جب معاشرے میں لاقانونیت ہو تو پھر حکومت کے بہت سارے اچھے اقدامات اپنے ساتھ کچھ قباحتیں بھی لے آتے ہیں۔ آج ہم صرف بھٹو کی طرف سے طلبا کو دس پیسے کے ٹکٹ پر بس کی سواری کی رعایت کا موازنہ کرتے ہیں۔ بھٹو نے حکومت سنبھالتے ہی بہت سارے انقلابی اقدامات کئے۔ ان میں سے ایک طلبا کو سکول کالج آنے جانے کیلیے دس پیسے کے ٹکٹ پر سفر کی اجازت دی اور ساتھ ہی لمبے سفر پر آدھا کرایہ کر دیا۔ طلبا کو سٹوڈنٹ کارڈ جاری کئے گئے جو وہ دکھا کر رعایتی کرائے پر سفر کرنے لگے۔
اگر طلبا کی اکثریت نے اس سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تو دوسری طرف بس مالکان اور ڈرائیوروں نے بھی طلبا کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ طلبا لمبے سفر پر آدھا ٹکٹ خریدنے کی بجائے ہر بیس میل پر بس بدل بدل کر لاہور راولپنڈی سیالکوٹ کے چکر لگانے لگے کیونکہ دس پیسے کے ٹکٹ کی رعایت صرف بیس میل تک سفر کرنے کی تھی۔ اسی طرح بس ڈرائیوروں نے سکولوں کالجوں کے سامنے بسیں روکنا بند کر دیں کیونکہ ایک تو طلبا ایک وقت میں دس سے زیادہ بسوں میں سوار ہونے لگے اور دوسرے بس کنڈکٹروں نے بھی طلبا کو یہ کہ کر بٹھانے سے انکار کرنا شروع کر دیا کہ بس میں پہلے ہی دس طلبا سوار ہیں۔
پھر کیا تھا طلبا اور بس ڈرائیوروں کی لڑائیاں روز کا معمول بن گئیں۔ بعض اوقات تو یہ لڑائیاں باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لیتیں اور کئی کئی روز کالج یونیورسٹیاں بند رہتے۔ ہمارا کالج جی ٹی روڈ پر واقع تھا۔ چھٹی کے وقت طلبا جب بس روکنے کی کوشش کرتے تو ڈرائیور بس بھگا کر لے جاتے۔ اس کا حل طلبا نے یہ ڈھونڈا کہ انہوں نے بسوں کی ونڈسکرینوں پر پتھر برسانا شروع کر دیے۔ کئی ڈرائیور تو طلبا کے ہاتھوں میں پتھر دیکھ کر رک جاتے مگر کئی بس کا رخ طلبا کی طرف کر دیتے اور جونہی طلبا جان بچانے کے لیے پیچھے ہٹتے وہ بس کو لے اڑتے۔ ایک دفعہ تو جب کوہستان ایکسپریس کی بس کی ونڈ سکرین طلبا نے توڑ دی تو ڈرائیور نے بس روک لی۔ پھر کیا تھا سواریوں اور طلبا میں خوب رن پڑا۔ آخر کار کالج پرنسپل کو موقع پر پہنچ کر حالات کو کنٹرول کرنا پڑا۔
ہماری یہ قومی عادت بن چکی ہے کہ ہم نے ہر سہولت کا ناجائز فائدہ ضرور اٹھانا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ سہولت مساوات کی بنیاد پر مہیا کی جائے گی۔ جب بااثر لوگ سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیتے ہیں تو پھر عام آدمی کی بھی ہمت بڑھ جاتی ہے اور وہ بھی عوامی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ سہولت کے ناجائز فائدے کی ایک وجہ ایک دوسرے پر بداعتمادی بھی ہے۔ ہم یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ حق صرف چھین کر ہی لیا جا سکتا ہے کوئی باری آنے پر ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر سہولت کے ساتھ اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی سرزنش کا بندوبست کرے۔ پولیس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑے اور ہمارے بااثر حکمران ان لوگوں کو چھڑانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش نہ کریں۔
ابھی پنجاب حکومت نے تمام تفریح گاہوں کا داخلہ مفت کر دیا ہے اور پارکنگ کے ٹھیکے بھی منسوخ کر دیے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم لوگ اس سہولت کے بدلے ان تفریح گاہوں کو صاف ستھرا رکھیں تا کہ حکومت ان کی صفائی پر خرچ ہونے والی رقم بچا کر اس سے مفت داخلے اور فری پارکنگ سے ہونے والے نقصان کا ازالہ کر سکے۔
یہ سچ ہے کہ حکومت تو سہولتیں دیتی ہے مگر ان سہولتوں سے جائز طریقے سے فائدہ اٹھانا ہی اصل جہاد ہے تا کہ ہم لوگ اجتماعی طور پر مہذب طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں اور دوسروں کیلیے زحمت کی بجائے رحمت بنیں۔
1 user commented in " سہولتیں اور قباحتیں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم ۔ اس دور کا ہر حکومتی عمل اس منصوبہ بندی کے ساتھ تھا کہ لوگ آپس میں ہی مصروف رہیں اور حکمرانوں کے کردار کی طرف ان کی نظر نہ جائے ۔ ٹرین پر آدھے ٹکٹ کی رعائت جو پہلے موجود تھی ختم کر دی گئی اور بسوں میں دیدی گئی مگر ساتھ بس مالکان کو کوئی رعائت نہ دی گئی جنہوں نے پچھلے پچیس سال سے ٹکٹ میں اضافہ نہ کیا تھا ۔ ایک لوکل سرکاری بس چلا کری تھی ۔ اسے بند کر کے نجی کمپنیوں پر بوجھ ڈالا گیا کیوں کے زیادہ تر بس کمپنیوں کے مالکان پیپلز پاری سے تعلق نہیں رکھتے تھے ۔
اس کے علاوہ گھی اور پیاز بازار سے غائب کر کے اس کے پرمٹ پیپلیوں کو دے دیئے گے ۔ پیاز جو ایک روپے کا دو کلو بکتا تھا وہ پانچ روپے کا ایک کلو ھو گیا ۔ گھی کیلئے لمبی لمبی قطاریں لگیں اور قطار میں کھڑے ایک آدمی کو صرف ایک پاؤ گھی دیا جاتا تھا ۔
لیٹرل انٹری کے ذریعہ نااہل لوگوں کو براہ راست بھرتی کر کے حکومتی ایڈمنسٹریشن کا نظام تباہ کیا گیا ۔ کیا کیا لکھوں ؟
Leave A Reply