سیدہ شگفتہ نے قرآن کے نازک مسئلے کو چھیڑ کر پانی میں پہلا پتھر پھینکا اور پھر اجمل صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔ ہم نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہیں ۔ امید ہے باقی بلاگرز بھی اس اہم اور نازک موضوع پر نپے تلے انداز میں اپنا نقطہ نظر بیان کريں گے۔ ہمارا نقطہ نظر کافی سارا ہٹ کر ہو گا اور امید ہے قارئین ہماری بات کو مثبت انداز میں لے کر بحث کو آگے بڑھائیں گے۔
قرآن عربی میں اسلیے نازل ہوا کہ اس علاقے کی زبان عربی تھی۔ قرآن ہیبرو یا انگریزی میں بھی نازل ہو سکتا تھا کیونکہ تورات اور انجیل کی یہی زبانیں تھیں۔ خدا اگر چاہتا تو پہلے اپنے نبی کو ہیبرو یا انگریزی کی تعلیم دیتا اور پھر انہی پرانی زبانوں میں وحي نازل کرتا مگر خدا نے اپنے پیغام کو سہل اور آسان بنانے کیلیے اسے نبی پاک صلعم کی زبان میں ہی نازل فرمایا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ نہ تو آپ صلعم کو اور نہ ہی ان کے پیروکاروں کو دوسری زبان سیکھنے کی مشقت کرنی پڑی اور نہ ہی انہیں قرآن بناں سمجھے پڑھنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلعم کے دین کو عام انسانوں نے سمجھا اور ان کے پیروکار بن گئے۔ اگر اس وقت قرآن اجنبی زبان میں نازل ہوتا تو سوچیں کہ نبی پاک صلعم کو اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں کتنی مشکل پیش آتی۔
مسلمانوں کو اسلام سے بیگانہ رکھنے اور ان کو اپنے دین کی سمجھ بوجھ سے دور رکھنے کیلیے جس نے بھی قرآن بناں ترجمے کے پڑھنے پر مسلمانوں کو لگایا وہ اپنی سازش میں کامیاب رہا۔ اس کی یہ سازش بھی کامیاب رہی جب اس نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی کہ قرآن کو عربی میں ہی پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ناں مسلمان عربی سیکھ پائیں گے اور ناں انہیں قرآن میں کیا لکھا ہے اس کی سمجھ آئے گی۔ اس سازش کو کامیاب بنانے میں عام امام مسجدوں نے بنیادی کردار ادا کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو قرآن عربی میں ہی ختم کرا کے سجمھا انہوں نے اسلام کی بہت بڑی خدمت کر لی ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ نماز میں کیا پڑھتےہیں اور قرآن میں کون کونسے احکامت درج ہیں جو انسان کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ قرآن کو بار بار پڑھنے اور ٹھر ٹھر کر پڑھنے کا اسی لیے حکم ہے کہ ہر مسلمان کو قرآنی احکامات ازبر ہو جائیں اور وہ انہیں عملی زندگی میں قدم قدم پر یاد رکھے۔ ہمارے زمانے میں نوجوانوں کا آپس میں رمضان میں قرآن ختم کرنے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا اور جس نے جتنے زیادہ قرآن ختم کیے ہوتے تھے وہی معتبر قرار پاتا تھا۔ ناں ہمیں کسی نے ترجمے سے قرآن پڑھایا اور ناں ہم نے عربی سیکھنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ ایک آدھ دفعہ عربی سیکھنے کی کوشش کی مگر وہ بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دوسری زبان سیکھنا بہت ہی مشکل تھا۔
ہم سے اگر کوئی پوچھے یا ہمارے بس میں اگر ہو تو ہم تو قرآن اور نماز اپنی اپنی علاقائی زبانوں میں پڑھنے کا حکم دے دیں تا کہ قرآن اور نماز پڑھتے ہوئے آدمی خدا سے براہ راست مخاطب ہو اور اسے پتہ چلے کہ وہ خدا سے کیا مانگ رہا ہے اور خدا اسے کیا حکم دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے عیسائی جہاں بھی گئے انہوں نے انجیل علاقائی زبانوں میں چھاپ کر تقسیم کی جس کی وجہ سے انہیں اپنی بات سمجھانے میں آسانی رہی۔
اب اذان کو ہی لے لیں جس میں واضح طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ بہت بڑا ہے، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلعم اللہ کے رسول ہیں، نماز کی طرف آؤ، فلاح کی طرف آؤ، نماز نیند سے بہتر ہے، اللہ بہت بڑا ہے۔ ہم مسلمانوں میں کتنے لوگ ہوں گے جنہیں اذان کی اصل روح سے آگاہی ہو گی۔ یہی حال نماز کا ہے۔ نماز میں یکسوئی تبھی آئے گی جب نمازی کو معلوم ہو گا کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے۔ ورنہ وہ نماز میں اپنے دن بھر کا حساب کتاب ہی کرنے میں لگا رہے گا۔ اسی طرح قرآن کو اپنی زبان میں پڑھ کر ہی مسلمان ہدایت پا سکتا ہے ناں کہ طوطے کی طرح فر فر عربی میں پڑھ کر۔
ہمارے اس نطقہ نظر کے خلاف قارئین صرف یہی دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں کس نے عربی زبان سیکھنے سے منع کیا ہے۔ لیکن ہمارا استدلال یہی ہے کہ نئی زبان سیکھنے کی کوفت میں کوئی بھی نہیں پڑے گا اور آسانی اسی میں ہے کہ دین کو اپنی علاقائی زبان میں پڑھا اور سیکھا جائے تا کہ ہر بات آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ پندرہ بیس کروڑ کی آبادی کو عربی زبان سکھانے سے بہتر ہے کہ اسے اسی کی زبان میں دین کی تعلیم دی جائے۔ اس کی مثال دنیاوی تعلیم ہے اور مسلمانوں کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک میں ان کی علاقائی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔ جرمنی جاپان فرانس وغیرہ کسی نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ہم مسلمان ہی ہیں جو دینی اور دنیاوی تعلیم اپنی علاقائی زبانوں میں حاصل نہیں کر رہے۔
