماری نظر میں امریکی فوج کا اس جنگ میں ملوث ہونے کا کوئ جواز نظر نہیں آتا۔ جو کام امریکہ کر رہا ہے وہ کام اگر ہم خود کر رہے ہیں تو پھر امریکہ نہ جانے کیوں خواہ مخواہ بدنامی کما رہا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر اسے ہم پر اعتماد نہیں ہے تو پھر ہم خود فوجی کاروائی کیوں کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ امریکہ کو کھلا ہاتھ دے دیں اور خود اسلام آباد میں بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔ جنگ اخبار کے مطابق اب تک قبائلی علاقوں میں چالیس سے زائد میزائل حملوں میں 650 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
اب تک ان میزائل حملوں پر عوامی ردعمل نظر نہيں آیا، کیا ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ قبائلی علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہیں یا پھر جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں؟
کیا گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ ہر میزائل حملے پر احتجاج ہی کافی ہے یا پھر وہ ان حملوں کی درپردہ حمایت کر رہی ہے اور عوام کی اشک شوئی کیلیے ایوانوں میں قراردادیں منظور کر کے بری الذمہ ہو جاتی ہے؟
کیا ان حملوں پر خاموشی کی یہ وجہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ نہیں یا ہمارے علاقے میں نہیں ہو رہا؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ قبائلیوں کسیاتھ ہو رہا ہے وہ مستقبل میں ہمارے ساتھ نہیں ہو گا؟
کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ایک طاقتور ملک کا کمزور ملک پر میزائل حملہ جائز ہے اور کیا ہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو مانتے ہوئے بے خود کو بے بس سمجھ رہے ہیں؟
ہمارا یقین ہے کہ جس طرح بجلی کے بحران کیخلاف عوام نے احتجاج کر کے حکومت کو بل کم کرنے پر مجبور کر دیا ہم اسی طرح ملک میں ہر جگہ پرامن احتجاج کرکے میزائل حملے رکوا سکتے ہیں۔ اگر ہم احتجاج نہیں کر رہے تو امریکہ جو کچھ کر رہا ہے کیا ہم اس کی ایسے ہی حمایت کر رہے ہیں جیسے ہماری حکومت؟
9 users commented in " الجھے سوالات "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackزیرِ نظر تبصرہ ُ ُگرین ایریا اسلام آباد کے سور،، میں لکھا تھا۔ چونکہ یہ موضوع پاکستان میں دہشت گردی اور طالبان حقیقی اور پاکستان میں ریاستِ پاکستان کو کمزور اور کھوکھلا کرنے والے طالبان نما مگر درحقیقت امریکہ، بھارت، اسرائیل، افغان ایجنسیز کے افغانستان میں انہتائی تربیت یافتہ دہشت گردوں سے متعلق ہے تو وہی تبصرہ میں نے ہو بہو یہاں لکھ دیا ہے۔
ایک بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ امریکہ کی محبتیں بے وفا صنم کی طرح بدلتے دیر نہیں لگتی۔ امریکہ ناقابلِ اعتبار ہے۔ ہماری افواج اور ادارے بلکہ سارا پاکستان امریکہ کی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف سب سے ذیادہ جانی نقصان اٹھا چکا ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں مفلوک الحالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ ہمیں آنکھیں دکھانے سے باز نہیں آرہا۔ جبکہ ماذی میں پاکستانی اداروں نے جب بھی ایسے دہشت گردوں کے ٹھکانے کے بارے میں امریکہ کو اطلاع دی ، جن سے پاکستان کی سالمیت کو خطرہ درپیش تھا۔ وہان امریکہ نے حمل کرنا تو کُجا بلکہ ایسے عناصر سے چشم پوشی اختیار کی ۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے ۔جس پاکستان کو نقصان پہنچتا ہو ان کے لیے امریکہ نرم گوشہ رکتا ہے مگر اس کے باوجود ہمارے حکمران بکاؤ مال درحقیقت ہمارے حکمران کم اور امریکہ کے وائسرائے زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ورنہ جیسے آپ نے لکھا ہے کہ درحقیقت ہم نے امریکہ کو حملہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ مذمت مذمت کا منافقانہ کھیل محض اپنے سادہ لوح اور پسے عام کو گولی دینے کے لیے کھیلا جارہا ہے۔ اب آگے سابقہ تبصرہ پڑھ لی جیے۔
