ہمارے خاندان کے اکثر بزرگ مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور جب بچپن میں ہم اپنے چچا، ماموں وغیرہ کو دیہاڑی لگاتے دیکھتے تو دل میں یہی خواہش پیدا ہوتی کہ اللہ ہمیں جسمانی مشقت والی مزدوری سے بچانا۔ اس سے بچنے کیلئے ہم نے روزنامہ امروز کے ایڈیٹر کو خط لکھا اور پوچھا کہ ہم میٹرک کے بعد کیا کریں کہ ہمیں جسمانی مشقت نہ کرنی پڑے۔ ایڈیٹر نے جواب میں لکھا کہ ڈاکٹر یا انجنئر بن جاؤ اور فلاں فلاں مضامین پکڑ لو۔
ہمارا رجحان شروع سے ہی انجنئرنگ کی طرف تھا اور ہم نے میٹرک میں بھی بیالوجی کی بجائے ٹیکنیکل ڈرائنگ ہی پڑھی۔ لیکن ایف ایس سی میں داخلے کے وقت بڑے بھائی نے مجبور کیا کہ ہم میڈیکل میں ایف ایس سی کر کے ڈاکٹر بنیں۔ ہم نے بمشکل ایک ماہ ہی بیالوجی پڑھی اور جب کچھ بھی پلے نہ پڑا تو اس کے بدلے حساب کا مضمون لے لیا۔
یعنی جسمانی مشقت سے ڈر نے ہمیں انجنئر بنا دیا اور اب ہم اپنے خاندان کے بہت سے ہمجولوں میں اچھی پوزیشن پر ہیں جس پر ہم خدا کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات ہمیں اس وقت یاد آئی جب ہم اپنے دو جوان بیٹوں کیساتھ پرانے گھر کے قالین اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ابھی کام کرتے آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ چھوٹا بیٹا بولا “ڈیڈ لگتا ہےمیں اس کام کیلیے پیدا نہیں ہوا”۔ ہم نے کہا اگر یہ سچ ہے تو پھر ہماری طرح خوب پڑھو اور جسمانی مشقت سے جان چھڑا لو۔ بیٹا کہنے لگا پڑھ تو میں رہا ہوں اور پڑھ بھی جاؤں گا مگر یہ کام میرے سے نہیں ہوتا۔ جیسے تیسے ہم تینوں نے تین گھنٹے میں وہ کام ختم کیا اور گھر لوٹ آئے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اگر منزل کا تعین کر لے چاہے اس کے پیچھے جو بھی وجہ کارفرما ہو تو کوئی اسے منزل پانے سے نہیں روک سکتا۔ ہاں اگر آپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ کرنا کیا ہے تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔
14 users commented in " جسمانی مشقت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackالسلام علیکم،
جناب اگر پڑھے لکھے لوگ گھر کے کاموں کے لیے ہاتھ پاؤں ہلا لیں تو اس سے ان کی حیثیت کم نہیں ہو جاتی اور نہ ہی ان علمی رتبے میں فرق پڑتا ہے۔ اور میری دانست میں اچھی پوزیشن پر وہ سب لوگ ہیں جو اپنے حال پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
والسلام
سنا ہے جسمانی محنت نہ کرنے والوں کو طرح طرح کے امراض آگھیرتے اور سارا عیش جہنم ھو جاتا ہے جب لذیذ کھانو کی جگہ آلو کےسوپ اور کریلے کےجوس لے لیتے ہیں اس لیۓ انسان کو کم ازکم کم اپنے کام خود کرنا چاہیۓ ورنہ چار قدم کے لیۓ ٹیکسی کرنے والوں کو کئ کئ کلومیٹر پیدل دوڑ لگانے کی سزاپاتے تو سب نے دیکھا ہی ہوگا
اللہ ہی جانے کون بشر ہے
آپ تو منزل کے تعین کے بعد بن گئے جو آپ نے چاہا
مجھے تو اللہ تعالٰی نے زبردستی بنا دیا 😀
میں تو دیہاڑی لگانے کے لئے بالکل ریڈی تھا
لوگ ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں اور جو چاہتے ہیں نہیں مل سکتا
پر میں تو اللہ کا جتنا شکر کروں کم ہے
میرے خیال میں ہمجولیوں کو ہمجولوں سے بدل دیں 😀
یہ سب خدا کی دین ہے مگر اس کے لیے محنت اؤلین شرط ہے۔ اللہ سبحان و تعالٰی اپنے بندوں کی عزت رکھتے ہیں۔ آپ صدقِ دل سے کوئی بھی فیصلہ کریں ۔ اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔
بہرحال تعلیم اور اور علم کے سمندر سے اکتاسب میں یہ بات ضرور مدِ نظر ہونی چاہیے کہ ایک تو ہر مسلمان کو علم حاصک کرنا ضروری ہے اور دوئم لازمی نہیں کہ ہر قسم کا علم آپ کے دنیاوی یا اقتصادی فوئد کے ہی کام آئے۔ علم آپ کی شخصیت تعمیر کرتا ہے۔ علم دین و دنیا میں اپنے کردار (فنکشن) سے لیکر باقی ماندہ دیگر اجزاء کے کردار (فنکشن) کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اور علم (ٹیکنالوجی) کی شکل میں آپ سے مسلمانوں اور انسانیت کی ترقی کا تقاضا کرتا ہے ۔اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب اور عام مسلمانوں کو بھی ترقی دینا جہاں صاحبِ علم لوگوں پہ فرض ہے، وہیں یہ ان کے علم کا صدقہ بھی ہے۔ اس لئیے بھی مسلمانوں کو ہر قسم کے علم سے فیضِ اکتساب کرنا چاہیے۔ محض اپنا ذاتی مفاد مدِ نظر نہیں ہونا چاہیے۔
کھیل کود۔ ورزش۔ روازانی کی سیر یا چہل قدمی وغیرہ انسانی جسم کے لیے بہت ضروری ہے ۔ تا کہ جسم کے مختلف اعضاء اپنا اپنا فنکشن بہتر طریقے سے کر سکیں۔ اور جمسمانی بحران ( بیماری۔ بخار وغیرہ) کی صورت میں جسمانی قوتِ مدافعت بہتر کام کر سکے۔
صحت مند ذہن کے لیے صحت مند مشاغل ( کھیل کود۔ ورزش۔چہل قدمی۔ مشق۔ وغیرہ) نہائت ضروری ہیں۔
صاحبان، بات کیا کرنی تھی مطلب کیا نکل آیا۔ یھ اکثر ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم اکثر اپنے عزیزوں رشتہ داروں سے فون پر بحث کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کیونکہ بات آپ کوئی کریں گے اور مطلب کوئی اخذ کر لیا جائے گا۔ یہی ہماری پوسٹکیساتھ ہوا۔ ہم نے جسمانی محنت کی بات نہیں کی تھی بلکہ مشقت کی بات کی تھی اور مشقت بھی وہ جو جان پر بھاری پڑے۔ مثال کے طور پر سٹیشن کے قلی، بھٹہ مزدور، ٹوکری ڈھونے والے، اینٹ گارے میںمدد کرنے والے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ بات سب جانتے ہیں کہ صحت کیلیے ورزش ضروری ہے مگر قید بامشقت ضروری نہیں جس میںآدمی کی ہڈیاں تک گل جاتی ہیں۔
اس غلط فہمی پر معذرت ۔ آئیندہ کوشش کریں گے کہ اپنا نقطہ نظر بہتر طور پر بیان کر سکیں۔
میرے خیال میں تو محنت و مشقت سے مزدوری کمانا نہایت قابلِ فخر بات ہے کیونکہ محنت و مشقت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔
ویسے کیا آپ کوئی ایسا پلگ ان نصب کر سکتے ہیں جو تبصرے کا جواب آنے پر بتا دیا کرے؟
ایک اور اہم بات تو میں بھول ہی گیا کہ علم انسان بننے کے لیے ہوتا ہے۔ نوکریوں کے حصول یا جسمانی مشقت سے بچنے کے لیے نہیں۔
سعد صاحب ،
کوشش کرتے ہیںکہ ہم ایسا پلگ ان انسٹال کر سکیں۔
شکریہ۔ پلگ ان کی تنصیب کے بعد کافی سہولت ہو جائے گی۔
السلام علیکم
بیشک انسان کو محنت کی عظمت ضرور ملتا ہے اگر وہ محنت کریں تو خدا انکی محنت ضائع نہیں کرتا
دوسری بات میں FA کرچکی ہوں اور مالی مشکلات کی وجہ سے مزید تعلیم سے قاصر ہوں_تو مہربانی کرکے اگر میرے لئے “میرا پاکستان” میں کوئی جاب ہو تو ضرور تحریر کیجئے؟
مسرت جی، اگر آپ ہم سے ای میل سے رابطہ کر سکیںتو ہو سکتا ہے ہم آپ کی کچھ مدد کر سکیں۔ جو ای میل آپ کا تبصرے میں ہے وہ غلط ہے۔ ہمارا ای میل ایڈریس ہے۔
merapakistanblog@gmail.com
جی صاحب!
ان دنوں میرے کمپیوٹر کا ونڈو کرپ ہے_ اور میں اپنی سہیلی کی کمپیوٹر کھبی کبھا آن کرتی ہوں
نیچے میرا موبائل نمبر ہے اس پر sms کیجئے؟ شکریہ
03438476304
مسرت جی
ہم ایس ایم ایس نہیںکر پائیں گے کیونکہ ہم نے کبھی کیا نہیں۔ یہ تو نوجوانوں کا کھیل ہوا ناں، ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ای میل سے اپنے کوائف بھیجیں ہم دوست کی ڈیوٹی لگائیں گے جو آپ کے کوائف چیک کر کے ہماری طرف سے آپ سے بات کرے گا۔
Leave A Reply