16 users commented in " قرآن کی سمجھ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعربی ہمارے پیارے نبی کی زبان تھی اس لیے قرآن پاک اسی زبان میں نازل ہوا ۔ جب ہم حج یا عمرے پر جاتے ہیں تو وہاں دوسری زبانوں کے بولنے والے اپنی زبان میں لکھے ہوئے کو پڑھتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن کو صرف پڑھنا مقصود نہیں ۔ اس کو سمجھنا اور عمل کرنا لازمی ہے ۔ ہم قرآن کو عربی میں پڑھ کر اپنا حق ادا کر لیتے ہیں ۔ یہاں میں ایک بات کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ قرآن کا ترجمعہ تو وہی ہوتا ہے لیکن تشریح ہر ایک نے اپنے مطابق کی ہوتی ہے ۔ جس میں کہیں باتیں ایسی بھی شامل ہیں جن پر عمل کرنا مشکل لگتا ہے۔ جب کے اسلام بہت اسان مزہب ہے ۔ اب یہی حال سعودی عرب کا ہے قرآن کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کی ہوئی ہے ،اگر آپ کو لگتا ہے میں نے کچھ غلط کہا ہے تو راہنائی فرما دیں
قرآن کو سمجھنا تو ازحد ضروری ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے ۔
اب آپ بھی اذان ہی کو لے لیں اور آج کے دور کو بھی لے لیں، جہاں انسان ایک دن ایک ملک میں اور اگلے دن کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہے، جیسے ابھی آپ ہی تین ممالک میں گئے تھے، اب بزنس کے لئے آپ کو چین بھی جانا پڑا، لیکن آپ چائنیز سیکھے بغیر بھی چین میں اذان سن کر پہچان لیں گے، برازیل جا کر صرف اذان کی خاطر پرتگیزی سیکھنے سے بچے رہیں گے ۔ آپ ایک طرف سہولت کی خاطر ایک زبان سیکھنے پر جذبر ہیں لیکن اس کی وجہ سے آپ کو اور کتنی زبانیں سیکھنا پڑیں گی؟ اب اس کے بعد نماز دیکھیں اس میں بھی یہی چکر، آپ چین میں مسجد ڈھونڈ لیتے ہیں نماز پڑھنے جاتے ہیں آگے نماز مینڈرین میں پڑھی جا رہی ہے، آپ کتنا خضوع و خشوع سے نماز پڑھیں گے، اور ان لوگوں کا کیا کریں گے جن کے دل میں یہ خیال گر جائے کہ پتہ نہیں نماز میں کوئی مشرکانہ بات نہ کہی جا رہی ہو ۔ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج پوری دنیا ایک عالمگیر مملکت کی بات کرتی ہے جس میں قومیت یا سرحدوں کی بنیاد پر بڑائی نہیں ہو اور یہ بات ہی اسلام کرتا ہے، اور عالمگیر مملکت کے لئے کم از کم ایک عالمگیر زبان ہونا چاہیے، تو اسلام کی عالمگیر زبان عربی ہے ۔
دوسری مثال آپ نے انجیل مقدس کی دیگر زبانوں میں دی، لیکن سب مسلمانوں کی طرح آپ بھی یقین کرتے ہیں کہ انجیل میں تبدیلیاں کر دی گئی ہیں، لیکن آپ نے یہ سوچا کہ یہ تبدیلیاں کیسے وقع پذیر ہوئیں ۔ پہلے ہبریو سے رومن میں ترجمہ، پھر اس ترجمہ کہ بنیاد پر آگے دیگر زبانوں میں ترجمہ اور آج حالت یہ ہے کہ انجیل کے سینکڑوں ورژن ہیں، جن کی نہ صرف زبان الگ ہے بلکہ بہت سی باتیں بھی ایک دوسرے سے مشترک نہیں ۔اگر ان کے پاس بھی اصل موجود ہوتا تو آج کسی ایک انجیل پر عیسائی متفق ہوتے ۔ پھر اوپر تانیہ رحمان کی بات دیکھیں کہ اصل کے باوجود ہمارے سامنے ہی مختلف فرقہ کے لوگ آیات کی توجہیہ اور تشریح مختلف انداز سے کرتے ہیں، اور اصل موجود نہ ہونے کی صورت میں حالات کیا ہوتے؟ میرا خیال ہے اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں ۔
مجھے آپ سے اتفاق نہیں۔
شاید آپ کو کبھی انگریزی سے اردو یا اردو سے انگریزی ترجمہ کرنے کا اتفاق ہوا ہو۔ جو لوگ بالخصوص ادبی کتابوں کے تراجم کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ صحیح صحیح ترجمہ کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ کچھ لوگ غیرملکی شاعری کا ترجمہ کرتے ہیں اور غیرملکی شاعری کے وہی تراجم لوگوں میں قبولیت حاصل کر پائے ہیں جن کے مترجم خود بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔
شاعر یا ادیب تو اپنے کسی ہم عصر ادیب شاعر کی تخلیق کا ترجمہ کرنے میں پھر بھی انصاف کر سکتے ہیں (کیونکہ ممکن ہے وہ اتنے ہی اچھے تخلیق کار ہوں جتنے ان کے غیرملکی زبان کے ہم عصر) لیکن اللہ تعالی کی برابری کون کر سکتا ہے۔ کون خدا کے الفاظ کا درست نعم البدل دوسری زبان مین دے سکتا ہے یا دینے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ قرآن پاک کسی بھی زبان میں ہوتا دوسری زبان میں ترجمے کے وقت یہی صورتحال درپیش آتی۔
قابلِ توجہ بات ہے کہ قرآن پاک کی آیات میں چھپے کئی رموز ایسے ہیں جنہیں انسانی عقل پوری طرح آج بھی گرفت میں نہیں لے سکی۔ بہت اچھے تراجم اور تفاسیر میں بعض جگہ کسی آیت کے ترجمے میں مترجم قطعیت سے کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں اور ایک دو مختلف معنی پیش کیے جاتے ہیں۔
