کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر عمار ضیا سمیت دوسرے پاکستانیوں نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ آج پورے ہوگئے۔ کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے اور پہلے دن سترہ سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ کی خبر سے تو یہی لگتا ہے زیادہ تر مرنے والوں کا تعلق پٹھانوں سے ہے کیونکہ کسی جگہ اگر سکیورٹی گارڈ کو مارا گیا ہے تو کسی جگہ بیچارے ردی اٹھانے والے کو۔ اب یہ فسادات کیسے شروع ہوئے اس کی حقیقت تو کراچی والے ہی بتا سکتے ہیں مگر ظاہری طور پر تو طالبنائزیشن کا شور مچانے والے اور کراچی میں نئے آنے والوں کی رجسٹریشن کرانے والے ہی اس کے ذمہ دار دکھائی دیتے ہیں۔
پچھلے کچھ ماہ سے کراچی میں طالبنائزیشن کے پھیلنے کو ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا تھا اور قبائلی علاقوں میں جاری جنگ کے ردعمل کے طور پر وہاں کی مقامی آبادی کے کراچی جیسے محفوظ شہر میں نقل مکانی کرنے والوں پر سخت اعتراض کیا جا رہا تھا۔
اس اعتراض کی سیاسی وجہ تو یہ تھی کہ اس طرح اردو سپیکنگ یعنی ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کم ہونے کا خدشہ بڑھنے لگا۔ مذہبی وجہ یہ تھی کہ کراچی جیسے سیکولر شہر میں نمازی باریش پٹھانوں کی طرف سے کراچی والوں کو اسلام کی طرف گھسیٹنے کا خوف پیدا ہونے لگا۔ معاشی وجہ یہ تھی کہ کراچی کے لوگوں کا روزگار چھینا جانے لگا اور باہر سے آنے والے غیرمقامی پاکستانی کم تنخواہوں پر کام کرنے لگے۔ معاشرتی وجہ یہ تھی کہ نئے مہاجر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کراچی بھاگ آئے اس طرح ان کی کسمپرسی کراچی کی مڈل کلاس کے رہن سہن پر اثر انداز ہونے لگی۔
چہ جائیکہ پرانے کراچی والے جن کی اکثریت خود کبھی ہجرت کر کے کراچی آئی تھی وہ نئے مہاجروں کی اسی طرح ہمت افزائی کرتی جس طرح حکومت پاکستان نے ان کی مدد کی تھی اور جس طرح مدینہ والوں نے مکہ سے ہجرت کرنے والوں کو آپس میں بانٹ کر کی تھی، نئے مہاجروں کو کراچی کیلیے بوجھ اور خطرہ قرار دیا جانے لگا۔ وہ اپنے ہی ملک میں غیرملکیوں جیسے رویے کا شکار ہونے لگے۔
جتنے لوگ بھی نئے مہاجروں کی کراچی آمد پر نالاں تھے کیا وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلیے اب فسادات کی حمایت کریں گے؟ کیا فسادات ان تمام مسائل کا حل ہیں جن کو ہوا بنا کر پیش کیا جاتا رہا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ قبائلی علاقوں میں جنگ کی وجہ سے کراچی ہجرت کرنے والے فسادات کے بعد دوبارہ کس شہر میں ہجرت کرتے ہیں اور پھر وہاں سے کب نکالے جاتے ہیں؟ یہ سوالات اب ہمارے ذہن میں کھلبلی مچا رہے ہیں۔
7 users commented in " کراچی پھر فسادات کی لپیٹ میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackback[..]مذہبی وجہ یہ تھی کہ کراچی جیسے سیکولر شہر میں نمازی باریش پٹھانوں کی طرف سے کراچی والوں کو اسلام کی طرف گھسیٹنے کا خوف پیدا ہونے لگا۔[..]