انسان کواشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ۔ اگر انسان، انسانیت کے درجے سے گر جائے تو وہ جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے ۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے جانوروں کو بہت محدود عقل اور فطرت عطا فرمائی ہے ۔ اور قیامت کے دن جانورں کا حساب نہیں ہوگا۔ جبکہ حضرتِ انسان کو اللہ سبحان و تعالٰی نے سوجھ بوجھ اور عقلِ سلیم عطا کی ۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ دنیا کی ہر چیز پہ حضرتِ انسان کو قادر کردیا۔ ہر قسم کے اسباب عطا کیے۔ نیک و بد راستہ اختیار کرنے میں خود مختار کر دیا۔ اور روزِ قیامت اللہ سبحان و تعالٰی دنیا میں کیے گیے اعمال کا حساب کردیں گے۔ سب کو اس روز سے ڈرنا چاہیے اور اپنے اعمال کا محاسبہ ہر وقت کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی اس کے باوجود انسانیت کے درجے سے بہ رضا و رغبت گرتا ہے تو وہ جانورں سے بھی پست شمار کیا جائے گا۔ اس میں سور کا ذکر ہی کیا کہ انکو تو عقل اور تمیز ہی اتنی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ جیتے اور مرتے ہیں۔
کتا انسان کو کاٹے ، یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کتے کی فطرت کاٹنا ہے۔ اگر جواباَ انسان کتے کو کاٹ ڈالے تو یہ عقل سے بالا بات ہوگی کہ انسان کی فطرت میں یہ شامل نہیں۔اسی طرع سور جیسی حرکات بھی فہم سے ماوراء ہیں ۔
اوپر کسی صاحب نے طالبان کی ُہلہ شیری، کی ہے کہ وہ کئی سور کو لے مرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔امریکہ جس نے قائدِاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علالت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست بنانے کا آغاز، لیاقت علی خان کو اپنے نیٹ ورک میں لانے سے کر دیا تھا۔ ہماری اخلاقی بد حالی کا ذمہ دار بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکہ ہی ہے جس نے ہمارے کرتا دھرتاؤں کو حد سے ذیادہ مراعات، کمیشن ، کرپشن، ہر قسم کی غیر اخلاقی حکومتوں کی پشت پناہی کر نے اور بالآخر کروڑوں ڈالر کی نقد رشوت اور دھونس دہمکی سے پاکستان سے اخلاقی۔ سیاسی۔ دیانتداری۔ المختصر پاکستان سے جائز ناجائز اور ہر قسم کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ بھلا کبھی ایماندار اور دیانتدار معاشروں سے غدار پیدا کیے جاسکتے ہیں؟۔
ھندوؤں کی سازشوں۔ انگریز حکمرانوں کی بھرپور کوششوں اور طرح طرح کے لالچ دباؤ کے باوجود اس قدر مخالفانہ حالات میں جان دے کر، اسلام کے نام پر اسلام کے لیے ریاست بنانےکا جذبہ اور کہاں صرف ساٹھ سال بعد اسی قوم کا ایک ڈاکیہ، چپڑاسی یا پولیس کا ایک معمولی اہلکار کانسٹیبل یہ جانتے ہوئے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ُ ُ راشی و المرتشی دونوں کا ٹھکانہ جنہم ہے،، اس کے باوجود بھی داؤ لگنے پہ ہر قسم کی کرپشن جائز سمجھتا ہے خواہ اس سے مخلوقِ خدا۔ ملک و قوم۔ کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جبکہ وہ خود آخرت میں گھاٹے کا سوداکر رہا ہوتا ہے۔ اس سے صاحبِ اختیار عہدیداروں سے ہوتے ہوئے حکمرانوں تک کی داد و دہش ۔ عیش و عشرت، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ، اقرباء پروری، فرعونیت اور کرپشن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پورا نظام کرپٹ کر دیا گیا ہے۔ کسی کو بھی خریدا جاسکتا ہے۔کچھ بھی بیچا جاسکتا ہے۔ ایسے میں امریکہ کا یہ سمجھنا یا جاننا کہ چند ارب ڈالروں میں اس نے پورا پاکستان بمعہ عوام خرید رکھا ہے، شاید بیجا نا ہو۔ اگر ہمارے ہاں غیرتِ ملی اور قومی حمیت پائی جاتی ہوتی تو ہم کب کا امریکہ اور امریکہ نواز کاسہ لیسوں کا قرض چکا چکے ہوتے۔
پاکستان میں جس دن پہلی بار ملاوٹ ہوئی تھی، مستحق لوگوں کو چھوڑ کر اپنوں کو مراعات دی گئیں تھیں۔ میرٹ اور اہلیت کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنوں کو نوازا گیا ۔ سیاسی بنیادوں پہ عہدوں کی تقسیم ہوئی تھی۔ جس دن پاکستان میں پہلی بار نااہل اور بد کردار لوگوں کے ریاستی معاملات سے آنکھیں پھیر لی گئیں۔ پہلی بار ملک و قوم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے،انہیں نا صرف معاف کردیا گیا بلکہ انہیں عزت مآب ٹہرایا گیا۔ جس دن پہلی بار قانون و قاعدے سے ہٹ کر اپنی سہولت کے لئیے ضابطے توڑے گئے ۔ مظلوم لوگوں کی حق تلفی کی گئی تھی۔ یقین مانئیے طالبان کی بنیاد اسی دن پاکستان میں رکھ دی گئی تھی۔ بے شک طالبان نے ایک تحریک کی صورت بعد میں اپنائی اور طالبان نام بھی بہت بعد کے دور میں سنا گیا۔ مگر جس طرح پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس دن ہندوستان میں محمد بن قاسم نے پہلا قدم رکھا تھا پاکستان کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی۔ اس طرح پاکستان میں عدم ناانصافی کے ہاتھوں بہت پہلے طالبان کا قیام وجود میں آچکا تھا۔ خواہ اس کا نام طالبان کی بجائے کچھ اور ہی ہوتا مگر وجہ اس کی بہت سادہ ہے۔ خطے میں کئی صدیوں سے پسے ہوئے لوگوں نے سوچا تھا۔ پاکستان بنے گا تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ جو اچھی خاصی مڈل کلاس میں گنے جاتے تھے۔ وہ طبقہ بھی آج غربت اور بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کرتا نظر آتا ہے ۔ بھوک اور کفر کے درمیان بہت پتلی سی لکیر ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک مشہور قول ہے کہ ُ ُکفر سے تو ریاست قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے (ریاست قائم) نہیں رہ سکتی،،۔ عدم مساوات ، عدم انصافی کی بناء پر جس کو پاکستان میں امریکہ نے محض اپنے مفادات کی خاطر رواج دیا، لوگوں کو خریدا۔ آج اس ملک میں مایوسی اور احساسِ محرومی کے ہاتھوں ہر دوسرا آدمی مرنے مارنے پہ آمادہ ہے ۔ ان سے زندگی کی ہر تعریف چھین لی گئی ہے ۔ وہ سانس اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے میں روز مرتے اور روز جیتے ہیں ۔ ان کے پاس کل تک کی کوئی پلاننگ، کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ مستقبل کے لیے امیدوں کے چراغ جلانا اور ہوا کے رخ دیے جلانا ان کے لیے انہونی سی بات ہے۔یہ طبقہ آجکل پاکستان کی کل آبادی کا 80 فیصد بنتا ہے۔ یہ مایوسی۔ ناامیدی۔ اور احساسِ محرومی کے ہاتھوں بارود کا وہ ڈھیر ہے جسے کسی بھی تحریک جس میں برابری ۔ انصاف۔ اور مساوات نظر آئے ، ایسی تحریک کی چنگاری سے اڑایا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات ہمارے دشمن۔۔۔ پاکستان کے دشمن، بھی بخوبی جانتے ہیں۔ اور یہ قانونِ فطرت ہے کہ اس طرح کے آسیب اگر بوتل کے جن کی طرح ایک دفعہ بوتل سے باہر آجائیں تو دوبارہ واپس بوتل میں نہیں جاتے۔
ایسے میں بھی اگر ہمارے صاحبِ اقتدارو اختیار نے خوبِ خرگوش سے آنکھیں نا کھولیں تو کوئی وقت جاتا ہے پاکستان میں انقلاب چپکے اور دبے پاؤں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ جس میں ہر شئے خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ جس کے سامنے انقلابِ فرانس کی مثال بھی نہایت ادنٰی لگے گی۔اور بہت نقصان ہوگا۔
اسمیں کوئی شک نہیں پاکستان میں امریکہ نے غداری کا بیج لیاقت علی خان کی صورت میں روزِ اوَل سے بیج دیا تھا اور جو آنے والے وقتوں میں اتنا تن آور ہو چکا ہے کہ آج ہمارے حکمران تو کجاء انکے خلاصی( سیکرٹری) تک امریکہ کی اجازت کے بغیر چھینک نہیں سکتے ۔ ایک آدھ اشتناء چھوڑ کر ہر آنے والا حکمران امریکہ کو پاکستان کی بولی پچھلے حکمران سے بڑھ کر دیتا آیا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان کا سب سے بڑھ کر ٹھیکہ اور بولی دینے والے کو پاکستان کا حکمران مقرر کیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ایسٹ انڈیا اور تاجِ برطانیہ کے دور میں ہندؤستانی ریاستوں اور راجواڑؤں میں مقرر انگریز ریزیڈنٹ جو اس دور کے غدار نوابوں اور راجوں کو اپنی اوقات اور حدود میں رکھنے کے لیے ان پہ مقرر کیے جاتے تھے ، کی مانند موجودہ حکمران پاکستان کی حاکمیتِ اعلٰی کی بجائے پاکستان پہ مقرر امریکن ریزیڈنت معلوم ہوتے ہیں ۔ کچھ صاحبِ دانش یہاں تک پشین گوئی کرتے ہیں کہ زرداری کو جو ٹارگٹ دیا گیا ہے اسے حاصل کرنے کے لئیے امریکہ زرداری کی پشت پناہی اور حمایت جاری رکھے گا۔ حتیٰ کہ زرداری کا منصبِ صدارت کا وقت پورا بھی ہو جائے تو انھیں مشرف کی طرع صدارت کے عہدے سے نہیں ہٹایا جائےگا۔ کیونکہ امریکہ کے پاس زرداری سے بڑھ کر پاکستان کی بولی دینے والا فی الحال کوئی دوسرا موجود نہیں ہے ۔ اورمدت پوری ہونے پہ اگر کسی نے زور زبردستی سے زرداری کو منصبِ صدارت سے ہٹایا تو کوئی عجب نہیں کہ امریکہ اپنی افواج سے پاکستان پہ حملہ کر دے ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی انتہائی کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان حقیقی سے گفت و شنید کے ذریعے صلح کر لے اور کسی طور طالبان اور ناراض عناصر کو پاکستان کی راہ دکھا دے۔ اور طالبان و پاکستان آپس میں گھتم گھتا ہوجائیں۔ اس جوتم پیزار سے بہر حال بہتوں کا بھلا ہوگا۔ جن میں بھارت امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں۔ مگر مشیت ایزدی کے بھی اپنے پروگرام ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کے قحط الرجال (اوتر نکھتری) کے اس دور میں بھی اللہ کے کچھ نیک بندے مکمل دیانتداری سے پاکستان کو سب بحرانوں سے صاف نکال لے جائیں یا پھر خدا کوئی اور نیک سبب پیدا کر دے ۔ اور غدرانِ پاکستان اور دشمنانِ پاکستان ذلیل و خوار ہوجائیں ۔ اقوامِ عالم کے بارے میں تاریخ ایسے انہونے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کا تعلق ہے تو عراق اور افغانستان پہ مسلط کی گئی جنگ کی ہم بھی پُر زورمذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر قوم کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنی قوم و ملک کا دفاع کے لئیے دستیاب تمام وسائل برو کار لائے خواہ وہ کتنے ھی غیر معمولی کیوں نا ہوں۔ اس ضمن میں دنیا کی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ عراقیوں اور افغانیوں کو یہ حقوق دنیا میں آزادی کے لئیے طے شدہ مسلمہ اصولوں کے تحت حاصل ہیں ۔ مگر پاکستان کے اندر یہ صورتِ حال نہیں ہے۔ یہاں کوئی غیر ملکی فوج حملہ آور ہے نہ ہی پاکستان کی سالمیت کو فوری طور پہ کسی بیرونی جارحیت کا سامنا ہے۔ جس کے خلاف یہ طالبان نما دہشت گرد طالبان کا لبادہ اوڑھ کر بلواسطہ یا بلا واسطہ بھارت ، امریکہ اور کسی حد تک اسرائیل کے گھناؤنے مفادات کی تکمیل کی خاطر ریاستِ پاکستان سے نبرد آزما ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ان کو ناممکن وسائل اور معلومات تک رسائی کیسے ہوتی ہے؟۔ اصل جنگ اور جنگ کا محور جسے بنیاد بنا کر یہ گروہ وجود میں آئے ہیں۔ وہ جنگ افغانستان میں ہے ۔یہ جنگ پاکستان میں نہیں ہے ۔یہ جنگ سرحد کے اُس طرف ہے اِس طرف نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں مشرف حکومت نے امریکہ کو پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کر کے طالبان حکومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور موجودہ حکومت بھی امریکہ سے وفاداری ثابت کرنے کے لیئے مشرف کے سابقہ دور سے بڑھ کے مشرف کی پالیسیز کو آگے بڑہا رہی ہے۔ یہ تمام صورتِ حال پاکستان اور پاکستانی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے بنی۔ اگر پاکستان معاشی اور فوجی طور پر طاقتور ہوتا تو امریکہ سمیت دنیا کی کسی طاقت کی دھونس میں نہ آتا۔ آج پاکستان کی معاشی اور عسکری کمزوری کا باعث بھی امریکہ ہے۔ یہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کے مفاد میں ہے اور اب اس ایجنڈے کی تکمیل میں نام نہاد طالبان کے نام پر اور بلوچ عوام کے حقوق کے دعویدار بن کر، افغانستان میں امریکہ کی شہہ پر بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیز کے تربیت یافتہ انتہائی منظم اور ہر قسم کے سامانِ حرب سے لیس دہشت گرد بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ جو سادہ دل اور احساسِ محرومی کے مارے غریب اور بھوکے عوام میں سے نئے نئے لوگ اسلام کے مقدس نام پہ بھرتی کر رہے ہیں۔ آئے دن کے خودکش دہماکوں اور دہشت گردی سے اسلامی دنیا کی سرکردہ۔ ایک بہت بڑی اور پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کو کمزور کرنے کا گھناؤنا کھیل اسلام کے مقدس نام پہ کر رہے ہیں ۔ جس سے ریاست کا پورا نظام ہل کر رہ گیا ہے۔ ہر سُو انارکی کا دور بڑھ رہا ہے۔ اس دہشت گردی کو بنیاد بنا کر سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ کر بھاگ رہے ہیں۔ غیر ملکی ائرلائنز نے پاکستان کا روٹ ختم کر رکھا ہے۔ پاکستان کا کثیر سرمایہ، اس جنگ میں جو اس کی اپنی جنگ نہیں بلکہ اس پہ تھونپ دی گئی ہے، پہ خرچ ہو رہا ہے۔ عوام بھوک سے مر رہے ہیں مگر پاکستان میں صرف ایک ہی ترجیج ُ ُ دہشت گردی کے خلاف جنگ،، کو غیر حقیقی طور پہ ریاست کی سب ترجیجات پہ مسلط کردیا گیا ہے۔موجودہ حکمرانوں سے کیا گلہ یہ تو طاغونی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑہانے کے لیے انہی قوتوں کے ایماء پر لائے گئے ہیں۔اس لیے اسلام کے نام پر پاکستان میں اودہم مچانے والے مسلمانوں سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ خاکم بدہن پاکستان کا اگر نقصان ہوا تو طاغوتی طاقتیں کاشغر سے لیکر نیل کے ساحل تک تمام مسلمان قوموں کو روند کر رکھ دیں گی۔ اگر پاکستان سلامت ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی زرداری کے بعد کوئی محمد علی جناح دوبارہ پاکستان کے منصبِ جلیل پہ فائز ہو سکتا ہے کہ یہی جمہور کا چلن ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان تمام طاغونی طاقتوں سے جان چھڑا سکتا ہے اس طرح اسلام کا نظامِ عدل و مساوات بغیر کسی تشدد کے پاکستان میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ خاکمِ بدہن اگر پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور پاکستان کمزور ہوتا ہے تو پاکستان میں سب سے پہلی ضرب ہی اسلام لیواؤں پر پڑے گی۔