ایک انسان ویلیم شیکسپئر کے لکھے ڈراموں کو ان کی اصل زبان یعنی قدیم انگریزی میں پڑھا کر اس کی تشریح میں گھنٹوں صرف کیے جاتے ہیں۔ کیا یہ بے سبب ہے؟ بھلا کسی نے تجویز دی کہ جناب شیکسپئر کے دور کی انگریزی کو چھوڑیئے، ہم پاکستانی یونیورسٹیوں میں شیکسپئر کا اردو ترجمہ پڑھا دیں گے بس کافی ہے؟ کیا یہ منطقی ہوگا؟
تو پھر اللہ تعالیٰ کے کلام کے بارے میں سہل پسندی کے خیالات کیوں۔ ماضی میں کئی لوگ نماز کو اردو ، پنجابی یا کسی دوسری زبان میں میں ادا کرنے کے خیالات پیش کر چکے ہیں۔
رہی بات قرآن پاک کو سمجھنے کی تو یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں، بس معمولی سی توجہ چاہئے۔ اور اگر توجہ نہ ہو تو عربی جاننے کے باوجود قرآن پاک کو نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ آیات کا درست مفہوم ان کے شان نزول اور ان سے متعلقہ حدیث کو سمجھے (جس کا آسان طریقہ مستند تفسیر پڑھنا ہے) بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
اور ایک آخری بات یہ کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کی آیات (نشانیاں) ہیں، یہ verses نہیں کہ ان کے ترجمے سے کام چل جائے گا۔
———————————-
ہی وجہ ہے عیسائی جہاں بھی گئے انہوں نے انجیل علاقائی زبانوں میں چھاپ کر تقسیم کی جس کی وجہ سے انہیں اپنی بات سمجھانے میں آسانی رہی۔
———————————-
اگر قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے نہ لیا ہوتا تو آپ کی تجویز پر عمل کرکے قرآن مجید ، فرقانِ حمید کا وہی حال مسلمان مترجموں نے کر دینا تھا جو آجکل انجیل کا ہے۔ جتنے ورژن انجیل کے عیسائیوں نے کئے ۔۔۔۔ مسلمان اس سے دو چار زیادہ ہی کر دیتے۔
مجھے آپکے خیالات پر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔
پہلی بات تو یہ کہ آپ اپنی یہ غلط فہمی دور کر لیں کہ بائبل انگریزی میں نازل ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ قرآن مجید اور بائبل میں یہ فرق ہے کہ بائبل تصنیف کی گئی اور وہ بھی غالباَ عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے کئی دہائیوں (اگر صدیاں نہیں تو) بعد۔ یہ نقطہ اسلئے کہنا ضروری ہے کہ کسی مصنف کی تحریر کا ترجمہ کر لینا تو آسان ہے گرچہ حق پھر بھی ادا نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان کو ترجمہ کرنا اور پھر پورے یقین سے یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ وہی فرمانا چاہتے تھے جو کسی مترجم نے کہا، نا ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی ہی میں قرآن کریم کے بہت سے ترجمے ہیں اور تقریباَ سب ہی جید علما کے کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے اخلاص کے ساتھ یہ کام کیا۔ اب آپ کونسے والے ترجمے کو صحیح سمجھ کر اس پر عمل کریں گے؟
آپ نے شائد کبھی کسی ناول یا شعری مجموعے کو ایک سے زیادہ زبان میں نہیں پڑھا ورنہ آپکو اندازہ ہو جاتا کہ ترجمے اور اصل تحریر میں کتنا ربط باقی رہتا ہے۔
نماز صرف عربی زبان میں ہی ہے اور نبی کریم صلعم کے ہی دور میں عجمی یا غیر عرب مسلمان تھے مثلاَ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلعم نے انھیں فارسی میں نماز پڑھنے کو نہیں کہا ورنہ آپ صلعم جانتے تھے کہ جلد ہی اسلام دور دور تک پھیلے گا اور اگر قباحت نہ ہوتی تو آپ صلعم ضرور مقامی زبان میں نماز کا حکم دیتے۔ یہی صورت خلفا راشدین کے دور میں رہی ورنہ ابو بکر یا عمر رضی اللہ عنہم اجمعین یہ حکم صادر فرما دیتے۔ آپ بھول رہے ہیں کہ نماز عربی زبان کے بول نہیں بلکہ اسمیں قرآن کریم کی آیات بھی شامل ہیں اور جب قرآن کریم کا وہ ترجمہ کرنا ناممکن ہے جو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں فرما دیا تو نماز بھی کسی اور زبان میں نہیں ہو سکتی۔ یہ تو بہر حال ہرگز متنازعہ امر نہیں اور غالباَ سب فرقوں کے علما اس پر متفق ہیں کہ نماز عربی کے علاوہ کسی زبان میں نہیں ہو سکتی۔ میرا نہیں خیال کہ وہ سب علماَ بیوقوف یا جاہل یا بدنیت ہیں اور انکی نسبت بلکہ خود صحابہ کی نسبت آپکا دینی علم زیادہ ہے۔
جہاں تک عربی زبان سے نابلد ہونے کی بات ہے تو جو صاحبان سعودیہ یا دوسرے عرب ممالک میں جاتے ہیں، انکی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ نہ کچھ عربی سیکھ لیں، اسمیں ہندو، مسلمان سکھ سب شامل ہیں اور اسمیں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو انتہائی کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔
اسی طرح یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن بہت سے پاکستانی ہیں جو عموماَ کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن میں نے خود ایسے پاکستانی دیکھے جو دکانوں، بسوں، سٹیشنوں پر پھول بیچتے ہیں یا ٹیکسی چلاتے یا اسی قسم کے دوسرے کام کرتے ہیں لیکن مقامی زبان مثلا ڈچ، جرمن، ہسپانوی یا اطالوی بولتے ہیں اور اسکے مقابلے میں انکا انگریزی کا علم بھی واجبی ہوتا ہے، جو پھر بھی کسی نہ کسی حد تک پاکستان میں بولی یا پڑھائی جاتی ہے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ جب دنیاوی فائدے کی بات آتی ہے تو میٹرک پاس بندہ بھی انجان زبانیں سیکھ لیتا ہے لیکن معاملہ اسلام کا ہو تو ہم بضد ہیں کہ ہم اردو میں ہی قرآن پڑھیں گے، جبکہ ہمیں علم ہی نہیں کہ مترجم نے ترجمہ کتنا صحیح اور کتنا غلط کیا ہے۔ قرآن کے ترجمہ کیے جانے سے کہیں نہیں روکا گیا لیکن ترجمے پڑھ پڑھ کر کوئی کسی مضمون کا ماہر ہرگز نہیں بن سکتا۔
مجھے امید ہے میری بات آپکو سمجھ آئی ہو گے اور آپ اس پر کھلے دل سے غور کریں گے۔
چند اور باتیں بھی کہنا چاہتا ہوں۔
آپ نے لکھا کہ بندہ خدا سے براہ راست مخاطب ہو تو اچھا ہے۔ آپکو اپنی زبان میں دعا کرنے سے کسی نے نہیں روکا۔
آپ سمجھتے ہیں کہ اردو یا کسی دوسری زبان میں قرآن پڑھنے سے مولوی کی اجارہ داری ختم ہو گی حالانکہ اس طرح تو آپ خود ہی کسی کا ترجم شدہ قرآن پڑھ کر گویا اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہیں۔ عربی سے علم آپکو اس استحصال سے بچا لیتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ یورپی اپنی اپنی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ لیکن یہ تعلیم بہت بنیادی سطح کی ہوتی ہے اور ہر یونیورسٹی کے طلبا انگریزی کی شدھ بدھ بھی رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ انگریزی میں چھپنے والی تحقیق پڑھ سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی سوچئے کہ اگر ہر کوئی اپنی ہی زبان پر اصرار کرے تو اعلیٰ معیار کی تعلیم یا ریسرچ کہ جسکا دارومدار مختلف ممالک کے سائنسدانوں کے ملک کر کام کرنے پر ہے، نا پید ہو جائے گی۔ ہر ملک ایک ہی تحقیق اپنی اپنی زبان میں کریگا اور علم کا بہاؤ ایک زبان کی قید سے آزاد ہی نہیں ہو گا۔
میری مودبانہ گذارش ہے کہ آپ تھوڑا سا وقت اپنی تحریر کے مندرجات پر غور کرنے میں بھی لگا لیا کریں تو مجھ جیسے کم عقل قارئین بہت ممنون ہونگے۔
ہمیںمعلوم تھا کہ ہمارے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جائے گا اوہ بھی شدید قسم کا۔ مگر تبصروں کے بعد ایک بات تشریح طلب ہے۔ اگر قرآن کے ترجمے پر اختلاف ہے تو پھر عام آدمی کے قرآن پڑھنے کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے یعنی آدمی پہلے عربی سیکھے۔ اب جس طرحقرآن کے تراجم مختلف کئے جانے کا خطرہ ہے تو وہیںپر عربی سیکھتے ہوئے بھی یہ استاد پر منحصر ہو کہ وہ آپ کو کس طرح کی عربی پڑھاتا ہے۔ ماضی پر اگر غور کریں تو ہمیںیہ جان کر دکھ ہو گا کہ آٹے میںنمک برابر بھی غیرعربی مسلمانوںنے عربی سیکھنے کی کوشش نہیںکی۔ اس صورتحال میں غیرعربی مسلمانوں کے پاس قرآن عربی میںبناںترجمے کے پڑھنے کا راستہ بچتا ہے اور اسی سے ہمیںاختلاف ہے۔
ہمارے خیال میںہمیںجذبات میںبہ کر اپنے دین پر بحث کرنے کی بجائے زمینی حالات اور ماضی کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی بہتری کیلیے کوشش کرنی چاہیے۔ یعنی فی زمانہ اکثریت کیا کر رہی ہے اور ان کی بہتری کیلیے کونسا طریقہ بہتر ہے۔
فیصل صاحب، آپ کا غصہ سر آنکھوں پر۔ ہم نے اپنا نطقہ نظر پیش کر دیا اور آپ نے اپنا، اب قارئین تحریر اور تبصرے پڑھ کر آسانی سے اپنی راہ کا تعین کر سکیںگے۔
میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا،
قر آن کو کسی دوسری زبان میں ترجمہ کر کے ایک تو پورا مفہو م نہیں بنایا جا سکتا
دوسری بات یہ کہ عربی ہی وہ زبان ہے جو اپنے اندر اتنی وسعت رکھتی ہے کہ قرآن کی کہ تعلیمات خدا وندی اس میں بیان کی جا سکیں،
یہ ہم لوگوں کی غلطی ہے کہ ہم عربی نہیں سیکھتے، عربی ہی وہ زبان ہے جو محشر میں استعمال ہو گی، تمام مسلمانوں کو یہ زبان سیکھنی چاییے
اور قراۡن کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کر کے اسے سمجھنا ، میںنیہں سمجھتا ایک درست عمل ہے
میں فیصل صاحب کی بات سے ۱۰۰ فیصد اتفاق کرتا ہوں
اورآپ کسی بھی استاد سے عربی سکیھیں، سیکھیں گے تو عربی ہی نا
اب استاد اپنی طرف سے حروف تو نہیں پڑھا سکتانا ، نہ ہی کسی زبان میںاپنی طرف سے کوئی اضافہ کر سکتا ہے، اور نہ ہی کسیی لفظ کا معانی تبدیل کر سکتا ہے
جہانزیب صاحب آپ کا تبصرہ سپیم میںچلا گیا تھا جس کا ہمیںآج پتہ چلا ہے اور شائع کر دیا ہے۔ اس تکلیف پر معذرت۔
سب سے پہلے میں محترمہ تانیہ رحمان صاحبہ،جہانزیب صاحب،عارف انجم صاحب،مرزا یاسر عمران صاحب،مرزا یاسر عمران صاحب، اور خصوصی طور پہ جناب فیصل صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان سب صاحبان نے اپنے تبصرہ جات سے غیرت اسلامی کا حق ادا کیا ہے۔ اور اجمل صاھب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے اپنے بلاگ میں محترمہ شگفتہ کے سوالات کا بھرپور جواب لکھا ہے
سوچتا ہوں دنیا کیا کیا ہو جائے گی۔
محترم افضل صاحب!