اس جملے کی وضاحت ضروری ہے۔ کہ کراچی کے لوگوں کو اسلام کی طرف گھسیٹے جانے کا نہیں بلکہ انتہاپسند طالبانائزیشن سے ڈر ہے۔
آپ کا یہ اعتراض کہ مرنے والے زیادہ تر پٹھان ہیں محض آپ کی رائے ہے جو سراسر غلط ہے کیونکہ مرنے والے زیادہ تر لوگ اردو اسپیکنگ ہیں۔ جلائی جانے والی زیادہ تر گاڑیاں اردو اسپیکنگ لوگوں کی پرائیویٹ گاڑیاں تھیں۔ صرف ایک بس جلائی گئی ہے۔
اور فسادات میں بھارتی ایجنٹ ملوث ہیں ایم کیو ایم اور اے این پی کے مذاکرات میں یہ بات طے ہوچکی ہے۔ اور ان نوجوانوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری ہوچکا ہے۔ پورے شہر میں لوگ ان لڑکوں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو ہیلمٹ پہنے موٹرسائیکلوں پر شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کررہے ہیں۔
کراچی کے حالات جب بھی خراب ہوئے ہیں وہاں ان دو گروہوں یعنی مہاجر اور پٹھان ملوث پائے گئے ہیں اب شروعات کن کی طرف سے ہوتی ہے یہ جانے کی ضرورت ہے اب تک جو حادثات وقع ہوئے ہیں ان میں کسی حد تک ایم کیو ایم نے خود کو سامنے لایا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے خیال میں کراچی میں رہنے کا حق صرف ان کو ہے وہ کسی دوسری قوم کو بداشت نہیں کرسکتے ہیں حالانکہ ان کو خود سوچنا چاہیے کہ جب یہ خود ہجرت کرکے آئے تھے تو انھوں نے کن مسائل کا سامنا کیا تھا اس وقت اگر ان کے ساتھ سندھ والے ایسا کرتے تو ان ان کا کیا ہوتا خیر ماضی سے لے کر اب کے واقعات ان دو قوموں کے درمان ہی ہوے ہیں اب ان کے دلوں میں ایک دوسروں کے لیے اتنی کدورت کیوں اور کیسے بھرا اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے یہ غور طلب موضوع ہے
میرے کراچی کہ ایک دوست کا کہنا ہے کہ پٹھان کو ایسا کاٹا جا رہا ہے جیسے سبزی
اُن کے لنگوٹیہ دوست نے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی سے بھاگنے کی کوشش کی لیکن لاش کو واپس آنا پڑا۔ پر۔۔۔۔ لاش کی صورت میں
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا انسان (اکثریت)ظالم بھی ہے اور ظالم کا ساتھی بھی
ایم کیو ایم کی ظلم روا رکھنے کی تاریخ ہے مگر کیا اب بھی اہل کراچی خدا کا خوف ہیں کریں گے؟سنا تو یہ تھا کہ کراچی کے لوگوں میں دین کی رغبت زیادہ ہے
میں بھی کراچی کا ہوں اسی معنی میں جس سے اہل کراچی کی پہچان کی جاتی ہے مگر حق یہ ہے کہ انصاف کی بات کرو تو عصبیت کا بت تو اسلام نے توڑ دیا تھا یہ کراچی میں یہ بت خانہ کیسے بنا؟اور بد کرداروں ظالموں کے حماعتی میرے شہر کے لوگ کینکر بنے؟کرچی کو توڑ کر کفار کو دینا نوشتہ دیوار ہے اور شہر کے باسی اپنے انجام سے دوچار ہون گے
نعمان چاچا آپ کس کی طرف ہیں کراچی والوں کی طرف یا پٹھانوں کی طرف
ظاہر ہے آپ کا رجحان ہمیشہ کفار کی طرف رہتا ہے
ویسے ایک بات ظاہر ہے ان فسادات سےآپکو ضرور مزہ آیا ہوگا کہ مسلمان آپس میں مارکوٹ مچائیں اور اللہ کےدشمن اور آپکےدوست اپنا کام کرتےرہیں آپکی خوشی اسی بات سے ظاہر ہورھی ہے کہ آپکا عرصہ سے مردہ پڑا کیبوٹر ایک بار پھر فعال ھو گیا
خیر چاچا آپکی شان میں کچھ گستاخی کرتے لگتے ہیں اگر توفیق ہو تو معاف کردینا بزرگوار چاچا نعمان جی
😀
الطاف بھائی واقعی اولیاء ہیں
از: موج دین
الطاف بھائی اولیاء ہیں۔واقعی۔آپ کواعتراض ہو گا۔کچھہ نہیں تو گرامر پر ،مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الطاف بھائی اتنے دن سے کہہ رہے تھے کہ کراچی میں کچھہ ہونے والا ہے،کچھہ ہونے والا ہے۔مگر کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا تھا۔اب دیکھہ لیا نا؟ الطاف بھائی کو پہلے ہی پتہ تھا۔ایک سال سے وہ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ کراچی کا امن خطرے میں ہے۔
اب اولیاء والا واقعہ سن لیں۔ کسی دور افتادہ گاءوں میں کوئی ناری اپنے آشناء کے ساتھہ “بھاگ” گئی۔