امریکہ اور بھارت ایک تیر سے کئی شکار کررہے ہیں۔ خطے میں انکل سام ، لالہ لبھو رام اور بغل بچے اسرائیل کے مفادات مشترک ہوگئے ہیں۔ اور اس خطرناک اور گھناؤنے کھیل کے کئی پہلو ہیں۔ مگر ایک پہلو ہمیں بطورِ خاص سامنے رکھنا چاہیے ۔ دوسری جنگِ عظیم کے فوراََ بعد امریکہ کو احساس ہوا تھا کہ اشتراکیت یا اشتراکی نظام، امریکی سامراجی اور اندھے سرمایہ دارنہ نظام کے لئے متبادل نظام کے طور پہ ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کا تدراک کرتے ہوئے امریکہ اور اسکی اتحادی قوتوں نے جس طرح کیمونسٹ سویت یونین کے خلاف ہر محاذ پہ سرگرم کاروائیوں کا آغاز کیا۔ اسی طرح یہ بھی سوچا کہ کس طرح کیمونسٹ سویت یونین کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کو روکاجائے۔ اپنے عوام میں اشتراکیت پسندیدگی کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے کیا لائحمہ عمل اپنائے۔ اور کس طرح اپنے عوام کو اشتراکیت سے باز رکھنے کے لیے اشتراکیت کو ناکام قرار دینے کے بارے میں پروپنگنڈے کی طرز کیا ہو؟۔ یہ سب بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ۔مگر ایک بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ کہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پہ امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے غالباَ برلن میں کیمونسٹ ریڈیو کے نام سے بظاہر ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ جو کیمونزم کے اختتام تک قائم رہا اور جس کا بھید اشتراکی سویت یونین کے خاتمے کے بعد کھلا۔ اس میں بظاہر تو کیمونزم کا پرچار کیا جاتا مگر درحقیقت جس کا اصل مقصد متواتر جھوٹ اور کذاب پہ مبنی پروپگنڈے سے عام لوگوں کو کیمونزم کی پسندیدگی سے باز رکھنا اور کیمونزم سے بیزارگی اور نفرت پیدا کرنا تھا۔ جس کا پروپگنڈا کچھ اس نوعیت کا ہوتا تھا۔ ُ ُکامریڈ تمہیں سویرے سویرے دانت صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کپڑے استری کر کے پہننے سے کیا فائدہ۔ اپنے ہمسائے کو گڈ مارننگ کہنے کا کیا مطلب؟۔ یہ سب سامراج کے ۔خون چوسنے والے رجعت پسندوں کے چونچلے ہیں۔ تم اپنے دقیانوسی بوڑھی اور بوڑھے ( مراد ماں باپ) کی باتوں پہ مت جاؤ کہ ان میں سامراج کی غلامی کی خُو ہے۔ وہ اگر پھر بھی تمہیں سچا کامریڈ بننے سے منع کرتے ہیں تو انہیں گھر سے نکال باہر کرو،، وغیرہ وغیرہ یہ چند نمونے اس کیمونسٹ ریڈیو کے ہیں جو بظاہر تو خفیہ تھا مگر اصل میں امریکن خفیہ ایجنسی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اسے چلا رہی تھی۔ اس طرع کے پروپنگنڈے کا اثر پہلے پہل ملک کے سنجیدہ طبقے پر اور ازاں بعد نوجوانوں پر بھی ہوا کہ وہ کیمونزم کو انتہائی بیزار کن اور نفرت آمیز سمجھنے لگے۔ آج وہی طاقتیں اسی طرح اسلام کے غیر سودی اقتصادی نظام، زکواۃ اور عشر سے خائف ہو کر، کیمونسٹ ریڈیو کی طرز کا پروپگنڈہ اسلام کے خلاف کر رہی ہیں اور بظاہر اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ پاکستان میں طالبان کے نام پہ افغانستان میں بھارتی تربیت یافتہ اپنے دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا شدہ پاکستانی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر۔ انہیں زندہ ذبح کرکے۔اسکول جلا کر۔ ٹارگٹ کلنگ کر کے اور اس طرح کے دوسرے واقعات کی موویز بنا کر اور عام آدمی تک ان کی رسائی ممکن بنا کر جہاں پاکستانی اداروں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہیں وہیں عام آدمی کو اسلام اور شریعت کی بات کرنے والوں سے جن کا ایسی دہشت گردی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ان سے نفرین کر رہی ہیں۔ہماری بدقسمتی سے اسمیں کچھ قلم فروش بھی شامل ہیں۔ اور عالمی ابلاغ کے اردو ڈیسک اس چیز کو بنیاد بنا کر نئی نسل پہ اسلام بیزارگی پیدا کرنے کے لیے پیش پیش ہیں۔ جبکہ اسی طرز پر طالبان طرز پہ قائم تنظیموں میں پاکستان کے خلاف پروپنگنڈہ جاری ہے۔ اور خدانخواستہ مستقبل میں پاکستان پہ حملے کو جواز مہیا کرنے کے لیے امریکن و یوروپی عوام کے لیے پاکستان کے خلاف الگ الگ ڈیسک قائم ہیں ۔ جس کا اتنا اثر ہے کہ امریکہ میں پینٹاگون کے عام سے اہلکار سے لیکر پوسٹ آفس کے ایک ادنٰی کلرک کے سامنے پاکستان کا نام لیتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔اس لئیے پاکستان کے اندر پاکستان سے نبرد آزما طالبان نما دہشت گرد جو بھارت اور امریکہ کے مفادات کی تکمیل میں دانستہ یا نادانستہ طور پہ بھارت اور امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل میں مدد گار ہو رہے ہیں۔انکی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اور پاکستان کے پڑہے لکھے اور باشعور لوگوں پہ یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس پروپنگنڈے کے توڑ کا ادراک کریں اور اپنے عوام کو اصل صورتِ حال سے باخبر رکھیں۔ اندھوں کی دنیا میں آنکھوں والوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور روزِ محشر انکا حساب بھی زیادہ ہوگا۔ اسلئیے اس موضوع کو آج کے دور میں ٹھٹھے مخول میں نہیں اڑا دینا چاہیے۔ بلکہ اسے بہت سنجیدہ لیا جانا چاہیے کہ ہم اس نازک دور میں پاکستان کو بحفاظت خیرو عافیت سے ہر بحران سے بچا کر مستقبل میں پاکستان قیام کے اصل مقاصد کو پورا کر سکیں۔اللہ تعالٰی پاکستان کاحامی و ناصر ہو۔آمین
امید کرتا ہوں کہ کسی نے میری بات کا برا نہیں منایا ہوگا میرا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں بلکہ اپنے اپنے فرائض کی نشاندہی ہے۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات افضل صاحب سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی کسی پوسٹ میں لکھا ہے کہ انسان چاہتا کچھ ہے ، بن کچھ اور جاتا ہے ۔یا اس کے سامنے پاکستان میں مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں ہوتی کہ پاکستان میں اس کا رحجان نہیں۔ وغیرہ
افضل صاحب! ماشاءاللہ آپ جو بن گئے ہیں یہ غنیمت ہے ورنہ ہمیں ُ ُ میراپاکستان،، جیسا پاکستان سے محبت کرنے والا مستقل سلسلہ کیسے ملتا؟۔ اسلیے اے دل امیدِ بہار رکھ۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین
گوندل صاحب کوئی وائس رکگنیشن سسٹم استعمال کرتے ہیں کیا؟
ہمیں بھی گُر بتا دیں، تبصرہ کیا ہمارے سے تو اتنی بڑی پوسٹ بھی نہیں لکھی جاتی۔ ہاتھ دکھنے لگتے ہیں اور نیند بھی آنے لگتی ہے۔ بلکہ اتنی پوسٹ میں جتنی دیر ہم لگاتے ہیں اتنی دیر میں تو بتّی بھی دو دفعہ جا کر آ جاتی ہے
محترم ڈفر صاحب!
حالت اپنی بھی آپ کی ہی طرع ہوتی ہے۔اور اپنی کاروباری مصروفیات سے وقت نکالنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ مگر ہمیشہ سے لکھنے لکھانے کے جنون کا اور خاصکر جب مذہب اور ملک و ملت کی بات ہو تو اپنے آرام کی قربانی دیکر اللہ سبحان و تعالٰی کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صدقہ نہ دینا خدا کی نعمتوں کی ناشکری میں شمار ہوتا۔
ویسے مجھےانٹر نیٹ کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پہ کبھی کبھار لکھنے کا اتفاق ہوتا رہتا ہے۔ظاہر ہے دوسرے قلمی نام سے۔
افضل صاحب کی سادگی و خلوص اور حب الوطنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انکے بلاگ کو میں کوشش کر کے دیکھتا ہوں۔ اور ظاہر ہے آپ جیسے مخلص کرم فرماؤں کے تبصرہ جات اور تحاریر کا بھی اپنا ہی لطف ہے
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین
ڈفر صاحب آپ جانتے ہی ہونگے کمپیوٹر میں کاپی پیسٹ کا ایک آپشن ھوگا جس کے ذریعہ آپ بڑی سے بڑی تحریر ایک کلک میں کاپی کر سکتے ہیں اس تحریر میں جاوید چودھری کے کسی مضمون کی بو آرہی ہے جس میں شاید ایک آدھ بات گوندل صاحب کی ھو یہ بھی یقینی نہیں اور “گرین ایریا”والی پوسٹ میں بھی آپ نے یہی تحریر پوسٹ کی تھی اور اسی کو یہاں پیسٹ کر دیا ھے اتنا بزا تبصرہ دوبارہ پیسٹ کرنا سواۓ اسپیم کے کچھ بھی نہیں جاوید صاحب آپ کو جو لکھنا ھے از خود لکھا کریں دوسروں کی تحاریر کواپنے نام سے پوسٹ کرنا اور بار بار کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا آپ خواہمخواہ دوسرے بلاگرز کو پریشان کر رھے ھیں
گستاخی کی معافی چاہونگا مگر مجھ سے رہا نہ گیا
محترم طفل صاحب!