اسلام ایک روشن خیال اور دنیا کا جدید ترین مذھب ہے اور اسلام کی تشبہ ایک ایسے سمندر سے دی جاسکتی ہے جس میں تمام سابقہ مذاھب اور شریعتیں مختلف دریاؤں کی ماند مدغم اور منسوخ ہوجاتی ہیں اور اسلام، اللہ سبحان و تعالٰی کے بیجھے ہوئے تمام سابق مذاھب کی، رہتی نیا تک آخری شکل ہے۔ اسلئیے اسلام میں نہ صرف بحث و مباحثہ کی اجازت ہے بلکہ یک نیتی سے کیے گئے مباحثہ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ مگر اسکے لئیے چند ایک بنایدی شرائط میں سے سے ایک شرط یہ بھی ے کہ یہ مباحثہ پراپر فورم پہ اور مخصوص طریقہ کار کے تحت کیا جائے۔جبکہ اس طرح بلاگنگ کے ذریعیے مندرجہ بالا آپکی تحریر سے عام کچے زہنوں میں اسلام کے بارے میں ابہام اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اور آپ کی تحریر سے بجائے فائدہ ہونے کے الٹا نقصان ہوگا اور اسکا گناہ ثواب بھی آپ پہ ہوگا۔
آپ نے کچھ عرصہ قبل شیر شاہ سوری کے بارے میں عجیب سی باتیں لکھیں۔ پھر رامی حرامی ۔۔ نامی تحریر سے عربوں کے بارے میں تحریر لکھیجس سے منافرت پھیلی۔ وسظی یورپ کی نو آزاد اکثریتی مسلم ریاست کو ناحق طور پہ عیسائی ریاست قرار دیا۔ نیک عالم مرحوم کےبارے میں لکھی گئی تحریر کا بھی واسطہ حقائق سے دور دور تک نہیں تھا۔ کبھی آپ کو دوبئیکی مسلم ریاست میں وہ عیب نظر آتے ہیں جو آپ کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں نہیں دکھتے۔ یا تو آپ کبھی کبھار ارادتاً ہم سے شرارت کرتے ہیں یا پھر آپ کے پاس وقت اور معلومات کی کمی کی وجہ سے آپ جلدی میں تحریر لکھ لگاتے ہیں ۔ بہرحال اس دفعہ آپ نے نہایت ہی نازک موضوع پہ نہائیت مایوس کن تحریر لکھی ہے۔ جس سے کم ازم مجھے نہائت دلی صدمہ ہوا ہے۔ کوئی بھی عام سی عقل کا مالک انسان بھی کسی کے مذھبی معاملے کو ایسے نہیں چیھڑتا۔ جیسے آپ نے اس تحریر کے ذریعیے مسلمانوں کی چھیڑ کی ہے ۔ جو نہائیت افسوسناک ہے۔
سبحان اللہ آپ کو یہ گمان کیوں ہوا کہ یہ نکتہ رسانی صرف آپ کے ذہن کی کارسائی ہے ۔ محترم! ماضی میں بھی اس موضوع پہ بہت سے لوگ مباحثت کر چکے ہیںاور اسی نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ قرآن کریم اور نماز اور حج اور مزید عبادات اسلامی کی زبان صرف اور صرف عربی ہے اور قرآن کریم کے عربی میں نازل ہونے اور اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان عربی کے حق میں ہزار ہا ہزار دلیلیں موجود ہیں جن کے لکھنے کا یہ بلاگ متحمل نہیں ہوسکتاکہ یہ ایک پورا دفتر ہے۔
ہمارا آپ کا واسطہ اور غالباً تمام قارئین اکرام کا آپس میں رشتہ فقط لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے سے ہے۔ علم میں عالم فاضل ہونے کا دعوایٰ یہاں پہ کسی کو بھی نہیں اور کم از کم میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سوچتے ہیں کہ خدا کے دئیے ہوئے علم کے دریا سے سیراب ہونے کے لئیے عمر خضر بھی بہت تھوڑی ہے ۔ اسکے بعد بھی ہم شاید علم کے اتنے بڑے سمندر سے ایک قطرہ بھر بھی نہ سمیٹ سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اندر کے بت ہمیں تن جانے پہ مجبور رکھیں اور یہ ادا خدا کو پسند نہیں۔ کیونکہ ہر بات پہ قادر ہونا یہ صرف اللہ سبحان و تعالٰی کی ہی صفت ہے انسان بہر حال مجبور محض ہے۔
افضل صاحب!