سارا خاندان صدمہ سے نڈھال تھا۔منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔گھر کا ہر فرد روئے جا رہا تھا۔ مگر باپ تھا کہ روتا بھی جاتا مگر کہتا جاتا۔۔ ” کچھہ بھی ہو لڑکی اولیاء تھی”۔لوگوں نے پنک کر پوچھہ لیا کہ چاچا یہ کیا منطق ہے؟ باپ کہنے لگا”بچاری کئی دن سے بار بار کہہ رہی تھی ،گھر میں کوئی بندہ گھٹ ہونے والا ہے۔تھی اولیاء”
الطاف بھائی بھی اولیاء ہیں۔ کئی دن پہلے ہی انہوں نے آگاہ کر دیا تھا کہ کراچی میں کچھہ ہونے والا ہے۔ملکی ایجنسیاں اور خفیہ والے کچھہ نہ پکڑ سکے ورنہ الطاف بھائی بچے بچے کو ان واقعات کے لئے “تیار” کر رہے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی”سلامتی” کےذمہ دار ادارےاس قدر کھلی وارادت پراس بار کیا کرتے ہیں؟
ہم بھی سیدھے ہی ہیں۔ ایک ہی فلم بار بار دیکھہ کر سوچتے ہیں شاید آٓج فلم میں ہیرو گھوڑے سے نہ گرے ،یا ٹرین لیٹ ہو جائے۔
یہ ادرے ۱۹۸۶ میں جو کرتے رہے وہی اب بھی کریں گے اور کیا کریں گے؟جو ۱۲ مئی ۲۰۰۴ ء کو کیا وہی کریں گے۔جو ۱۲ مئی ۲۰۰۷ ء کو کیا وہی اب بھی کریں گے۔
کسی نے کئی سو سال پہلے کہا تھا
کالے پت نہ چڑھے سفیدی
کاگ نہ تھیندے بگے
﴿کالے کپڑوں پر سفیدی نہیں چڑھتی،کوے سفید نہیں ہو سکتے﴾
یہ با عزت اور با وقار ادارے وقار سے کھڑے ہیں ،سب دیکھہ رہے ہیں اور خون بہتا دیکھہ کر ان کے بوٹوں پر بھی جوں نہیں رینگتی،ہاں وہ تو اسے ہی “عوامی قوت” کا مظہر کہتے ہیں۔
پروفیسر عبدالغفور صاحب نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم اور اے این پی کراچی کے قتل و غارت کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ ہاں اپنی روش برقرار رکھی ہے۔کیا انہیں اپنے گھر پر ہونے والے بم دھماکے یاد نہیں؟پتہ نہیں یہ لوگ سچ بولنے سے کیوں باز نہیں آتے۔کیا جیو اور اے آر وائی کی طرح مشکل وقت میں چپ نہیں رہ سکتے۔ دیکھتے نہیں غصے میںٰ”یہ لوگ” کیا کچھہ کر سکتے ہیں۔
ادھر شہر میں انسانی خون کی نصف سنچری مکمل ہوئی ہے ادھر الطاف بھائی نے “امن بھیک مشن” شروع کر دیا ہے۔ لوگ اب بھی الطاف بھائی کے خلوص پر بھروسہ نہیں کر رہے۔
مگر۔۔۔آفرین ہے حمید گل صاحب پر ،انہوں نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کے لئے بلائی جانے والی کانفرنس الطاف حسین کے بغیر بے کار ہو گی۔یہ مزاحیہ فلم اب لیٹ ہو گئی ہے۔اگر طنزیہ ہے تو بھی۔حمید گل صاحب تو رازدار ہیں پورے افسانے کے۔اب سچ بول ہی دیں۔ بہت ہو گیا۔کبھی کبھی عوام کو دھوکہ نہ بھی دیا جائے ،تو کیا ہے۔وقفے میں حرج ہی کیا ہے؟
یہ حمید گل صاحب وہ ہیں کہ جب کور کمانڈر ملتان تھے تو ایم کیو ایم کی سرکاری سرپرستی کا “استریتجک” دفاع کیا کرتے اور اسے ضروری قرار دیتے تھے۔واہ ! تقسیم میں وحدت کے سرچشمے ایسی دور رس نگاہیں ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ہما شما کا کیا کام۔
ہم آپ کیا جانیں ملکی مفاد،ملکی سلامتی کے تقاضے،پاکستانیوں کے باہمی فسادات کی برکتیں،قومیتوں کی بنیاد پر زہریلے پروپیگنڈے کی افادیت۔گاڑیاں جلنے،گھر لٹنے،کاروبار تباہ ہونے،اورنفرت اور خوف و ہراس کے پیچھے چھپی برکات و حسنات ۔ اس کے لئے چاہیے صاحبان کمال اور حاملین قوت کی نظر۔۔۔۔کیوں حمید گل صاحب
ٹھیک ہے نا؟
غزالاں تم تو واقف ہو!
loudtruth@gmail.com
یہ درست ہے۔الطاف صاحب کئی ماہ سے ان فسادات کی تیاریوں مین مصروف تھے۔
اخبارات کی فائیلین اس کی گواہ ہیں۔ایم کیو ایم کے اوور سیز کے زمہ داران ہنستے ہین جب معصوم لوگ اسے بھارت اسرائیل کی سازش قرار دیتے ہیں۔
اب تو سب جانتے ہیں کہ انسانی جان کی قدر ایم کیو ایم کے نزدیک کیا ہے۔اور قتل وغارت کتنا معمولی کام ہے۔
کسی معاشرے میں جہالت موجود ہونا تو عام بات ہے ،مگر اس کی سیاسی،فوجی اور بین الاقوامی سرپرسی انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
Leave A Reply