ہم چونکہ بھارت کے پڑوسي ہيں اور اس کے حريف بھي اسلۓ جب بھي امريکہ کے صدر بھارت کے خصوصي دورے پر آتے ہيں تو انہيں پاکستان کا دورہ مجبورأ کرنا پڑتا ہے تاکہ اس طرح وہ ہماري غير جمہوري حکومت کو سپورٹ کر کے سادہ لوح لوگوں کے دلوں ميں اس کي دھاک بٹھا سکيں۔
ہم اس وقت امريکہ کے حليف ہيں اور دہشت گردي ميں اس کي جتني مدد ہم نے کي ہے کسي اور ملک نے نہيں کي۔ مگر اس کے بدلے ہم نے وہ کچھ حاصل نہيں کيا جو ايک محبِ وطن کو کرنا چاہۓ تھا۔
ہم امريکہ کي اس مشروط دوستي کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ کچھ اس طرح کي امداد مانگتے تو اپني قوم پر حکومت کرنے کا حق صحيح طرح سے ادا کرسکتے۔ پچھلے دنوں ہم نے ايک سروے ميں لوگوں سے پوچھا تھا کہ پاکستان کي ترقي کيلۓ سب سے ہم ذريعہ کونسا ہے تو اکثريت نے تعليم کا نام ليا تھا اور ہم بھي اس سے متفق تھے۔ اسلۓ اگر ہميں تعليم عام کرنے ميں مدد دي جاۓ تو يہ ايک مخلص دوست کا بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ اگر ہمارے حکمرانوں پر شک ہوتا کہ وہ رقم مخصوص مقصد کيلۓ استعمال نہيں کریں گے تو پھر يہ امداد تعليم کے ساتھ مشروط کر دي جاتي يا پھر براحِ راست يو ياس ايڈ کے ذريعے خود خرچ کي جاتي۔ اسطرح تعليم عام ہوتي اور ملک ترقي کرتا۔
ہم اگرملک کي خدمت واقعي کرنا چاہتے تو سافٹ ويئر بزنس ميں اپنا کوٹہ مختص کرواتے اور بھارت کے مقابلے ميں اپنے آپ کو اس ميدان ميں آگے لاتے۔ اس طرح اس جديد ٹيکنالوجي ميں ہم مہارت حاصل کرتے اور ملک کو ترقي کي شاہراہ پر ڈال ديتے۔
اگر سمجھدارہوتے تو اپنے دوست سے نئي ٹيکنالوجي مانگتے تاکہ ہم اس ٹيکنالوجي کو استعمال کرکے اپني ترقي کي شرح بڑھا سکتے اور ملک کو دنوں ميں کہاں سے کہاں پہنچا ديتے۔
ہميں رسولِ کريم کے دور کا واقعہ ياد ہے جب ايک شخص ان سے بھيک مانگنے آیا تو انہوں نے اس کي کوئي چيز بيچ کر اسے کلہاڑا خريد کر ديا اور کہا کہ جا اس کلہاڑے سے لکڑياں کاٹ اور محنت مزدوري کرکے اپنا پيٹ پال۔ اسي طرح آج بھي جن ملکوں نے ترقي کي ہے اسي اصول کو اپنا کرکي ہے مگر ہم ہيں کہ کاسۂ قدائي چھوڑنے کو تيار نہيں ہيں۔
ہميں اس وقت جو امداد دي جارہي ہے وہ سب دہشت گردي کے خلاف جنگ اور انتہا پسندي کو ختم کرنے سے منسلک ہے۔ اس امداد سے ہم ترقي نہيں کر پائيں گے اور نہ ہي اپنے پاؤں پر کھڑے ہوپائيں گے۔ اب بھي وقت ہے کہ ہم کمر بستہ ہوجائيں اور تعليم اور جديد ٹيکنالوجي حاصل کرنے کيلۓ دن رات ايک لگا ديں تو پھر ديکھۓ گا کہ آئندہ ہونے والے دوروں کا پہلا سٹاپ بھارت کي بجاۓ پاکستان ہوا کرے گا۔
دہشت گردي اور انتہاپسندي کو اگر صحيح معنوں ميں ختم کرنا ہے تو عوام کے شعور کو بيدار کرنا ہوگا اور ان کے خالي پيٹ بھرنے ہوں گے اور يہ کام تعليم اور جديد صنعت ہي کر سکتي ہے اور کوئي نہيں۔
1 user commented in " ہم اگر محبِ وطن ہوتے تو صدر بش سے کيا مانگتے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackBrother, your views are right that we need to work on the improvement of education standards, but its wrong to compare ourselves with India. The position India is standing at the moment is the fruit of 30 years history in IT industry. When India was exporting software in 1980’s, in our country computer was an unknown entity. India has more than 25$ billion dollars IT and related services industry, Pakistan has merely 50$ million. Don’t get me wrong, I am not saying we can not succeed, what I am saying is there is lack of leadership and vision in our country. As you said, all the money/donations we are receiving are on the name of so called war against terrorism. It’s the same story we went through in Zia’s regime when we are the favourite friend of USA on war against USSR. Anyway, I am still hopeful because there are people like Dr. Ata ur Rehman, Imran Khan and some others who can lead the country in a right direction.
Many thanks
Leave A Reply