اتنی لمبی تہمید کا مطلب محض یہ ہے کہ میں یا غالباً دیگر صاحبان بھی اسلام اسکالر یا عالم نہیں کہ عربی زبان اور عربی قوم کے بارے میں آپ کی تشنگی کی تسلی کر سکیں اس کے لئیے انتہائی ضروری ہے کہ آپ کسی مستند اسلامی اسکالر یا عالم سے اپنی تسلی کریں۔
اوپر فاضل تبصرہ نگاران نے اس موضوع پہ تقریباً ہر پہلو کا احاطہ کر دیا ہے۔ پھر بھی اگر آپ کے ذہن میں تشنگی ہے۔ اور آپ کا ذہن اسلام کے بارے میں کچھ باتوں کا احاطہ نہیں کر پارہا تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسے سوالوں کا محض اپنی ذاتی عقل کی استعداد پہ جو نتیجہ آپ اخذ کریں اسے حرف آخر کے طور پہ بلاگ میں لکھ دینا احسن قدم بہرحال نہیں۔ ایسا قدم ایک میٹرک پاس کو بھی زیب نہیں دیتا جبکہ آپ(اگر میں غلطی پہ نہیں تو) ماشاءاللہ میکینکل انجنئیر ہیں۔ اور علم کوئی بھی ہو انسان کو شعور اور آگہی لازمی بخشتا ہے۔
آپ گویا ہیں ۔
ُُصلعم کو اور نہ ہی ان کے پیروکاروں کو دوسری زبان سیکھنے کی مشقت کرنی پڑی اور نہ ہی انہیں قرآن بناں سمجھے پڑھنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلعم کے دین کو عام انسانوں نے سمجھا اور ان کے پیروکار بن گئے۔ اگر اس وقت قرآن اجنبی زبان میں نازل ہوتا تو سوچیں کہ نبی پاک صلعم کو اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں کتنی مشکل پیش آتی۔ُُ
ہمیں آپ کے لفظ ُپیروکار، سے بھی شدید اختلاف ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پہ ایمان لانے والے مسلمانوں کے لئیے یہ لفظ نامناسب ہے۔
اور یہ بھی یاد رکھیں جب اللہ سبحان و تعالٰی کسی بات کا ارادہ و فیصلہ کر لیں تو اللہ سبحان و تعالٰی کو پھر کوئی مسکل نہں ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پہ عربی میں قرآن نازل ہونے کا فیصلہ روز اول سے اللہ سبحان و تعالٰی کر چکے تھے۔ بعین اسی طرح جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو نبی بنا کر بیجھا جانا اللہ سبحان و تعالٰی نے لوح محفوظ پہ لکھ رکھا تھا۔ جس طرح ابراھیم علیۃ والسلام کے بیٹوں اسمعیل علیۃ والسلام اور اسحاق علیتہ والسلام کی نسل سے اسحاق علیہ والسلام سے جتنے پیغمبر و ابنیاء آئے انہوں نے عبرانی زبان میں اللہ کا پیغام دیا اور جناب اسمٰعیل علیۃ والسلام کی نسل سے صرف ایک ہی نبی آئے اور وہ جناب نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عربی ہوئے اور عربی میں تشریف لائے۔ اور یہ سب لوح محفوظ پہ خدا نے خود لکھ دیا تھا، طے کر دیا تھا۔ اور خود خدا نے عربی زبان کو پسند کیا ہے۔ اس لئیے نہ خدا کو کوئی مشکل ہوتی ہے اور نہ اسکے ابنیاء اکرام کو۔
قرآن، نماز۔ حج اور دیگر کئی عبادات صرف اور صرف عربی زبان میں ہی کی جاسکتی ہیں اور عربی میں ادا کرنے ی لازمی شرط ہے اور اس پہ دنیا بھر کے تمام مسالک اسلام متفق ہی اور یہ طے شدہ ہے ، اور اسلام میں طے شدہ امور پہ کوئی حجت بقی نہیں رہتی ۔ جیسے سؤر ۔ شراب ، سود، قتل، زنا وغیرہ اسلام میں منع ہیں اور ان پہ شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں اسی طرح عربی میں نماز ہونا طے ہے۔
دوسری قوموں اور مذہبوں سے اپنے دین کے بارے میں قیاس کرنا کمزور ایمان اور کمزور ارادوں والے کیا کرتے ہیں۔ اور کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مزاھب سے اپنے مذھب کے بارے میں قیاس کرے کہ وہ یوں کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی کریں۔ اس سے انتشار اور فتنہ پھیلتا ہے۔
اسلام عالمگیر مذھب ہے اور اس عالمگیری میں عربی زبان کا بہت اہم اور بنادی رول ہے آپ چین روس امریکہ یا انڈونیشیاء کہیں بھی باقی مسلمانوں کے ساتھ مسجد یا اسلامی تقریب عید وغیرہ میں لمحوں میں گھل مل جاتے ہیں اور آپ کو نماز میں پتہ ہوتا ہے کہ امام کیا کہہ رہے ہیں اور کس وقت آپ نے کونسی رکعت میں جانا ہے اور کب سلام پھیرنا ے اور باقی دیگر لوگوں کے ساتھ سب کرتے ہوئے آپ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے کیوںکہ سب کچھ آپ کا جانا پہچانا ہوتا ہے کیونکہ آپ نماز عربی میں پڑھتے آرہے ہوتے ہیں اور اجنبیت ختم کرنے میں عربی کا ایک بڑا فائدہ مسلمانوں کو یہ بھی ہے۔
عربی دنیا کی وسیع المعانی فصیح و بلیغ زبان ہے اس کے اندر ہر قسم کی حالت حالات ایجاد ایجادات فعل احساس کے لئیے ایک نہیں سینکڑوں الفاظ موجود ہیں۔ اور عربی کی برابری کوئی دوسری زبان نہیں کر سکتی۔
اور اسی وجہ سے آپ جتنی بار قرآن پڑھیں اتنی بار آپ پہ فہم و ادراک کے نئے در وا ہوتے چلے جائیں گے۔
