آج کے جنگ اخبار میں فن لینڈ میں چوری ہونے والی کار کا مجرم پکڑنے کی روداد پڑھی تو ہمیں اپنی چوری ہونے والی کار یاد آگئی۔ خبر کیمطابق کار چور کار سے ملے مچھر کے ڈی این اے ٹیسٹ سے پکڑا گیا۔
ہم نے شادی سے قبل اپنے بھائی سے کار کی فرمائش کی تو انہوں نے ہمیں 1976 کی ٹویوٹا کرولا پینتالیس ہزار روپے میں خرید دی۔ کار خریدے ابھی تین ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہم مہمانوں کیساتھ اسلم مارکیٹ واہ کینٹ خریداری کیلیے گئے۔ خریداری میں کوئی پانچ منٹ لگے ہوں گے۔ جب دکان سے باہر نکلے تو ہماری کار غائب تھی۔ تھانے جا کر رپورٹ لکھوائی اور گھر آ گئے۔
ایک ماہ بعد پتہ چلا کہ واہ کینٹ میں کار چور پکڑے گئے ہیں۔ اس وقت تھانے میں ہمارے برادر ان لا جو سب انسپکٹر تھے کے دوست تھانے کے انچارج لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں چوروں سے ملوایا۔ اس وقت پولیس کی مار کی وجہ سے دونوں چوروں کے منہ سوجے ہوئے تھے اور جسم پر جگہ جگہ زخموں کے نشان تھے۔
دونوں چوروں نے ہماری کار چوری کرنے کا اعتراف کر لیا۔ ایک چور نے بتایا کہ کار اس نے پانچ ہزار روپے کے عوض علاقہ غیر پہنچا دی تھی۔ ہم نے دو دوستوں کو ساتھ لیا اور علاقہ غیر جا پہنچے۔ پہلے تو ہم ہر آدمی کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر ہی سہم گئے۔ کار چور کی نشاندہی پر ہم نے سردار کا پتہ پوچھا تو کسی نے اس کے اڈے پر پہنچا دیا۔ سردار کار چوری کا تو نہیں مانا ہاں البتہ اس نے پہلے تو ہمیں ڈرایا دھمکایا اور اس کے بعد ایک ہزار روپے کے بدلے کار ڈھونڈنے کا وعدہ کر لیا۔ ہم ہزار روپے لٹا کر واپس آ گئے۔ بعد میں نہ دوستوں کی ہمت پڑی واپس جانے کی اور نہ ہمارا دل مانا۔
چوروں کی نشاندہی پر جو کاریں پکڑی گئیں ان کی فوٹو اخبار میں تھانے کے عملے کیساتھ چھاپی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ جو کاریں برآمد ہوئیں وہ مالک اپنے زور پر واپس لائے تھے ان میں پولیس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا مگر چوروں کو سزا دلوانے کیلیے خبرکا ڈرامہ رچایا گیا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمیں چوروں کیخلاف گواہی دینے کیلیے صرف ایک پیشی ہی بھگتنی پڑی کیونکہ کار چوروں نے پہلی پیشی پر ہی اقرار جرم کر لیا۔ پیشی کے بعد ہمارے پوچھنے پر چوروں نے بتایا کہ انہوں نے اقرار جرم اس لیے کیا کہ اس طرح وہ جلد رہا ہو جائیں گے اور پھر اپنے دھندے میں لگ جائیں گے۔ اگر وہ مقدمہ لڑتے تو زیادہ دیر جیل میں رہتے۔
سنا ہے دہشت گردی کی بدولت پاکستان میں بھی اب ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت میسر ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے اب ہماری پولیس بھی کار چوروں کو پکڑنے کیلیے مچھروں کا ڈی این اے ٹیسٹ لینا شروع کر دے۔ پاکستان میں کار چور پکڑنے کا یہ طریقہ زیادہ کامیاب ہو گا کیونکہ پاکستان میں مچھر فن لینڈ سے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں۔
5 users commented in " کارچور "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackI have read the news in paper. Very astonishing but great technology!
ھا ھا ھا :-D لگتاہے اب سکیورٹی کے لۓ مچھر بھی پالنے پڑینگے اپنا خون جگرپلاپلاکر
اورھاں!!! یہ مجھرنہیں مچھرہوتاہےشائد
اور اگر ڈی این اے کسی “بااثر“ کے من چلے بچے کا نکل آیا تو؟ ٹیکنالوجی بھی وہیں اپنا کام کرتی ہے جہاں قانون کی بالادستی ہو، بغیر قانون کی بالادستی کے ٹیکنالوجی کیا کرلے گی 🙂
یهاں تو جی شریف اور زردار لوگ کسی کام نهیں هيں اور اپ مچھروں پر امید لگا بیٹھے ییں !!ـ
اسی کو شائد ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کہتے هیں ؟؟
پاکستان کی اسمبلی میں جو مخلوق بیٹھتی هے وه دکھنےمیں تو بلكل انسانوں جیسی هی لگتی هے مگر ان کے کام انسانوں جیسے نہیں هیں ـ
بحرحال جو بھی مخلوق هیں هے یه مخلوق مچھروں سے بھی گئی گزری کیونکه مچھر بھی اپنا ڈنگ لگانے کا مفرض بڑی دمه داری سے پورا کرتا ہے چاهے آپ منجی کے نیچے هی کیونناں چھپ جائیں
لیکن یه مخلوق ـ ـ ــ ؟
بھائی یہ ساری چیزیں ہمارے پاس بھی موجود ہیں لیکن ہم ان کا استعمال نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں جرم ہونے سے پہلے ہی مجرم کا پتا ہوتا ہے
Leave A Reply