حضور آپکو بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ میری تمام تحاریر میں سے صرف ایک ہی جملہ کا تعلق کسی دوسرے لکھنے والے کی کسی تحریر سے ثابت کردیں۔ خواۃ وہ کسی بھی زبان سے ہی کیوں نا ہو۔آپ اسے میری طرف سے چیلنج سمجھیں۔
مجھے انٹر نیٹ پہ ُاردو پوائنٹ، بی بی سی اردو، وغیرہ اور کچھ دوسرے اردو بلاگز پہ اپنا مدعا کہنے کی ادنٰی سی جسارت ہوتی رہی ہے ۔ اردو میں جاوید گوندل لکھ کر یا کاپی پیسٹ کرکے گوگل سرچ انجن میں میری یہ حقیر سے کوشیشیں دیکھ سکتے ہیں۔ اور کسی ایک بھی لکھے گئے تبصرے کو آپ کسی دوسرے لکھنے والے کی نقل ثابت کردیں۔ یہ بھی میری طرف سے چیلنج سمجھیں۔ اور اگر اس سے بھی آپ کی تسلی و تشفی نا ہو تو مجھے لکھ بیھجیئے گا۔ میں آپ کو مذید اپنے وہ نام بھی بتادونگا جن ناموں سے میں مستقل لکھتا آیا ہوں۔ اور ضد کریں گے تو بڑے بڑے معتبر لکھنے والوں اور معروف لوگوں کی گواہی بھی دلوا دونگا۔ ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں مجھے شاعری سے بھی شغل رہا ہے یہ
http://ajnabi.usuaris.net
میری شاعری کا صحفہ ہے ۔ مجھے خوشی ہوگی آپ اس پہ بھی کوئی تبصرہ لکھ کر مجھے ای۔میل کر دیں۔ ای۔میل کا پتہ آپ کو مذکورہ سائٹ سے مل جائے گا۔ مجھے کبھی بھی اچھا لکھنے والا یا اچھے شاعر ہونے کا دعواہ نہیں رہا مگر لکھنے کا یا شاعری کا شغل کسی دوسرے شاعر یا ادیب سے متاثر ہو کر نہیں کیا۔یاد رہے یہاں لفظ ُشغل، کا مفہوم عربی میں نہیں بلکہ اردو میں لیا جائے کیونکہ عربی میں شغل سے مراد غالباَ ملازمت یا نوکری بھی بنتا ہے۔
طفل صاحب! آپ نے ُکاپی پیسٹ آپشن ، کا حوالہ دینے کی زحمت مفت میں کی ہے۔ جبکہ میں نے مندرجہ بالا تبصرہ کے شروع میں ان الفاظ میں ُ ُزیرِ نظر تبصرہ ُگرین ایریا اسلام آباد کے سور میں لکھا تھا۔،، وضاحت بھی کردی تھی۔ اور وقت کی قلت ذاتی مصروفیات کی وجہ سے میں اسے کانٹ چھانٹ نا سکا۔ اسی تبصرے کو ہو بہو دوبارہ نقل کرنے کی وجہ کی بھی وضاحت کردی تھی۔ تا کہ احباب استفادہ کر سکیں۔ آپ نے ناحق زحمت کی۔ کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ڈفر صاحب کے پائے کا کوئی بھی صاحبِ بلاگ یا کمپیوٹر کے بارے میں معمولی شُد بُد رکھنے والاکوئی بھی شخص ُکاپی پیسٹ آپشن ، کے بارے میں بخوبی جانتا ہے۔اس لئیے یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں تھی کہ میں یہ بھی بتاتا کہ دوبارہ سے بیجھے گئے تبصرے کو کیسے دوبارہ لکھا گیا ہے۔ اور اسکی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میری حتی الوسع یہ کوشش رہی کہ شدید مجبوری کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے کے الفاظ کا اردو تحاریر میں کم سے کم استعمال کیا جائے۔
طفل صاحب! آپ نے میرے بارے میں لکھا ہے ُ ُآپ خواہمخواہ دوسرے بلاگرز کو پریشان کر رھے ھیں،، یہاں میں یہ جاننا چاہوں گا کہ وہ کون سے ُدوسرے بلاگرز، ہیں۔ جنہیں میں پریشان کر رہا ہوں۔اور کیونکر کر پریشان کر رہا ہوں؟کیا آپ میری رہنمائی کریں گے۔؟
طفل صاحب !
آپ نے جو اصل بات نہیں لکھی حالانکہ میں نے اپنے تبصرے کے آخر میں اپنی بات کا کسی کو برا نا لگنے کی بابت عرض بھی کر دیا تھا۔ وہ بات یہ تھی کہ آپ نے ُ ُگرین ایریا اسلام آباد کے سور،، کے جوابی تبصروں میں پاکستان کے اندر طالبان کے نام پہ دہشت گردی پھیلاتے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گردوں کی ُہلہ شیری، یا حوصلہ افزائی کی تھی اور بوجوہ آپ کی انا کو میرے تبصرے سے تکلیف پہنچی ہے۔ جبکہ میرے بھائی مذہب اور ملک و قوم کا مفاد ہر طرح کی انا، ذات پات،ذاتی اور قبائلی تعصب سے بہت اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے۔ ملک و قوم سلامت ہیں تو ایک دن ترقی بھی ہو جائے گی ۔ ہم باعزت بھی کہلائیں گے ، اچھے حکمران بھی مل جایا کریں گے۔میرے آپکے مسائل بھی حل ہونگے۔خوشحالی بھی آئیگی۔ ورنہ خدانخواستہ نہ ہم، نہ یہ رونقیں، نہ یہ بلاگ ، نا بحث نہ تبصرے ۔ سوائے پچھتاوؤں اور مایوسی و ماتم کے کچھ نہیں ہوگا۔اللہ سبحان وتعاٰلی ہمیں ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی توفیق طاقت عطا فرمائے ۔آمین
اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اور دوسرے تمام لکھنے والوں کی ظرح میری بھی عادت رہی ہے کہ اس طرح کی تنقید کا جواب نہ دیا جائے۔ مگر چونکہ آپ نے قارئین اکرام کو دیدہ و دانستہ گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے تو از راہِ مجبوری یہ وضاحت کر رہا ہوں تا کہ کسی ذہن میں ابہام نہ پیدا ہو۔امید ہے کہ آپ برا نہیں محسوس کریں گے۔ اور یہاں جواب آں غزل کا سلسلہ شروع نہیں کریں گے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
عزت مآب جاید صاحب آپکے چیلینج کا جواب ھمارے پاس ہے چونکہ گستاخی پہلے ہی کرچکا ھوں مزید نہیں کرنا چاہونگا آپ کو کیسے یہ پتہ چل گیا کہ مجھے آپ کےتبصرے کے کس جزو سے تکلیف پہنچی
دوسرے آپنے کس بنا پر طالبان کے ساتھ ھندوؤں کو ملوث ثابت کردیا آپکے پاس اسکا کیا ثبوت ہے
ھندو تو ھندو ہیں مگر ان سے برے وہ ہیں جو پاکستان میں مسجد میں نماز پڑھنے والے بےقصوروں پرگولیاں برساتےہیں مسجدوں پر راکٹ داغا جاتا ھے
ایسے مسلمان!!!!!؟؟؟؟؟؟؟؟؟
عزت مآب اوپر والے تبصرے نظرانداز فرماویں مجھے اپنے اوپر بہت قلق وافسوس ہورہاہے میں بہت نادم ہوں اور معافی کا طلبگار
براۓ مہربانی معاف فرمادیجیۓ آپکی نوازش ھوگی
طفل صاحب جواب ہے تو حاضر کی جیئے ۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟۔
حضور آپ کو پھر سے غلطی ہورہی ہے۔ میں نے کسے بھی جگہ مساجد پہ گولیاں یا راکٹ چلانے والوں کو خراجِ تحسین پیش نہیں کیا۔ بلکہ اس معاملے میں میرے جذبات شاید آپ سے مختلف نہ ہوں۔
آپ میرے تبصرے کودوبارہ ٹھنڈے دل سے پڑہیں۔ شاید اس الجھن کی وضاحت ہو سکے۔میرے تبصرے میں طالبان اور ُطالبان نما دہشت گرد، دو مختلف عناصر ہیں۔اور دونوں کی جنگ بھی الگ الگ ہے۔ ایک کے حق میں، افغانستان پہ امریکہ وغیرہ کے غاصبانہ قبضے کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں۔ جب کہ موخرالذکر ُطالبان نما دہشت گرد، کی پاکستان دشمن قوتوں کے تربیت یافتہ عناصر کی، پاکستان پہ مسلط دہشت گردی کی بھی مذمت کرتے ہیں۔کیونکہ افغانوں یا طالبان کی اصل جنگ امریکہ کے خلاف افغانستان میں ہونی چاہیے نہ کہ لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ یا اسلام آباد میں پاکستان کو ایک سلسلے کے تحت قتل و غارت کے ذریعئےکمزور اور بے بس ریاست ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے اندر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ جنگ مظلوم اور بھوکے عوام کو، پاکستان دشمن قوتوں اور پاکستان میں امریکہ کے لے پالک چور آمروں اور سیاستدانوں کے سامنے چارے کے طور پہ ڈال رہے ہیں۔ جس سے ملک دشمن عناصر اور بکاؤ مال اس دہشت گردی کو جواز بنا کر شمالی علاقہ جات پہ فوجی چڑھائی کے اسباب پیدا کر رہا ہے جس سے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ہیں اور اسی بہانے اسلام کا ناطہ بھی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ الفاظ میرے نہیں ۔بلکہ بعض ان لوگوں کے بھی ہیں جو طالبان کا نام رکھتے ہیں المختصر یہ بہت بڑی سازش ہے۔اور جس کا ادراک غالباَ ہمارے حکمرانوں کو نہیں اور اگر ہے بھی تو ان میں اتنی اسطاعت نہیں کہ وہ امریکن اطاعت کا جوا اپنی گردن سے اتار سکیں ۔امید ہے آپ میری وضاحت سے مطمئن ہو سکے ہونگے۔
خیراندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
طفل صاحب!
مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے اور یہ بھی بخوبی احساس ہے کہ آپ اپنے دل میں درد رکھتے ہیں۔ اور یہ درد نہائت قیمتی دولت ہے۔
جب تک آپ کا آخری تبصرہ میری نظر سے گذرتا تب تک میں اس سے پہلے والا اپنا تبصرہ پوسٹ کر چکا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے والا تبصرہ نہ بیھجتا۔
بہرحال یقین مانیں میرے دل میں آپ کے لیے اور نہ کسی اور کے لیے کسی قسم کا کوئی عناد نہیں۔ کیونکہ کسی بھی لکھنے لکھنانے والے کی کوئی بھی تحریر قارئین اکرام کی امانت ہوتی ہے ۔ اور وہ اس پہ اپنی رائے دینے اور تنقید کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔اگر میں نے کچھ وضاحتیں کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ وضاحتیں بھی محض اور محض ملک و قوم کی اس صورتِحال کی وجہ سے کی ہیں۔ اس لئیے آپ معفی کا طلبگار ہو کر مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔
اللہ آپ کو خوش رکھے۔آمین
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
Leave A Reply