میں نے کسی جگہ محسوس کیا ہے کہ آپ مولوی سے بھی چڑے ہوئے ہیں ۔ یہ جو آج بر صغیر پاک و ھند بشمول بنگلہ دیش و برما نیپال میں اسقدر مسلمان پائے جاتے ہیں اور الحمد اللہ اسکے پیچے سینکڑوں سالوں سے مولوی کا ہاتھ رہا ہے۔ کیونکہ اس زمناے کے مسلمان بادشاءاور امراء کو محض اور محض اپنے اور اپنی اولاد کے لئیے تخت و تاج محفوظ کرنے سے غرض و غایت ہوتی تھی نہ کہ اسلام یا مسلمانوں سے۔ اسکی ادنٰی سی مثال پاکستان کی موجودہ حکومتوں کا محض اپنے اقتدار کی خاطر اسلام سے جو برتاؤ ہے اسے دیکھ لیں اور تصور کی جئیے کہ تب جب بادشاہ کا ہر لفض آئین اور قانون ہوا کرتا تھا تو تب اسلام ے خلاف انھہوں نے کیا کچھ نہیں کیا ھوگا جبکہ ان کو اپنا اقتدار صرف اگلے پانچ سال نہیں بلکہ کئی آئیندہ نسلوں تک محفوظ کرنا ہوتا تھا اور ساتھ نہلے پہ دہلا کہ ہم اکثریت گھر کے بھیدی ہنود تھے اور مسلامن اقلیت میں تھے تو بادشاہوں کی اکثریت کو اپے تاج و تخت سے غرض ہوتی تھی نہ کہ اسلام سے ۔ وہ بادشاہ اسلام کو اپنے لئیے خطرہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ اسلام اور بادشاہت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسلام میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں۔ تو ایسی صورت میں مولوی کا ہم پہ احسان ہے کہ اس نے اپنے بساط بھر علم کے بوتے پہ ہم مسلمانوں کو دور جہالت میں غیر مسلم ہونے سے بچائے رکھا اور آج ہم اور ہمارے آئیندہ نسلیں مسلمان ہیں یہ مولوی کا ہم پہ احسان ہے ۔ یہی وہ وجہ ہے کہ ہمارے ہاں طریقت پہ بہت زور رہا کیونکہ مولوی صاحب کو جو علم ہوتا تھا جو طریقہ بتا دیا جاتا وہ اس پہ سختی سے عمل کرنے کی تاکید کرتے ۔ جس میں بے شک کچھ باتیں ضروت سے زائد ہوتی تھیں مگر یہ اسی مولوی اور طریقت کی وجہ سے ہوا ہے کہ اتنی بڑی آبادی اج مسلمان ہونے کی صورت میں موجود ہے۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ علم آجائے تو طریقت موقوف اور شریعت لازم ہوجاتی ہے اور ہمیں صاحب علم ہونے اور صاحب استطاعت ہونے کے بعد مولوی صاحبان اکرام کے کردار اور معیار کو بھی درست سمت میں بڑھانا چاہیے تھا۔
یہ ایک فیشن سا بن گیا ہے اور سستی شہرت حاصل کرے کا ایک ذریعیہ بھی کہ جس کا دل چاہے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں سے ٹھٹھا کرتا چلا جائے اور جمہوریت کے نام نہاد نام لیوا اسی حوالے سے مدرسوں کو بھی تنقید کو بھی تنقید کا موضوع بناتے ہیں ۔ حالانہ جمہوریت کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جس بات پہ اکثریت متفق ہو اسے تہہ دل سے قبول کیا جائے۔ اور اپنی بات پہ اڑے رہنے کو انتہاپسندی کہاجاتا ہے جبکہ سای دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد سے زائد مسلمان اسلام پسند ہیں اور اسلامی شعائر پہ تنقید کو برا جانتےہیں اور اپنی اسلامی شناخت پہ حملہ تصور کرتے ہیں تو پھر اسلام اور اسلامی شعائر سے دل لگی کا سلسلہ بھی بند ہو جانا چایہے۔ یہ ساری تہمید اس لیے باندھ رہا ہوں کہ ادہر کہیں پاکستان کے مدرسوں کا بھی زکر آیا ہے اور لازمی طور پہ ہر قسم کی برائی کو ناجائز طور پہ مدرسے سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔
اگر لوگ اپنی بری بھلی ٹیکسیوں ویگنوں بسوں اور ٹرکوںکی شکل میں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں لوگوں اور اجناس و مال کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہ کریں۔ تو پورے ملک کا نظام ٹھپ ہو کر رہ جائے۔ اور اگر پاکستان میں عطائی ڈاکٹر (جن کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں) نہ ہوں تو بڑی تعداد میں بیمار لوگ تو علاج کے بغیر بستر پہ ہی مر جائیں۔ کہ حکومت کے پاس تو نہ ہی ساری عوام کے لیے ہسپتال ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر ۔ جو حکومتیں اسقدر نااہل اور کرپٹ ہوں وہ عام آدمی کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کیا خاک کریں گی؟
ہماری حکومتیں انتہائی نااھل ہیں جو اپنے سرکاری اسکول تک ٹھیک طریقے سے نہیں چلا سکتیں۔ ایسے میں وہ مدرسوں کو کیسے چلا پائیں گی۔؟ جبکہ بہت سے مدرسوں کا تعلیمی معیار اور اخلاقی اٹھان پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی سے اعلٰی ہے۔
پاکستان میں مدرسے بہت بڑی این جی اوز ہیں جو تعلیم کے دروازے ہر کس و ناکس پہ کھولے ہوئے ہیں ورنہ سوسائٹی میں اکثریت کے بچوں کو تعلیم کے عدم مواقع کی وجہ سے محرومیوں سے وہ انتشار جنم لیتا کہ ہماری سو کال جدید کلاس اور کومت اسے سنبھال نہ پاتی۔
