انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم ان ٹيموں میں سے ایک تھی جس کو پاکستان میں سیکیورٹي پر تحفظات تھے اور انہوں نے چیمپیئن ٹرافی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ باقی باقی دنیائے کرکٹ کی اچھی ٹیموں نے بھی یک زبان ہو کر ناں کر دی۔ ان کی وجہ سے ہی چیمیئن ٹرافی کا انعقاد نہ ہو سکا اور پاکستان کو ویسٹ انڈیز کیساتھ دبئی میں ون ڈے سیریز کھیلنا پڑی۔ حالانکہ اس سے قبل آسٹریلیا نے ستمبر 2007، زمبابوے نے فروری 2008 اور بنگلہ دیش نے اپریل 2008 ميں پاکستان کا دورہ کیا اور انہیں سیکیورٹی کا مسئلہ کہیں بھی پیش نہیں آیا۔
ممبئی دھماکوں کے بعد انگلینڈ کی ٹيم اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر انگلینڈ واپس چلی گئی مگر آج کی خبر کے مطابق انگلینڈ کے تمام کھلاڑی دورہ جاری رکھنے کیلیے انڈیا کیلیے دوبارہ روانہ ہو چکے ہیں۔ سوچنے والی بات ہے کہ کیا انڈیا میں انہیں سیکیورٹی پر اب تحفاظات نہیں ہونے چاہیں تھے۔ ممبئی دھماکوں کے چار دن بعد ہی انڈیا کی امن و امان کی صورتحال اس قابل ہو گئی کہ اب وہاں پر سیکیورٹی کا مسئلہ ہی نہیں رہا۔
گورے کرکٹروں کا یہ دوہرا معیار پتہ نہیں کب ختم ہو گا اور کب وہ مسلم اور غیرمسلم ملکوں کی سکیورٹی کی صورتحال کو ایک آنکھ سے دیکھنا شروع کریں گے۔ کب وہ مسلمانوں کو اپنی جان کا دشمن سمجھنا بند کر دیں گے۔ اب اگر خدانخواستہ پھر کہیں انڈیا میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آ گیا تو پھر گورے کیا کریں گے؟
3 users commented in " دوہرا معیار "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا نہیں خیال کہ اس میں مسلم یا غیر مسلم ملک کا مسئلہ ہے۔ بھارت کو کرکٹ میں پیسے کے حساب سے پاور ہاوس مانا جاتا ہے اور بھارتی کرکٹ بورڈ اب دنیائے کرکٹ کا سب سے طاقتور ترین بورڈ ہے۔ آئی پی ایل میں پیسوں کی چمک اصل محرک ہے جس کی وجہ سے کھلاڑی بھارت جانے پر مجبور ہیں۔ ورنہ سیکیورٹی کی صورت حال بلاشبہ پاکستان میں ابتر ہے لیکن دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کے حوالے سے کوئ جگہ محفوظ نہیں۔
یہ مسلم غیر مسلم کا ہی چکر ہے
بے شک بھارت کرکٹ کی بڑی منڈی ہے لیکن پاکستان آنے میں بھی دوسری ٹیموں کو پیسے کے حوالے سےکوئی نقصان نہیں۔ اور جہاں تک بات ہے بھارت میں دوبارہ دہشت گردی کا واقعی ہونے کا تو کچھ نہیں ہو گا۔ انگلش ٹیم پھر سے جا کر واپس آ جائے گی
یہی طریقہ ہے، ملکوں کی امیج بنانے کا۔
پرویز مشرف نے پاکستان کی ماں بیٹیان بیج دیں مگر پھر بھی کافر آج بھی پاکیستان کے دشمن ہی ہیں۔
Leave A Reply