نہيں؟

يورپ ميں رسولِ پاک کے کارٹون چھاپنے کے واقعہ کے خلاف عالمِ اسلام نے جو احتجاج کيا ہے وہ کافي نہيں ہے۔ جس طرح يورپين يونين نے ڈنمارک کي حمائت اسطرح کي کہ اگر ڈنمارک کے ساتھ تجارت بند کي گئي تو وہ معاملہ ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن ميں لے جائيں گے اسي طرح ہماري آرگنازئزيشن آف اسلامک کنفيڈريشن کو بھي کچھ کرنے کي دھمکي ديني چاہۓ تھي۔

دشمن اسلامي قوتوں کو ٹيسٹ کرنے کيلۓ اس طرح کي چاليں وقفے وقفے سے چلتا رہا ہے۔ کبھي يہ سلمان رشدي کے ناول کي شکل ميں اور کبھي کارٹونوں کي شکل ميں۔ يہ ايک طرح کا اسلام دشمن طاقتوں کا سروے ہوتا ہے اور اس کے نتائج کے بعد وہ اپنا آئيندہ کا لائحہ عمل طے کرتے ہيں۔ پھر جہاں جہاں وہ ديکھتے ہيں کہ ردِعمل زيادہ ہوا ہے وہ اس علاقے پر زيادہ توجہ دينا شروع کرديتے ہيں۔ جب مصر ميں اخوان المسلمين کي تحريک زور پکڑنے  لگي تو مصر کي امداد بڑھا دي گئي۔ جب نائجيريا ميں اسلامي پارٹي نے انتخابات جيتے تو وہاں اپني آرمي سے مارشل لاء لگوا ديا گيا۔ جب پاکستان ميں اسلامي اتحاد نے زور پکڑا تو جنرل ضياء کا مارشل لاء لگا ديا گيا۔ جب ترکي ميں اسلام پسند جماعت نے اليکشن جيتا تو وہاں کے قانون ميں ترميم کرکے اس جماعت کے سربراہ کو جيل بھيج  ديا گيا۔ جب افغانستان ميں اسلامي حکومت بني تو اس کو نائن اليون کا بہانہ بنا کر ختم کر ديا گيا۔ اب غزہ ميں حماس کي کاميابي کے بعد دشمن طاقتيں اس علاقے کا رخ کر رہي ہيں۔ حتيٰ کہ کہيں بھي اسلام پسند حکومت بننے نہيں دي گئي اور يہ سب کچھ اسي قسم کے سروے کے نتائج کے بعد پلاننگ سے کيا جارہا ہے مگر مسلمان ہيں کہ جہالت کي گہرائيوں ميں دبتے ہي چلے جارہے ہيں۔ جو مسلمان اپني غير اسلامي حکومتوں کو نہيں ہٹا سکتے وہ دشمنوں کي اس طرح کي يلغار کا کہاں مقابلہ کرپائيں گے۔ 

 جب يورپ کے دوسرے ملکوں نے ديکھا کہ ستمبر ميں ڈنمارک کے اخبار کے کارٹونوں کے خلاف کوئي بڑا ردِ عمل نہيں ہوا تو انہوں نے مسلمانوں ميں روشن خيالي کي اٹھنے والي لہر کو وسيع پيمانے پر ٹيسٹ کرنے کيلۓ دوسرے ملکوں کے اجباروں ميں بھي وہي کارٹون چھاپ ديۓ۔ اس کے بعد جو احتجاج ہو رہا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ ہم مسلمان يورپ کي توقع کے مطابق روشن خيالي کي اس حد تک جاچکے ہيں جہاں منبعً اسلام کي گستاخي پر بھي مسلمانوں کي روحيں تڑپنا بند ہوگئي ہيں۔

ہونا تو يہ چاہۓ تھا کہ او اي آئي سي اپنا اجلاس بلاتي اور يکجہتي کے ساتھ کوئي لائحہ عمل اپناتي۔ مگر اس کي اميد کم ہي تھي کيونکہ اس وقت سارے مسلمان ملکوں پر اسلام دشمن حکمران حکومت کر رہےہيں اور وہ تو اس واقع پر خوش ہيں کيونکہ اس طرح ان کا ايجينڈہ پايًہ تکميل تک پہنيچ رہا ہے اور ان کي حکومتيں قائم رکھنے کي يہي سب سے بڑي شرط ہے۔ اب وہ اپنني حکومتيں بچائيں يا اپنے مزہب کي فکر کريں۔

اس کے بعد ہم مسلمانوں کي باري آتي ہے ۔ ليکن اب مسلمان ہر اسلامي ملک ميں صرف اقليت ميں رہ گۓ ہيں اور وہي احتجاج کرنے کي کوشش کررہے ہيں جو ناکافي ثابت ہورہا ہے۔ ايک وقت تھا اس طرح کے  واقعہ کے خلاف لاکھوں مسلمان سڑکوں پر نکل آتے تھے اب يہ تعداد لاکوں کي بجاۓ ہزاروں ميں بھي نہيں بلکہ سينکڑوں ميں رہ گئ ہے اور اس سے يہي ثابت ہوتا ہے کہ دشمنوں کي پلاننگ کامياب ہورہي ہے اور وہ وقت دور نہيں جب ايک بھي مسلمان ايسي حرکت پر آگ بگولہ نہيں ہوا کرے گا۔

پچھلي دہائي کي کميونيکيشن نے اب دشمنوں کے کام آسان کرديۓ ہيں۔ اب وہ مسلمانوں کو گھروں ميں مصروف رکھنے لگے ہيں۔ ٹي وي کے سينکڑوں چينلز اور انٹرنيٹ نے مسلمانوں کے ذہنوں کو ماؤف کرکے رکھ ديا ہے اور ان کي حرکات و سکنات صرف گھروں تک محدود ہو کر رہ گئيں ہيں۔  پہلے ايک وقت تھا کہ مسلمان براہِ راست نشر ہونے والے کھيلوں کے مقابلوں کو چھوڑ کر نماز کيلۓ وقت نکال ليتے تھے اور اب مسلمان جمعہ کي نماز پر بھي کھيلوں کو ترجيح دينے لگے ہيں۔ نمازوں کے بعد روزوں سے مسلمانوں کو دور کرنے کيلۓ اب کھيل ماِ رمضان ميں بھي براہِ راست دکھاۓ جارہے ہيں۔

ہم نہيں کہتے کہ مسلمان انتہا پسند ہونے چاہئيں اور ان کو اس طرح کے واقعات کے خلاف دہشت گردي پر اتر آنا چاہۓ مگر اس طرح کي خاموشي بھي کوئي معنے نہيں رکھتي۔ ہميں ملکر ايک امن پسند قوم کي طرح پلاننگ سے احتجاج کرتے ہوۓ آگے بڑھنا چاہۓ۔

اس دور ميں دشمن طاقتوں کے ذرائع کي فراواني کي وجہ سے مسلمانوں کے مزہب کي بے بسي ديکھنے کے قابل ہے۔ نہ مسلمانوں کي آواز پھيلانے والا کوئي ورلڈ ليول کا ميڈيا ہے اور نہ ہي کوئي تنظيم اور نہ ہي کوئي سپر پاور۔ مايوسي گناہ ہے ليکن ان حالات ميں تو کوئي معجزہ ہي اسلام کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے وگرنہ اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کيلۓ اس وقت مسلمانوں کے پاس کچھ بھي نہيں ہے۔