جناب افضل صاحب میری اور دوسرے کچھ تبصرہ نگاران کی کچھ باتیں آپ کو تلخ و ترش محسوس ھونگی مگر یقین مانیں اس میں کسی کو آپ سے زاتی عناد نہیں ہے اور آپ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو آپ کو ان باتوں میں سے سب کے پیار کی اور آپ کے لیئے نیک خواہشات کی خوشبو آئے گی۔
خیر اندلیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلوا ، اسپین
حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توقلت ان اللہ علی کل شئی قدیر
سب مبصرین
جزاک اللہ خیر ۔ سبحان اللہ ۔ لطف آ گیا ۔ میرا خون بڑھ گیا ۔ اپنی قوم کی جوان نسل کو درست علم کا حامل دیکھ کر اللہ کے شکر میں آنکھیں نم ہو گئیں ۔ میں نے جان بوجھ کر پہلے تبصرہ نہیں کیا تھا اور اس پر اپنے بلاگ پر بھی مزید نہ لکھا ۔ الحمدللہ جو میں چاہ رہا تھا میرے سوہنے اللہ کی کرم نوازی سے ہو گیا ۔ اللہ آپ سب کو علم میں مزید دسترس عطا فرمائے ۔ میں نے اس تحریر کے متعلق اپنے بلاگ پر مزید آج لکھ دیا ہے
یہ ہماری ان تحریروںمیں سے ایک تحریر تھی جس پر ہماری توقع کے مطابق ایک بھی قاری ہمارے حق میںنہیںبولے۔ ہم اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن خدا گواہ ہے ہماری نیت میںنہ تو فتور تھا اور نہ ہی ہم نے جان بوجھ کر اپنے مسلمانوں کو تنگ کرنے کی کوشش کی بلکہ زمینی حالات کے مطابق اسلام کے پھیلاؤ کیلیے تجاویز پیش کیں۔ اگر ہماری تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو اور اس سے شر کی بو آتی ہو تو اسکیلیے ہم سب سے معذرت خواہ ہیں۔ بقول ہمارے قارئین کے خدا ہمیں ہدایت دے اور ہمیںسیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک بات کی تشنگی پھر بھی رہ گئی ہے کہ جن مسائل کا حل ہم نے پیش کیا وہ مسائل وہیںکے وہیںہیں اور کسی نے ان مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش نہیںکی۔
السلام علیکم!
جہانزیب صاحب کے دلائل کافی وزنی ہیں اور تھوڑے فائدے کیلئے آپ زیادہ نقصان کروا لیں گے۔
مزیھ یہ کھ قرآن کا ترجمھ پڑھنے سے بھی مسئلھ حل نہیں ھو سکتا کیونکھ قرآن کی سمجھ ایک علیحدہ چیز ھے‘ ابن عمر رضی اللہ عنھ نے فرمایا میں نے سورہ البقرہ ٨ سال میں ختم کی۔ اب دیکھیئے عربی تو انہیں بھی آتی تھی۔ پس قرآن کو پڑھنا اور بات ھے سمجھنا اور بات ھے۔ اگر سمجھنا نہیں تو بس پڑھنا کافی ھے۔
ایک عام آدمی کیلئے ان مسائل کا حل یہ ھے کھ
١- قرآن کو روز بطور ثواب کے پڑھنا جاری رکھیں۔
٢- جو پڑھیں اس کا ترجمھ بھی پڑھ لیں تاکھ پتہ چل جائے پڑھا کیا ھے۔
٣- وعظ و نصیحت کیلئے مستند علماء کی کتابیں مل جاتی ہیں ان کا مطالعھ کریں۔
انشاءاللہ بہت فائدہ ھو گا۔
اگر واقعی سمجھنا چاھتے ہیں تو کسی مدرسے میں باقاعدہ داخلھ لیں‘ اگر دن کے اوقات میں نہیں جا سکتے تو اگر اسلام آباد\راولپنڈی پاکستان میں ہیں تو بتائیںشام کے اوقات کا کوئی مدرسھ آپ کو بتا دیتے ہیں‘ آخر وھاں جو لوگ سارا دن محنت مزدوری کے بعد پڑھنے آتے ھیں تو یہی لگن ھے نا کھ دین کو سمجھیں۔
ایک بات یاد رکھیے لوگوں کو جتنی (ضرورت سے زیادہ) آسانی دیں گے لوگ مزید سست ہوتے جائیں گے ھاں دین کی شکل کچھ سے کچھ بن جائے گی۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی مادری زبان اردو یا پنجابی ہے مگر ہم ضرورت کے پیش نظر انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور اس میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے یھ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ اگر ہماری دینی ضرورت اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ ہمیں عربی زبان سیکھنی چاہیے تو اس میں پس وپیش کیوں؟ قرآن کریم کے علاوہ ہمارا سارا دین عربی زبان میں ہے یعنی احادیث مبارکھ ، ہماری فقھ اسلامی اور اسلامی تاریخ۔
بر صغیر کا علاقھ ایسا ہے کہ جس کے لوگوں نے دین تو قبول کیا مگر دین کی زبان قبول نہیں کی اگر آپ تاریخ میں دیکھیں تو اوائل میں جب مسلمانوں کو اللھ رب العزت نے مختلف فتوحات سے نوازا اور مختلف علاقوں اور قوموں کے لوگوں نے اسلام قبول کیا تو بجائے یھ کرنے کے کہ دین کو وہ اپنی زبان میں سمجھیں انہوں نے دین کے ساتھ ساتھ اس کی زبان کو بھی قبول کیا ۔ اور دین کو اس کی اپنی زبان میں سمجھا اگر آپ تاریخ میں نظر دوڑائیں تو آپ کو سینکڑوں ایسے علماء ملیں گے جو عرب تو نہیں تھے مگر انہوں نے عربی زبان میں ایسی ایسی تصانیف فرمائیں کھ جو تمام امت کے نزدیک معتبر و معتمد ہیں جن میں تفاسیر ، احادیث کی شروحات ، فقھ اسلامی (islamic law) اور دیگر علوم کی کتابیں شامل ہیں
لہذا اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتہ ہمیں اس طرف بھی ضرور توجھ دینی چاہیے۔
جزاک اللھ خیرا
والسلام
Leave A Reply